سہیل سالم
رعناواری سرینگر ،9103654553
بقول ذکیہ مشہدی:
’’دشت بے نوا‘‘ پنجاب میں نشہ خوری کے موضوع پر لکھا گیا ناول ہے جس کے لئے مصنف نے مختلف علاقوں کادورہ کر کے وہاں ان خاندان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور متاثر افراد سے بات چیت کر کے حالات کا خود اندازہ کیا، اخباری رپورٹرں یا سننے میں آنے والی باتوں کا سہارا نہیں لیا حالانکہ ہم جو معلومات گردوپیش سے حاصل کرتے ہیں وہ بھی ناول یا افسانوں کے لئے خام مواد فراہم کر سکتی ہیں۔ لیکن ’’دشت بے نوا‘‘ کے کر دار انکھوں دیکھی سے اخد کئے گئے ہیں۔
جدید دور میں انسانی زندگی جس شکست وریخت اور جن مصائب و مشکلات میں گرفتارہے ان کے اظہار کا سب سے بہتر وسیلہ بننے کی صلاحیت ناول میں ہے۔ ناول معاشرے اور معاشر ے کے گردونواخ کے ظاہری و باطنی عوامل وعناصر کو پیش ہی نہیں کرتا ہے بلکہ داخلی کشمکش اور اس کے محرکات کو بھی اپنی تحویل میں لیتا ہے۔ اس طرح یہ کسی قوم کی فکری ونظریاتی فضا کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔ اردو میں ناول نگاری کی تاریخ تقریبا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ اس عرصے میں اس صنف نے ادب میں اپنا ایک اعلی اور نمایا ںمقام حاصل کیاہے۔
ناول زندگی کی حرارت کو ناپنے کا فن ہے اور زندگیوں کو دوزخ کا روپ دیکھانے،اس سے نکالنے،اور پھر اس میں پھنسانے کافن ہی نہیں بلکہ دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کافن بھی ہے۔ اس آگ کو بجھانے میں حسین الحق، غضنفر، عبدالصمد، رحمن عباس،انیس اشفاق، نواب صادقہ سحر،احمد صغیر،خالد جاوید،شائستہ فاخری ،ثروت خان، محسن خان اور رینو بہل وغیرہ رواں دواں نظر آتے ہیں۔ رینو بہل فکشن کے حلقوں میں اپنی صلاحیت کا لواہا منواچکی ہیں۔ رینو بہل کا یہ ناول ’’دشت بے نوا‘‘ 2024میں منصہ شہود پر آگیا اور یہ اردو ناول کی تاریخ میں اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے منفرد ہے۔ ناول نو ابواب پر مبنی ہے جس کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں:
ہوئے ہم جو مر کے رسوا،جانے کس جرم کی پائی سزا،ٹوٹ کر بکھرے خود اپنے سوگ میں،حوا کی بیٹی،تیرے عشق نچائیاں،بے بسی جرم ہے،طوفانوں کی زد پہ سفینہ،کھوئی ہوئی جنت اور صبح کے انتظار میں۔
اردو میں نشہ آور اشیاء کا استعمال اوراس کے مسائل کو موضوع بنا کر کئی ناول لکھے گئے ہیں۔پھر چاہے اسے شراب کا نام دیا جائے، یا بیئر کا،یا بھنگ کہا جائے ، یا کوکین کہا جائے، یا گانجا کہا جائے یہ سب اشیاء چوں کہ انسانی اعضا میں افسردگی، بے ہوشی اور عقل وحواس میں خلل پیدا کرکے ایک مخصوص تباہی اور ذلت و رسوائی کو جنم دیتی ہے۔ یہ ناول سماج کی تباہی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے زوال پر ایک نیا ڈسکورس قائم کرتا ہے۔ جن کر داروں نے ناول میں تسلسل اور توازن قائم کیا ہے ان میں ہر پال سنگھ، سریش، ہرجوت، سیٹھ مدن لال، پمی، کلبیرکور، رنجیت، بلونت، کلپنا، ماسٹراجیت سنگھ، بی بی چانن کور، سردار اقبال سنگھ، رحمت، خالصہ، پرکاش کور، مینا، دیپک، مدھو، شالنی، پنکج، نوری، انجلی، رویندر، چمن، دین چند، آدرسینی، مندیپ، تنوی، کلونت امرت، چڈھا، بلراج اور سردار شمشیر سنگھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مگر پوری کہانی نشے کے ایک عادی ہر پال سنگھ عرف پالی کے ارد گرد طواف کرتی ہے۔ ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ ماں نے ہمارے سارے دکھ سارے درد اپنے آنچل میں سنبھل لئے تھے۔ اب گھر میں نہ شرارتیں ہوتیں، نہ ہنسی گونجتی۔ میرا نہ گھر میں دل لگتا، نہ پڑھائی میں۔ دوستوں کے ساتھ کھیلنے جاتا تو بھی جی نہ لگتا۔ باپو کی کمی دل میں گھر کر گئی۔ ایک روز سریش میرے پاس آیا اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گیا یہ کہہ کر چل تیری اداسی کا علاج کرتے ہیں۔
ایسی ہی سر دیوں کی ڈھلتی شام تھی جب سریش مجھے دوسرے دوستوں کے پاس لے گیا ۔انھوں نے مجھے لال رنگ کی چھوٹی شیشی پینے کو دی تو میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’میں بیمار نہیں ہوں،ٹھیک ہوں‘۔
’’یار تو پوری طرح ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے پی کر دیکھ یہ تو صرف کھانسی کی دوا ہے۔
’’مگر مجھے تو کھانسی ہے نہیں؟‘‘ میں نے پھر کہا
’’ایک بار پی کر تو دیکھ تجھے بڑا آرام ملے گا۔ اچھا نہ لگے تو پھر کبھی مت پینا۔ ہم بھی تو پی رہے ہیں۔‘‘ (ص۔9 )
یہ کہتے ہوئے سریش نے ایک منٹ میں پوری شیشی خالی کر دی۔اس کی دیکھا دیکھی میں، میں نے بھی وہ شیشی چٹک لی۔ میٹھی کھانسی کی دوائی پہلے بھی کئی بار پی تھی مگر صرف ایک چمچ۔ پوری شیشی پی جانے کے بعد واقعی بہت اچھا لگا تھا۔ محسوس ہوا دماغ کی تہیں کھل گئی ہیں۔ ایک تنائو اور اداسی جو مجھے محسوس تھی وہ غائب ہوگئی ہے۔
ناول کا ایک اور مر کزی کر دارماسٹر اجیت سنگھ کا تعلق پنجاب کے ایک علاقہ مقبول پورہ سے ہیں۔ جس سے Village of Widows کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے مقبول پورہ کے جوانوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ نوجوان کسی بھی سماج اور ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس طبقے سے ستاروں پر کمند ڈالنے کی توقعات ہوتی ہیں۔ ترقی اورتعمیر نو کے لیے ان کی امیدوں اور تدبیروں، ان کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے کون انکار کرسکتا ہے۔ مقبول پورہ میں منشیات کے عادی افراد کی حد عمر میں عموماً جوان نسل کی ٣٠ سال سے گر کر ٢٠سال سے بھی کم معلوم ہو رہی ہے ۔ نو بالغ بھی اس کا شکار ہیں۔ ماسٹر اجیت سنگھ نے وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسی مہلک بیماری سے دور رکھنے کے لئے ایک ا سکول کھولا جہاں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پھر سے اپنے خوابوں کی دنیا آباد کر سکتے ہیں۔ ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
‘’’یہ اسکول اسی علاقہ میں تھا جس کا اسے علم نہیں تھا۔ وہاں جاکر اسے پتہ چلا کہ ماسٹر اجیت سنگھ نے یہ اسکول ان بچوں کے لئے کھولا ہے جن کے گھر نشے سے تباہ ہوچکے ہیں۔ وہ ان گھروں کے اور اس علاقے کے بچوں کو مفت تعلیم دے کر انھیں ٹھیک راستے پر چلنا سکھاتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابیں۔ وردی ،کا پیاں سب ان کو اسکول مہیا کراتا ہے اور انہیں دوپہرکا کھانا بھی ملتا ہے۔ ماسٹر اجیت سنگھ کے پوچھنے پر اس نے رو رو کر اپنی روداد سنادی ۔وہ مسیحا جو اس علاقے میں بیٹھا ہی صر ف خلق خدمت کے لئے تھا ،اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا :’’بیٹی تو فکر نہ کر ،کل سے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری ہماری ،بچوں کو اسکول میں داخل کرا دو اور خود بھی یہاں آکر نوکری کرلو۔‘‘(30 )
اجیت سنگھ کا خلوص،اجیت سنگھ کا دردمند دل اور اجیت سنگھ کی فکر اپنے علاقے کے تئیں اور اپنے وطن کے مستقبل کی فکر تئیں پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پنجاب کی دل دہلانے صورت سے آگاہ بھی کرتا ہے۔جہاں نئی نسل منشیات کی لت میں اپنی زندگی کو تباہ و برباد کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔بقول ناول نگار :
’’نشے کی عادت چھوٹ نہیں رہی تھی۔ صبح ایک گولی سے کام چلالیتی اور شام کو انجکشن لگالیتی ۔ایک انجکشن ہزار روپے کا ملتا تھا۔پھر ایک رات بچوں نے مجھے انجکشن لگانے سے روکنا چاہا تو میں نے ڈانٹ دیا۔ بیٹی ضد پر اڑرہی اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔میں نے اسے جھٹکا دے کر دھکیلنا چاہا تو اس نے میرے ہاتھ سے سرنج چھین لی اور کہنے لگی:آپ نہیں رکیں گی تو ہم بھی لگائیں۔یہ کہتے ہوئے وہ سرنج کو اپنے بازئوں کے پاس لے آئی۔‘‘(87 )
ناول کا آغاز گناہوں کے اعتراف سے اور اختتام بھی اسی سے ہوتا ہے۔ بلاشبہ ’’دشت بے نوا ‘‘سماجی برائیوں اور سماجی امراض کا ایک خوفناک عکس ہے۔ یہ ناول پنجاب میں نشہ خوری اور اس کے مضراثرات کی کہانی پر مبنی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ یہ ناول اپنے ہم عصر ناولوں میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔