14

اشرف عادل کی ڈراما نگاری "رات کا دوسرا کنارہ” کے حوالے سے

سہیل سالم
رعناواری سرینگر ۔9103654553

بقول نثار نسیم :”ریڈیو ڈرامہ لکھنا سٹیج اور ٹی وی ڈرامے سے نہ صرف مختلف بلکہ پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ ریڈیائی ڈراما میں مکالموں اور صوتی تاثرات کی مدد سے وقت ،جگہ اور منظر کو پیش کیا جاتا ہے پھر سننے والا اپنے تخیل سے ان چیزوں کو اپنے ذہن کے پردے پر پیش کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ڈراما نگار اس فن سے واقفیت رکھتا ہو۔اشرف عادل ریڈیو ڈراما لکھنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں ۔جموں وکشمیر میں چند ہی ڈراما نگار ایسے ہیں جو فن ڈراما نگاری سے واقف ہیں ۔ان میں اشرف عادل بھی ایک ہیں۔ "
ڈرامے نے یونان کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ڈرامے کا اصل رشتہ ادب اور زندگی دونوں سے ہیں۔زندگی کے بغیر ادب کوئی معنی نہیں رکھتا اور زندگی کی مختلف تصویروں کو ایک الگ زاویے سے دیکھتا ہے۔ایک ڈراما نگار دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے پر مجبور ہے ورنہ پھر وہ ڈراما لکھنے پر آمادہ ہی کیوں ہو۔وہ پورا کا پورا جھوٹ بولے،پھر بھی دس یا بیس فیصد سچ اس کے ہاں ضرور در آتا ہے اور یہی سچ ڈرامے کو توانائی بخشتا ہے۔ڈراما ایک مضبوط میڈیم ہے۔اس کے اندر کی مضبوطی نے اس ہر حال میں زندہ رکھا ہے۔انسانی تجربوں اور زمینی حقائق کو ایک ڈراما نگار جس ڈھنگ سے لکھ سکتا ہے،وہ ایک غیر ڈراما نگار کے لئے ممکن ہی نہیں۔معمولی کو غیر معمولی بنا دینا اور غیر معمولی کو معمولی کے قالب میں ڈھال دینا ایک ایسا آرٹ ہے جو صرف ایک ڈراما نگار ہی کو ودیعت ہوا ہے۔جموں و کشمیر میں اردو ڈراما نگاری کو زینت بخشنے میں یہاں کے ڈراما نگار رواں دواں نظر آتے ہیں جن میں اشرف عادل کا نام سر فہرست ہیں ۔ڈراما نگاری کے میدان میں اشرف عادل نے اپنی تخلیقی توانائی سے اپنے فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہیں۔اشرف عادل کا یہ ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ "رات کا دوسرا کنارہ”2024 میں منصہ شہود پر آگیا اور اس سے قبل ان کے دو ڈراموں کے مجموعے اردو دنیا میں متعارف ہوچکے ہیں ۔”رات کا دوسرا کنارہ”آٹھ ریڈیائی ڈراموں پر مشتمل ہے ۔جس کا پہلا ڈراما”ڈھلتے سائے” جسے کسی حد تک ٹریجڈی ڈرامے کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ ڈرامے کا مرکزی کردار پروفیسر کرمانی اور انجینئر شہناز ہے جو کہ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں ۔اپنی ملازمت کے دوران یہ اپنے بچوں کی پرورش ،ان کا خیال ،ان سے محبت ،ان کی نگہبانی اور ان کے خوابوں کی دنیا آباد کرنے میں ہمشہ پیش پیش رہتے تھے ۔اب ان کے بچے نجیب اور خاور اپنی ہی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں ۔پروفیسر کرمانی کو اب اپنے گھر میں چوکیداری کے لئے رکھا گیا ہے اور انجینئر شہناز کو گھر میں نوکر کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔اس طرح یہ دونوں سبکدوشی کے بعد ایک قیدی کی طرح زندگی گزارتے ہیں ۔اپنے بچوں کے لئے انھوں نے کتنی محنت کی اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کون سے راستے اختیار کر لیے تاکہ ان کے یہ سائے ان کی تحویل میں رہے لیکن آخر کار وہ ان کی تحویل سے نکل جاتے ہیں۔ بقول اشرف عادل:
"شہناز: Retirement کے بعد انسان کی زندگی میں طوفان آتا ہے لیکن یہ طوفان میری زندگی میں کچھ اس طرح سے آیا کہ میری انا اور غیرت کا وجود ہی مٹ گیا۔
پروفیسر کرمانی : میں کچھ سمجھا نہیں ۔
شہناز:میرے بچے میری سبکدوشی سے پہلے مجھ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن سبکدوشی کے بعد آہستہ آہستہ ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے اور میری غیرت کی دنیا میں آگ لگ گئی۔ تم جانتے ہو،میں نے کتنا پیسا کمایا۔illegal اور legal ذرائعوں سے بھی محل جیسا مکان تعمیر کروایا ۔آرام و آسائش کی ہر چیز گھر میں میسر رکھی ۔بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔کیا نہیں کیا ان کے لیے۔لیکن آج کل میں اپنے ہی گھر میں ایک نوکر کی طرح زندگی بسر کر رہا ہوں”(ص۔۔33)
دوسرا "72 گھنٹے "کے عنوان سے ہے۔اشرف عادل نے اس ڈرامے میں دنیا میں ہورہی سیاسی تبدیلی Political Change کو موضوع بنایا ہے جس نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی نہیں بخشا۔ہرن ،شیر اور خرگوش ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں ۔اس ڈرامے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان نے انسانیت کا کس طرح قتل کیا۔اب نہ اس دنیا میں جانور محفوظ اور نہ ہی انسان ۔بقول اشرف عادل:
"خرگوش:موسی سنو !شاید اس گاؤں میں بھی درندے آپہنچے ہیں۔ بمباری کہیں نزدیک ہی ہورہی ہے ۔
ہرن:ہاں بیٹا! نزدیک کیا نزدیک تر ہورہی ہے کہیں ۔
(سبھی جانور شور مچاتے ہیں ۔کراہنے کی آوازیں)
شیر: اب کیا ہوگا موسی؟
ہرن:اوپر والے سے دعا کرو کہ ہم سب کی جان وہ بخش دیں۔
شیر:موسی! انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی اتنے لوگ مارے جاچکے ہیں پھر ہم جانور ٹھہرے ہماری دعا میں کیا اثر ہوگا”(ص۔۔79)
تیسرا ریڈیو ڈراما”ایک شب طلسمات کی "۔اس میں نوبہار کو سوشل میڈیا کے توسط سے (جہانداد )جو کہ جن ہوتا ہے، سے عشق ہو جاتا ہے ۔یہ ڈراما انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی عکاسی کرتا ہے ۔ڈراما "ایک فن کار "میں آرٹ کی دنیا میں ہورہی ناانصافیوں کو منصہ شہود پر لایا گیا ہے ۔اس ڈرامے کا مرکزی کردار ( بصیر )جو ایک مصور ہوتا ہے ۔انجم دہلی کی آرٹ گیلری میں بصیر کا آرٹ دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بعد ان کی پینٹنگ پر اپنا حق جما کر نیشنل ایوارڈ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔جب بصیر اپنی پینٹنگ دینے سے انکار کرتا ہے تو یہ ان پر حملہ کر کے بصیر کا دائیں بازو بے کار کر دیتی ہے لیکن بصیر سارے کام دائیں بازو سے انجام دیتا تھا سوائے آرٹ کے اور اس طرح بصیر اپنے اندر کے فن کار کو مرنے نہیں دیتا ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مجموعے کا سب سے اہم ڈراما "رات کا دوسرا کنارہ”ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اشرف عادل نے اس ڈرامے کے عنوان کو اپنے مجموعے کے لئے منتخب کیا ہے۔”رات کا دوسرا کنارہ”میں انھوں نے ازدواجی زندگی سے جڑے ہوئے مسائل کو موضوع سخن بنایا ہے ۔ڈرامے کی مرکزی کردار سحرش ہے جو ایک باوقار اور با وفا عورت ہوتی ہے ۔عدیل دوسری عورت یعنی زارا کو اپنا کر اپنے گھر اور بیٹے کے مستقبل کو اندھیرے میں تبدیل کرنا چاہتے تھا لیکن سحرش کا یہ خواب ہوتا کہ میرا بیٹا مراق آئی اے ایس افسر بن جائے پھر عدیل مکمل طور پر زارا کو اپنائے ۔اس طرح ماں قربانی دے کر مراق کے خوابوں میں رنگ بھرے دیتی ہے جبکہ دونوں کا انتقال مراق کے آئی اے ایس بننے سے پہلی ہی ہو جاتا ہے۔ڈراما کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"عدیل:مراق میرے بیٹے ۔ یہ ڈائری میں جان بوجھ کر اس بریف کیس میں چھوڑتا ہوں ۔ اب تم جان گئے ہوں گے کہ تمہاری ماں ایک پاک دامن اور عظیم عورت تھی۔ میری ہمت نہیں پڑتی ہے کہ تمہاری غلط فہمیاں دور کرسکوں ۔ اس لیے اس ڈائری میں اپنی بات بھی لکھ رہا ہوں اور معافی بھی مانگ رہا ہوں۔ تمہاری نئی ماں تمہیں غلط فہمیوں کے دلدل میں دھکیلتی رہی اور مجھے بھی اس کا ساتھ دینا پڑا۔ لیکن جب مظالم بڑھتے گئے مجھے اس کو طلاق دینا پڑی ۔ وہ ایک بری عورت ہے تمہاری ماں کیا بن سکتی تھی۔ تمہاری غلط فہمی جیتے جی دور نہیں کر پایا۔ اس کے لیے شرمندہ ہوں ۔ زندگی نہ جانے کب ساتھ چھوڑ دے گی۔ اس لیے ڈائری کے آخری صفحے پر اپنی بات رقم کر رہا ہوں ۔ تمہارا ابو۔”(ص۔۔249)
ڈرامے نفرت کی لکیر ،ایک انوکھا قرض اور سوالیہ نشان میں بھی سماجی تبدیلیاں اور آس پاس کی ذہنی آلودگی کو ابھارنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔اس کے سبھی کردار بے حد فعال اور فطری ہیں ۔ پلاٹ کی سطح پر قصوں میں نہ صرف تسلسل قائم ہے بلکہ ان میں کشمکش اور تذبذب کا مادہ بھی موجود ہے۔ مکالمے چست اور رواں ہیں، زبان کرداروں کے تہذیبی اور سماجی پر منظر نیز ان کے سماجی مقام و مرتبے کے مطابق ہے۔ "رات کا دوسرا کنارہ” کے ڈرامے سماجی مسائل کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہیں ۔ان تمام باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بحثیت ڈراما نگار جناب اشرف عادل کو جموں و کشمیر کے مشہور و معروف ڈراما نگاروں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور یہ کتاب کشمیر میں اردو ریڈیائی ڈرامے کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں