44

افسانہ: ایک تھپڑ سے نقشہ ہی بدل گیا!

جاوید اختر بھارتی

ایک تعلیم یافتہ گھرانہ لیکن اکڑ اور گھمنڈ بہت زیادہ، ہر کوئی ایک دوسرے کو آنکھیں دیکھاتا ،باتوں باتوں میں جھگڑا، بحث و مباحثہ ہر کوئی ایک دوسرے کے کاموں میں کمی نکالتا اور کمی نکالنے کے بعد اس کے اوپر ایسے برس پڑتے کہ گویا اس نے زندگی میں کبھی کوئی اچھا کام کیا ہی نہیں۔ شروع سے ہی گھر کا ماحول ہنگامہ آرائی کا شکار تھا، بچے جب چھوٹے تھے تو ماں باپ جھگڑتے تھے، بچے سہم جایا کرتے تھے لیکن جب بچے بڑے ہوئے تو چھوٹے سے جو دیکھا اسی راہ پر چل پڑے۔ اس تحریر میں ذاتی طور پر کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ معاشرے میں دامن پسار رہی مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے اور معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کے لئے قدم بڑھانے پرزور دیا گیا ہے اور انسانوں کے انسان پر کیا حقوق ہیں اس کی پہچان کرانے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ اسی لئے اس تحریر کو افسانے کا نام دیا گیا ہے۔ کہانی ایک تھپڑ کی ہے مگر دو گھروں کی۔ دونوں ہی گھروں میں ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا جاتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ایک گھر میں شوہر،بیوی اور بچے ہیں جبکہ دوسرے گھر میں شوہر ، بیوی، سسر اور ساس ہے۔ ایک گھر میں شوہر بیوی کو تھپڑ مارتا ہے، تو چھوٹے چھوٹے بچے ڈرجاتے ہیں اور بیوی جو قدم اٹھاتی ہے تو شوہر لرزہ براندام ہوجاتاہے اور دوسرے گھر میں جب شوہر بیوی کو تھپڑ مارتا ہے تو تھوڑی دیر تک بیوی تنہا ہوتی ہے مگر جب وہ بھی جرأت مندانہ قدم اٹھاتی ہے تو پورے گھر کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔
زید اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا گفتگو کرہا تھا کہ اچانک باتوں ہی باتوں میں اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ غصے میں اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے، بیوی بھی کھڑی ہوجاتی ہے۔ انداز گفتگو کا ماحول گرم ہوگیا۔ بیوی نے کچھ کہا تو زید نے ایک زوردار تھپڑ بیوی کے چہرے پر جڑ دیا۔ پاس ہی بیٹھے ہوئے بچے سہم گئے اور بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہاں سے یہ کہتے ہوئے جانے لگی کہ میں مالک سے شکایت کروں گی۔ شوہر کہتا ہے کہ کون تیرا مالک ہے تو بیوی جواب دیتی ہے کہ وہ میرا ہی نہیں تیرا بھی مالک اور پوری دنیا کا مالک ہے۔ اب زید یعنی شوہر پس وپیش میں پڑجاتا ہے کہ یہ مالک سے شکایت کیسے کرے گی۔ بیوی وضو بناتی ہے اور مصلیٰ بچھاتی ہے پھر ایک طویل سجدہ کرتی ہے اور سجدے سے جب سر اٹھاتی ہے تو نظریں آسمان کی طرف اٹھا کر پھر بارگاہِ خداوندی میں دونوں ہاتھوں کو بلند کرتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر شوہر کانپ جاتاہے اور دوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے بیوی کے ہاتھوں کو پکڑ کر کہتاہے او میری بیوی اتنا طویل سجدہ کرنے کے بعد بھی کیا بددعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا ضروری ہے۔ تب بیوی کہتی ہے کہ اے میرے سرتاج بددعاء تو میں نے سجدے میں بھی تمہارے لئے نہیں کی ہے تم میرے سرتاج ہو ، میرے شریک ہمسفر ہو۔ میں نے تمہارے لئے بددعاء نہیں کی ہے بلکہ تمہارے ساتھ کبھی کبھی شیطان آجایا کرتاہے جو تمہیں غصہ دلاتا ہے اور تم ہوش کھو بیٹھتے ہو۔ میں نے اللہ سے یہی دعا کی ہے کہ اے میرے پروردگار تو شیطان کو میرے شوہر کے پاس نہ آنے دیا کر، وہ ہمارے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر شوہر کا چہرہ کھل اٹھتا ہے بیوی کو گلے لگاتا ہے اور بچوں سے پیار کرتاہے آئندہ کبھی ہاتھ نہ اٹھانے کی قسم کھاتاہے۔
قارئین کرام: دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کریں۔ بکر اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے مختلف موضوعات پر تبصرہ ہورہاہے کہ بکر اپنی بیوی کو آواز دیتاہے ہے ذرا چائے بناکر لاؤ۔ بیوی بولتی ہے جی ابھی لائی۔ تھوڑی دیر بعد بیوی چائے بناکر بڑے سلیقے و اہتمام کے ساتھ لاکر میز پر رکھ دیتی ہے اور خود ایک سائڈ میں بڑے ادب احترام کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلے بکر ہی اپنا کپ اٹھاتا ہے ایک گھونٹ چائے پیتا ہے اور بڑے غصے کی حالت میں کپ کو میز پر رکھتاہے اور بیوی کو کھینچ کر ایک طمانچہ مارتا ہے۔ بیوی بے چین ہوجاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آخر بات کیا ہے۔ بکر کہتاہے کہ کپ اٹھاؤ اور ذرا چائے پی کر دیکھو۔ بیوی ایک گھونٹ چائے پیتی ہے اور کہتی ہے کہ تھوڑا شکر زیادہ ہو گئی ہے میں معافی چاہتی ہوں۔ بکر بولتا ہے کہ تو معافی کی بات کررہی ہے تجھے معلوم ہے کہ ابو کو ڈائبٹس کی بیماری اور تجھ سے ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ کھانا بنائے گی تو نمک زیادہ، چائے بنائے گی تو شکر زیادہ۔ کیا تیرے ماں باپ نے تجھے کوئی طریقہ نہیں سکھایا، یہ کہتے ہوئے ایک طمانچہ اور جڑ دیتا ہے اور کہتا ہے ویسے ہی تیرے باپ نے ہماری خواہش کے مطابق جہیز نہیں دیا۔ بکر کا باپ کہتاہے کہ جانے دو بیٹے جب اس کے ماں باپ کی کوئی اوقات نہیں تو اس کی کیا اوقات ہوگی، جیسا بیج ہوگا ویساہی تو پھل ہوگا۔ زید کی ماں نے بھی ہاں میں ہاں ملایا۔ بیوی کہتی ہے کہ میرے ماں باپ نے جہیز میں گاڑی دی، فرنیچر دیا، فریج دی اور پانچ لاکھ روپیہ نقد دیا اب کیا چاہئے جو بار بار طعنہ مارتے ہو۔ بکر کی ماں بولتی ہے کہ تمہارے ماں باپ نے کوئی احسان نہیں کیا، جب بیٹی پیدا کی ہے تو جہیز تو دینا ہی پڑے گا۔ احسان ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے بیٹے کی تجھ سے شادی کی ہے، آخر جہیز لے کر آئی ہے تو ہمارے گھر کا کھاتی بھی تو ہے۔ یہ سنتے ہی بکر کو حوصلہ ملا اس نے پھر ایک تھپڑ مارا لیکن اب کی بار جیسے ہی اس نے بیوی کو تھپڑ مارا تو بیوی نے بھی جواب میں زوردار طریقے سے ایک نہیں بلکہ دو تھپڑ مارا۔ اب کیا تھا سب آگ بگولہ ہوگئے کہ بیوی ہوکر شوہر پر ہاتھ اٹھادیا۔ بکر کی ماں بولتی ہے کہ تونے اچھا نہیں کیا کیونکہ ایک عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ شوہر پر ہاتھ اٹھائے۔ تب بکر کی بیوی بولتی ہے کہ ایک شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا حق کس نے دیا ؟ ماں آپ بتائیے اگر آپ کی بیٹی کو آپ کا داماد مارے پیٹے پھر وہ آپ کے گھر آئے تو آپ اس سے بھی یہی کہیں گی بیٹی جا سسرال چلی جا تیرے مقدر میں مار کھانا ہے اور طمانچے کھانا ہے کیونکہ تو عورت ہے۔ اگر آپ اپنی بیٹی کو یہ کہہ سکتی ہیں تو ٹھیک ہے میں غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لوں گی نہیں تو پھر آج سے یاد رکھیں میں اس گھر کی بہو ہوں آج کے بعد میرے اوپر جو شخص ہاتھ اٹھائے گا تو میں بھی ہاتھ اٹھاؤں گی۔ اتنا سننا تھا کہ شوہر بیوی کو تھپڑ مارنے کے لئے پھر ہاتھ اٹھایا تو خود اس کی ماں نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ خبردار دوبارہ بیوی پر ہاتھ اٹھایا تو، تیرا ہاتھ توڑ دوں گی آج سے میری آنکھیں کھل گئیں کاش بہو کی طرح میں نے بھی جوابی قدم اٹھایا ہوتا تو میں مار کھاتے کھاتے آج بوڑھی نہیں ہوئی ہوتی۔ چل قدم آگے بڑھا اور بیوی سے معافی مانگ۔ بیٹا معافی مانگنے سے انکار کرتاہے تو ماں کہتی ہے کہ بیوی سے معافی نہیں مانگے گا تو گھر کی چہار دیواری میں تیرے لئے جگہ نہیں، ابھی کے ابھی گھر سے نکل جا۔ مجبور ہوکر بیٹے نے اپنی بیوی سے معافی مانگی۔ یہ منظر دیکھ کر بکر کا باپ بھی اس کی ماں سے معافی مانگتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ آج سے کوئی بھی شخص اس گھر کی چہار دیواری میں کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا تو ہمارے گھر میں اس کو رہنے کے لئے جگہ نہیں ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں