ان دنوں کوروناوبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن اپنے ملک میں عوام جتنے بے بس ہیں ،شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے کے باسی ہوں۔ یہاں کے سسٹم اور نظام صحت پر بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ بیماروں کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے گھروں میں اذیت ناک صورتحال سے دوچارہے کہ ُانہیں یہ شک ہے کہ اسپتال جانے کی صورت میں اُن کی موت یقینی ہے۔ اس وباکے دوران جس طرح بیروزگاری و غربت میں اضافہ ہواہے،اسی تناسب سے ستم گروں نے مہنگائی کا طوفان بھی برپا کررکھاہے،یوں غریب کی جو حالت ہے وہ صاف ظاہرہے لیکن حکمران طبقات ایسے میں ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیا کے دراز ہاتھ روکنے اور نظام صحت پر عوامی اعتماد بحال کرنیکی کوئی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ محققین کی آرا کے مطابق کوڈ- 19بیماری کے علامات ظاہر ہوتے ہی لوگوں کے لئے اب بخار چیک کرنا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ آکسیجن لیول چیک کرنا لازمی ہے۔آکسیجن لیول کی جانچ سے ہی اس بیماری میں ملوث شخص کو پتہ چل پاتا ہے کہ اُسے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہے یا گھر میں ہی آئیسولیٹ ہونے کی۔جس شخص کی آکسیجن لیول 80 سے 70 فیصد ہو رہی ہے تو اُسے لازمی طور پر طبی امدادکی ضرورت ہوگی یعنی اُسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گااور اگر کسی کی آکسیجن لیول 90فیصد سے کم نہیں تو اُس کے لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اُسے زیادہ سے زیادہ احتیاط کے دائرہ میں رہنے کی ضرورت ہو گی۔ وہ اپنے گھر میں ہی آئیسولیٹ رہیں اور اپنی آکسیجن لیول چیک کرتے رہیں، اپنی غذا کا خیال رکھیں، زیادہ متنفر، غمزدہ اور وہم یا وسوسے میں مبتلا نہ رہیں بلکہ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف اور بے فکر رکھنے کی کوشش کریں۔ وہ آیسولیشن کے دوران اپنے آپ کو قید ی نہ سمجھیں یا ناحق محبوسی کی حالت میں ذہنی دباﺅ کا شکار رہیں بلکہ پُر اعتمادی سے کورونا کو شکست دینے کے لئے اپنے آئیسولیشن کے دوران خود کو مصروف رکھیں، کوئی تخلیقی کام کریں، کتابیں پڑھیں، اپنے پیاروں سے رابطوں میں رہیں، انٹرنیٹ استعمال کریں، طنز و مزاح کی وڈیوز دیکھیں اور اگر ضرورت پڑے تو ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ادویات کا استعمال بھی کریں، ایک ہفتہ کے اندر ایسے اشخاص اپنی نارمل زندگی میں لوٹ آئیں گے۔ہم سب کو مل اس بیماری کا سوچ اور سمجھ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور اپنی زندگی گزارنے کا ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔کیونکہ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ اب زمین پر موجود انسان کو اس بیماری سے بچنے یااس سے محفوظ رہنے کے لئے جہاں ایک لمبے عرصے تک احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑے گا وہاں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اپنا روزمرہ زندگی کا کام کاج بھی محدود اور مشروط دائیروں میں رہ کر کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک نظر نہ آنے والے کرونا کیڑے کی یلغار سے تمام دنیا مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔کورونا کا یہ کیڑا اب تک قریباً چالیس لاکھ انسانی جانیں نگل چکا ہے اور کوئی نہیں جانتا کے یہ مزید کتنی جانوں کو نگل لے جائے گا اورپھر اس وائرس کے خاتمہ کے بعدہماری یہ دنیا کیسی ہو گی،اس کے متعلق بھی کوئی حتمی رائے ظاہر نہیں کی جاسکتی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے جدھرانسانی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں وہیں اِس نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔اس وائیرس کی وجہ سے دورِ حاضر کے سب سے بڑ ے طاقتور ملک امریکہ کے سٹاک ایکسچینج کی پوزیشن زمین بوس ہوکررہ گئی ہے۔پیٹرولیم کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے ۔ ہرطرح کا نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔کارو باری ادارے،تعلیمی و طبی شعبے اور زندگی سے منسلک تقریباً تما م شعبے بُر ی طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ملک کی حالت تو انتہائی خوفناک اور لرزہ خیز ہے،جس میں جموں وکشمیر بھی شامل ہے۔ملک میں پچھلے دو ہفتوں سے روزانہ شرح اموات ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار تک کے قریب ہے جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق بھارت میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنازیادہ ہے، ساتھ ہی غیر ملکی ایجنسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی حکومت مختلف مصلحتوں کے تحت ملک میں کرونا مریضوں کی اموات کی اصل تعدا د اس لئے ظاہر نہیں کرتی کہ انتظامیہ کی غفلت اور ناکارہ کارکردگی کاپردہ فاش نہ ہو سکے لیکن شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کی لرزہ خیز صورت حال اور دریاﺅں میں تیرتی انسانی لاشیں بخوبی حقائق سے پردہ اٹھاتی رہتی ہیں۔چنانچہ مختلف ممالک کی طرف سے جتنی بھی ویکسینز تیار کی جاچکی ہیں ،اُن کا استعمال پچھلے چار مہینوں سے ہورہا ہے ،ان ویکسینوں کاعام لوگوں تک پہنچنے میں کافی وقت درکار ہے کیو نکہ جب تک دنیا بھر کی تقریباً آٹھ ارب آبادی تک فرداًفرداً اس ویکسین کی کم از کم دو ڈوزِز نہ پہنچ پاتیں تب تک اس بیماری سے بچنے کا واحد حل خود کو احتیاتی تدابیر کے ساتھ محفوظ رکھنے میں ہی مضمر ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کووڈ _19 کے بحران نے صحت عامہ کی خدمات میں معاشرتی تفاوت کو بھی بے نقاب کردیا ہے، جہاں دنیا کی 80 فیصد آبادی کے لئے کسی قسم کا سماجی تحفظ میسر نہیں ہے۔ سماج کے دبے کچلے طبقات اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے تئیں معاشرتی تفریق کی کئی مثالیں حکومتی اداروں کی سطح پر دکھائی دے رہی ہیں۔ آج دنیا کے پاس سب سے زیادہ انسانی وسائل تو ہیں لیکن اس انسانی وسائل کے ذخیرے کو اس بیماری کے خاتمے کے لئے مناسب طریقے پر استعمال میں نہیں لایا جاتا بلکہ تسلسل کے ساتھ ہر کوئی اپنی پاور اور جنگ و جدل کے ذرائع وسیع کرنے پرزیادہ تر انسانی اور مالی وسائل استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔اب ہمارے فی الحال احتیاط برتنے میں ہی خیر ہے غیر ضروری طور باہر نکلنے کے بجائے گھر میں رہنے کو ہی ترجیح دی جائے۔
141