383

مسلمان قربانی کیوں کرتے ہیں؟ کیا قربانی کا کوئی بدل ہے؟

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

بعض حضرات کی طرف سے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روح کے بر خلاف کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کی جانے والی قربانی کے بجائے غرباءومساکین کو نقد رقم دے دی جائے۔ اس طرح کی باتیں عموماً ا±ن حضرات کی طرف سے سامنے آتی ہیں جو قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے مقابلہ میں دنیاوی وقتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موقع پر چند باتیں عرض ہیں:
کسی عالمی ادارہ یا کسی حکومت کی طرف سے قربانی پر پابندی کا نہ کوئی فرمان جاری ہوا ہے اور نہ ہی کورونا وبائی مرض کا دور دور تک قربانی کے جانور سے کوئی تعلق ہے۔ نیز جب دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاو¿ کے باوجود احتیاطی تدابیر کے ساتھ دیگر کام ہورہے ہیں، حتیٰ کہ دنیا کے ہزاروں مذبح (سلاٹر ہاو¿س) میں روزانہ لاکھوں جانور ذبح ہورہے ہیں، تو اسلامی شعار (قربانی) کو کیوں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اگر کبھی کسی حکومت کی طرف سے عید الاضحی کی قربانی پر پابندی کی بات شروع ہو تو ہمیں اتحاد واتفاق کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس کی مخالفت کرنی چاہئے تاکہ سنت ابراہیمی پر عمل کیا جاسکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چنانچہ حضور اکرم کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گاانشاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم عمومی طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فصل لربک و انحر (ترجمہ) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے(سورة الکوثر 2) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم (امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ وَانحَر کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَانحَرسے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاءالسنن) نیز نبی اکرم سے حالات تنگ ہونے کے باوجود قربانی کے حکم کے بعد سے کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضور اکرم نے فرمایا کہ وہ عید گاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحب استطاعت ہیں تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چاہئے۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد وابن ماجہ) نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری ومسلم) نبی ا کرم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا: اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد، ابوداود، ترمذی)
قرآن وحدیث کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ قربانی کے دنوں میں بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیا جائے کیونکہ تمام مکاتب فکر کے فقہاءوعلماءکرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں اور قربانی کے ایام میں کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ پوری کائنات میں سب سے افضل حضور اکرم نے ارشاد فرمایا ہے۔
ام المو¿منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم سے سوال کیا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی ج9 ص 261)
نیز حضور اکرم بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ باوجودیکہ آپ کے گھر میں کبھی کبھی پکانے کی اشیاءموجود نہ ہونے کی وجہ سے دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ آپ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر بھی باندھے۔ حضور اکرم پوری زندگی میں ایک بار بھی صاحب استطاعت نہیں بنے یعنی پوری زندگی میں آپ پر ایک مرتبہ بھی زکوٰة فرض نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود حضور اکرم ہر سال قربانی کیا کرتے تھے، نیز آپ نے حجة الوداع کے موقعہ پر انہی قربانی کے ایام میں ایک دو نہیں، دس بیس نہیں سو اونٹوں کی قربانی کی۔ غرضیکہ قربانی کے دنوں میں خون بہانا یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ایک اہم عبادت ہے۔
جانوروں کی قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہونا صرف مذہب اسلام میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی ہے اور حضور اکرم سے قبل دیگر انبیاءکرام کی تعلیمات میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم واقعہ مشہور ہے۔ جب قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے تو عید الاضحی کے موقع پر قربانی میں حصہ نہ لینے کی دوسروں کو ترغیب دینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔
حضور اکرم کے زمانہ میں عمومی طور پر صحابہ کرام کے معاشی حالات بہتر نہیں تھے، کتابوں میں درج سینکڑوں واقعات اس کے شاہد ہیں۔ نیز صحابہ کرام کو اپنے مال کا اچھا خاصہ حصہ جہاد وغیرہ میں بھی لگانا ہوتا تھا، اس کے باوجود حضور اکرم صحابہ کرام کو قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تعلیم دیتے تھے، حالانکہ آپ اپنی امت پر شفقت کا معاملہ کیا کرتے تھے۔
آخری بات عرض ہے کہ شریعت اسلامیہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے یتیموں، بیواو¿ں، محتاجوں اور مسکینوں کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اسی لئے ہمیں یقینا غریبوں کی مدد کرنے میں سبقت کرنی چاہئے، جیساکہ مسلم بھائیوں نے رمضان کے مبارک مہینہ میں محتاجوں اور مزدوروں کی مدد کرکے مثال قائم کی۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق جہاں مالدار لوگ اپنے مال کی مکمل زکوٰة ادا کریں وہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کمزور لوگوں کی مدد کرے، مگر قرآن وحدیث سے ثابت شدہ واضح حکم میں اپنی خواہش کی اتباع کے بجائے شریعت اسلامیہ کے حکم کو بجالانا ہی ضروری ہے۔ یقینا غریبوں کی مدد کی جائے لیکن واجب قربانی چھوڑ کر قربانی پر خرچ ہونے والی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا کسی شخص کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر یہ بات قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے۔ قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنے یا پکاکر کھلانے میں حکم الٰہی پر عمل کے ساتھ غریبوں کی مدد نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب قربانی ادا کرنے کے بعد موجودہ حالات میں نفلی قربانی زیادہ نہ کرکے غریبوں کی مدد کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن واجب قربانی چھوڑ کر غریبوں کی مدد کرنا ہرگز دین نہیں ہے۔ حضور اکرم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں موجودہ دور کے مقابلہ میں زیادہ تعداد میں لوگ غریب تھے اور وہ آج کے غریبوں سے زیادہ محتاج اور ضرورت مند تھے مگر ایک مرتبہ بھی حضور اکرم یا کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ انہوں نے عید الاضحی کے دنوں میں قربانی کے بجائے غریبوں کی مدد کی بات کہی ہو۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ کے حکم اور نبی کی اتباع میں قربانی کے دنوں میں قربانی کریں اور تین دن کے علاوہ پورے سال شادی وغیرہ کے اخراجات اور اپنے ذاتی مصاریف میں کمی کرکے یتیموں، بیواو¿ں، محتاجوں اور مسکینوں کی خوب مدد کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں