56

دربار عام میں کردارزینبؓ۔۔۔۔

گلفام بارجی
ہارون سرینگر

اسلامی تواریخ میں ہمیں کئی ایسی خواتین کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے کام کیا۔ اسی طرح حق و باطل کے معرکہ کربلا میں اپنے اولادوں کی قربانیاں پیش کی جانے والی خواتین جن میں حضرت رباب رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ام لیلیٰرضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام کلثومرضی اللہ تعالیٰ عنہاشامل ہیں نے دین اسلام کی بقاء کے لئے اپنے لخت جگروں کو قربان کردیا لیکن ان میں جو مقام و حیثیت شیر دل خاتون حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حاصل ہےاس کا اعتراف غیر مسلم مؤرخین بھی کرتے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی نواسی۔ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کا نام خود خدا کے رسول ﷺ نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجویز کیاجس کے معنیٰ ہیں خوش منظر درخت۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہوئی تھی اور کیوں نہ ہوتی تربیت میں جو خدا کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔ بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں مؤرخین کہتے ہیں کہ اس وقت قریش اور بنوہاشم کی خواتین میں بھی یہاں تک کہ عبدالمطلب کی اولاد تک کی تمام لڑکیوں میں ایک بھی ان جیسی نہ تھیں۔ بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے اس علم سے اس دور کی خواتین کو بھی مستفید کیا اور یہاں تک کہ شہر کوفہ سے بھی خواتین آپ کے علم سے فیضیاب ہونے کے لئے آتی تھیں۔
جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین اسلام کے تحفظ کے لئے کربلا کا قصد کیا تو حسینی قافلے کے ساتھ جانے والوں میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے دو بچوں عون و محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ شامل تھیں۔ آخر کیوں نہ ہوتی اسلام کی بقاء کے لئے قربانی دینے کا وقت جو آچکا تھا۔ پہلے تو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھبرا گئی لیکن بھائی سے دریافت کیا اور جب صورت حال کاعلم ہوا تو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیبیوں کی ڈھارس بندھا رہی ہیں اور دعا میں بھی مصروف ہیں اسطرح عاشورہ کا سورج طلوع ہوا اور میدان کارزار میں جنگ کا آغاز بھی ہوا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تمام انصار و اصحاب ایک ایک کرکے شہید ہوتے جارہے ہیں اور ادھر خیمے میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا حوصلہ دے رہی ہے۔ جب خاندان بنوہاشم کے جوان جنگ کے لئے گئے اور شہید ہونے پر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا لاشہ لاتے ہیں تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس موقع پر ہمت سے کام لیتی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھائی کے پاس لے آئی اور کہا۔
جو کچھ ہے میرے پاس وہ قربان ہے بھائی۔
دوبیٹے ہیں اور ایک میری جان ہے بھائی۔
یہ کہہ کر زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےحضرت امام عالی مقامرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عون و محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو میدان میں جانے کی اجازت دلوائی اور جب دونوں بچے شہید ہوکر آئے تو ماں نے بے اختیار سجدہ شکر ادا کیا یقیناً اس ماں کو ہر دور سلام کرتا رہے گا۔ وقت عصر جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر تن سے جدا ہوگیا اور حسینی قافلے میں سوائے ایک بیمار مرد کے کوئی نہ رہا تو بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےاس لٹے قافلے کی قیادت سنبھالی۔ جناب زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس موقع پر جس بہادری اور شجاعت کاثبوت دیا وہ رہتی دنیا تک قابل تقلید رہے گا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حاکم وقت کے سامنے بڑی دلیری کے ساتھ موقف حسینؓ کی وضاحت کی۔ اور شمع ہدایت کی ٹمٹماتی لو کو سہارا دیا۔ ظالم و جابر بادشاہ کی مجلسوں میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے خطاب بلا شبہ خطابت و فساحت کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتے ہیں۔ بازار کوفہ میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو خطاب کیا اس پر صاحبان علم و فاضل یہ کہہ اٹھےکہ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقریر فرمارہے ہیں۔ دربار ابن زیاد میں بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس منزل کو طے کیا وہ اس مرحلے سے بھی دشوار تھا جس مرحلے کو امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کربلا میں طے کیا تھا۔دربار یزید میں یزید کے متفقرانہ سوالات کے جواب میں ثانیہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا خطبہ مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہانے دربار میں یزید سے مخاطب ہوکر کہا اے یزید تونے زمین و آسمان کے راستوں کو ہمارے اوپر تنگ کردیا اور قیدی بنایا کیا یہی تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی عورتوں اور کنیزوں کوپردہ میں رکھا ہےاور دختر رسول ﷺ کی بیٹی کو بے مقنہ و بے پردہ کرکے دربدر پھرا یا۔ ہم امام زادیوں کو قید کرکے تم اپنی بہادری کا جشن منا رہے ہو۔ میرے بھائی کا سر نیزے پہ سوار کرکے تم اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہو۔ اے یزید یہ تمہاری غلط سوچ ہےکیونکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کل بھی زندہ تھے آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے۔ لیکن اے یزید تمہاری قبر تک کا بھی تو کوئی نام و نشاں نہیں رہے گا۔ یہ خطبہ خدا کے رسول ﷺ کی نواسی اور شیر خدا ؓکی شیر دل بیٹی نے دربا عام میں دیا۔یہ خطبہ حق و صداقت اور علم و معرفت کا بیش قیمت خزانہ تھا۔ اس خطبہ کے ذریعے بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مقصد حسینی کی مکمل وضاحت کی اور اسلام کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا پردہ چاک کیا۔ حسینی مشن کی وضاحت ثانیہ زہرؓ نے اس طرح کی کہ دربار یزیدی میں تمام لوگ کہہ اٹھے کہ بلا شبہ فصاحت و بلاغت اس خطبہ میں مکمل موجود ہے۔ علامہ مولوی علی نقوی صاحب اپنی کتاب ’شہید انسانیت‘ میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خطبہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شطرلاغر سر برہنہ سوار اور عام نظروں سے دوچار زینب بنت علیؓ نے اسے پہلے شاید بلکہ یقیناً کسی عام مجموعے میں کوئی تقریر نہ کی تھی اور نہ شاید کسی مقید انسان نے اسے زیادہ مخالف ماحول میں کبھی تقریر کی ہےمگر جب زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تقریر کی تو تمام دربار ایک اشارے پر خاموش ہوگیا اسی وقت وہ آنکھیں جو ان قیدیوں کا تماشہ دیکھنے کے لئے بلند ہوئی تھی زمین پر گڑھ گئیں اور ہر شخص اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا۔ بنت علیؓ کا رعب مجموعہ پر چھا گیا تھا اور ان کی قوت ارادی اس پر حکومت کررہی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ان خطبوں اور تقاریر نے ایوان سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔ دربار یزیدی کو خطرہ لاحق ہوگیا جس کی بناء پر یزید نے اسیرانِ کربلا کی رہائی کا حکم دےدیا۔ اب اس رہائی سے بیبیاں کیا خوش ہوتیں کہ گودکے پالے تو سب کربلا میں شہید ہوچکے تھے لیکن بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا صبر و استقامت دیکھئے کہ بیبیوں کو سمجھایا۔ تسلی دی۔ دلاسہ دیا اور قافلے کی سالار بن گئی۔ چالیس دن قید و بند سے رہائی پانے کے بعد اس لٹے قافلے کو پہلے کربلا لے گئی۔ قبر حسین ؓکی زیارت کے وقت اس بہن کی کیا حالت ہوئی ہوگی جس بہن نے بچپن سے لیکر زندگی کے آخری ساعت تک بھائی کا ساتھ دیا اور اپنے گود کے پالے اس بھائی پر قربان کئے۔ چالیس دن قید و بند میں رہ کر اسیری کی ازیت اٹھائی مگر وارث عظمت شیر دل خاتون حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اتنے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بھی کبھی ہمت نہ ہاری اور آخر اس لٹے قافلے کو لیکر واپس اپنے وطن نانا کے مدینے پہنچی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں