کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!

غازی سہیل خان

گزشتہ دنوں سے سوشل میڈیا پر اولیاء کرام کے متعلق ایک بحث چھڑ گئی ہے،ویسے بھی یہاں کشمیر کے مسلمانوں کا المیہ یہی ہے کہ یہاں جیسے ہی ایک مسئلہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو کوئی دوسرا مسئلہ سر اُٹھالیتا ہے اور ہفتوں نفرت کی آگ میں کشمیری مسلمان جلتے رہتے ہیں۔ یہ بات ابھی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان جان بوجھ کے کسی کے اشاروں پر ملت اسلامیہ میں اس قسم کے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ یا اپنی کج فہمی کے سبب وہ اس قسم کے بیانات دے کے انتشار پھیلا رہے ہیں؟
میں بہت عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ یہاں چند ایسے واعظین بھی ہیں جو اپنے مسلک و جماعت کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ کہیں ہم ابھی تک گمراہی میں تو نہیں تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ ان واعظین نے اپنے مسالک کو دوسروں پر فوقیت دینے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھا ہے۔
وہیں دوسرے مسلک و جماعت کے علماء کی سماعتوں سے یہ بات ٹکرانے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساری مسلکی کتابوں کو نکال کے فیس بک پہ حاضر ہو جاتے ہیں پھر نہ کہیں اخلاق رہتے ہیں اور نہ ہی کہیں احترام بس جو جس کے من میں آیا کہہ دیتا ہے بھلے ہی مسلمانوں میں گروہی اور مسلکی اور جماعتی تصادم کیوں نہ ہو، ان کو اس سے کیا غرض بس اپنی دکان چمکا کے عوام کو پریشان کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ مجموعی طورپر ہمارے کچھ مولوی صاحبان دونوں طرف سے زیادتی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دونوں طبقے ہر مسئلے کی ایکسٹریم پر پہنچ کر بات کرتے ہیں، کوئی بھی سمجھ بوجھ اور اعتدال میں رہ کر بات کرنا ہی نہیں چاہتا اور نہ اعتدال کی باتیں سُننا چاہتا ہے.
ایک طبقہ جن چیزوں کو شرک کہتا ہے اس سے بڑے شرک کرنے میں اُن کے اکثر لوگ مرتکب ہو رہے ہیں اور لوگوں کو چند چیزوں کو شرک بتا کے پیش کرتے ہیں، مثلاً تعویذ پہننا، کسی بزرگ کی قبر پر جانا، وغیرہ.
وہیں دوسرا طبقہ نہ صرف اولیاء کرام کو صحابہ کرام پر فوقیت دیتے ہیں بلکہ "العیاذ بااللہ "کچھ تو ان میں سے اس حد تک غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں پیغمبروں تک کا درجہ دینے سے ہچکچاتے نہیں اور چند نے اولیاء کرام کو اپنی جدی پدری وراثت مان کے عوام سے بات کرنے کا حق چھین لیا ہے کسی کی مجال جو کسی بزرگ کے متعلق لکھے یا بات کرے یعنی مجموعی طور ہمارے مذہبی طبقے میں برداشت کا مادہ ہی مفقود ہو گیا ہے اتنی intolerance کہ عام کالج کا نوجوان دین پڑھنا ہی نہیں چاہتا یہ نوجوان اس قسم کی چپقلش کو دیکھ کے دل ملول ہو جاتے ہیں کہ ہمارے چند واعظین نے دین کو کیا کھیل تماشا بنا دیا ہے، میں نے اکثر سُنا ہے کہ پھر یہی نوجوان کہتے رہتے ہیں کہ ہم ہی اچھے ہیں جو ان جماعتوں اور مسلکوں سے دور ہیں ہمیں اپنے کام سے کام لینا ہوگا، نہیں تو ہم بھی ساری عمر لڑتے اور جھگڑتے رہیں گے، یہ ایسے واعظین کے لیے حیف ہے جن کی غلط بیانی کے سبب ہماری نوجوان نسل دین سے نزدیک ہونے کے بجائے دور ہی ہوتی جا رہی ہے. وہیں اس ساری صورتحال کو غیر، مزے سے دیکھتے رہتے ہیں بلکہ انجوائے کرتے ہیں کہ چلیں ہم سے نہ سہی یہ خود اپنی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اب ہماری کوئی ضرورت نہیں، میرے خیال میں اسی وجہ سے ایسے لوگوں کے وڈیوز کو ایک منظم نیٹورک کے ذریعے وائرل کیا جاتا ہے۔ تاکہ مسلمان انتشار در انتشار کا شکار ہو کے اپنی اہمیت اور مقصد کو بُھلا بیٹھیں.
مزید جب اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کوئی بحث چھڑ جاتی ہے تو فیس بُک مولوی اور مفتی ایک دوسرے کے خلاف منفی رویہ اور ناشائستہ الفاظ استعمال کر کے اسلام کی الم اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے فتوے صادر کرنے سے بھی باز نہیں آتے حالانکہ وہ اسلام کے مبادیات اور اسلام کی حقیقی روح سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔ذاتی طور پر میں نے دیکھا ہے کہ کچھ مولوی صاحبان خوبصورت وضع قطع کے ساتھ منبر رسول اللہﷺ پر انتہائی من گھڑت باتیں بلکہ چند تو نازیبا الفاظ پر بھی اُتر آتے ہیں اور لوگوں کو فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ میرا واسطہ فلاں جماعت اور عقیدے سے ہے اور ستم کی بات تو یہ ہے کہ لوگ آہ آہ…… اور واہ واہ….. کرکے ان صاحبان کے لئے جہالت کی راہ مزید ہموار کرتےہیں.
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
جموں کشمیر کے ایک ماہر قانون اور استاد ڈاکٹر شیخ شوکت حُسین کی فیس بُک پوسٹ نظروں سے گُزری وہ لکھتے ہیں کہ "قران میں درج ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا گیا یہ کہہ کے کہ سلیقے سے بات کرنا۔ مسلمانوں سے کہا گیا کہ اہل کتاب سے مجادلہ احسن طریقہ سے کرنا ۔ کفار کے معبودوں کے خلاف بھی بد زبانی سے منع کیا گیا۔ کشمیر کے کچھ مولوی حضرات نے ان قرآنی تعلیمات کے بر عکس بد زبانی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے توحید کی علمبردار ی کے نام پر وہ لوگوں کو توحید سے بدظن کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ جمعت اہل حدیث اور دیگرعلما کو چاہیے کہ ان نو مولود واعظین کی تربیت کریں اور انہیں تہذیب اور قرانی آداب کی حدود میں رہنے کی تلقین کریں۔”
اب اس ساری صورتحال میں ایک تو ذی حس افراد کو آگے آنا چاہیے اور ان نام نہاد واعظین کو لگام دینی چاہیے وہیں علماء حق کو امت میں اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، مسلکی اور گروہی قسم کی باتوں سے اپنے واعظین کو پرہیز کرنے کے احکام دینے چاہئیں، مساجد میں اتحاد و اتفاق پر بات کرنی چاہیے، غیروں کی سازشوں کا پردہ چاک کرنا چاہیے، کشمیر منشیات، بے حیائی اور لایعنی کاموں کے سبب بے راہ روی کا بازار بن چکا ہے ۔ ان نکات پر بات ہونی چاہیے اور سب سے اہم ہمیں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے نوجوان نسل کو اصل بات سمجھانی چاہیے تاکہ کھرا اور کھوٹا واضح ہو اور ملت اسلامیہ کا بچا کھچا شیرازہ بکھرنے سے بچ جائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں