310

جل شکتی محکمہ

پانی قدرت کا ایسا انمول تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا اور زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔کشمیر پوری دنیا میں صاف وشفاف پانی کے لئے مشہور ہے تاہم افسوس کا مقام ہے کہ یہاں کے مکینوں کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسنا پڑتا ہے۔جہاں تک جل شکتی محکمہ کا تعلق ہے تو یہ محکمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست انسانی آبادی کے وجود سے ہے اور اگر پانی فراہم نہ ہو تو موت طے ہے اور اگر پانی غلیظ ملے تو بیماری یقینی ہے۔پانی کی فراوانی کے باوجود تقسیم ملک کے 73سال بعد بھی کشمیری عوام پانی کیلئے ترس رہے ہیںگوکہ اس کیلئے محکمہ آب رسانی رقومات کی عدم دستیابی کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اس سیکٹر پر جس طرح ریاستوں کو زر کثیرفراہم کیا گیا ،ایسے میں یہ امید کی جارہی تھی کہ پانی کے مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جاسکے گا تاہم ریاست میں حکومت سازی کا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے لہٰذا یہاں یہ چیزیں خلاف توقع نہیں ہے۔اہم مذکورہ محکمہ جان بوجھ کر عوام کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ مذکورہ محکمہ اس حد تک خو گر ہوچکاہے کہ اب صارفین کو ایگریمنٹ کے باوجود بھی پانی فراہم نہیںکیاجارہا ہے۔محکمہ آب رسانی کا ایک اہم ڈویڑن پی ایچ ای ڈویڑن سرینگر ، جس کے ذمہ شہر سرینگر میں بود وباش اختیار کرنے والوں کو صاف پانی فراہم کرنا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ڈویڑن اپنے فرائض سے آنکھیں چرا رہا ہے۔جو پانی لوگوں کو فراہم کیا جارہا ہے وہ اصل میں قابل استعمال نہیں ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ پانی بھی وقت پر لوگوں کو فراہم نہیں کیا جارہا ہے،نتیجہ کے طور پر پانی کی ہاہاکار مچ جاتی ہے۔من مانیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔جس علاقہ یا خطہ میں پبلک ڈیلنگ سے منسلک افسران کا یہ حال ہو،اس خطہ یا علاقہ کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے جل شکتی محکمہ صرف پیسے دینے والی مشین تک محدود رہ چکا ہے جہاں کاموں کے ٹینڈر صرف یہ جان کر نکالے جاتے ہیں کہ لوگوں کی جیبیں کتنی گرم ہوں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی کی سپلائی کا یہ عالم نہ ہوتا۔ایک صارف کو ایگریمنٹ کے بعد پانی فراہم کرنا محکمہ کی ذمہ داری ہے لیکن اس کیلئے بھی پیسوں اور نذرانے کا جواز پیدا کرنے کیلئے کہاجاتا ہے کہ پائپیں نہیں ہیں اور جب صارف دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر تنگ آجاتا ہے تو اس کے پاس نذرانہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔ غور طلب ہے کہ حکام بالا اس صورتحال سے بالکل باخبر ہیں ،یہاں تک کہ سیکریٹریٹ میں بیٹھے بابو حضرات بھی ایسے افسران کی خرمستیوں سے آگاہ ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ایسے میں لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس محکمہ کے لوگ اوپر سے نیچے تک ملے ہوئے ہیں اور نذرانوں کا حصہ سب کو ملتاہے ورنہ وہ کون سے غیبی ہاتھ ہیں جو ایک اعلیٰ آفیسر کو اپنے ماتحت عملہ کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتے ہیں۔ شفافیت اور رشوت خوری کے خلاف جنگ کے بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔اگر یہ دعوے صحیح ہیں تو ایسے ملازمین کا کوئی بال بھی بیکا کیوں نہیں کرتا جبکہ ان کے خلاف حکام کو بدعنوانیوں کے پختہ ثبوت مل سکتے ہیں۔اگر حکومت رشوت خوری مخالف جنگ میں سنجیدہ اور پر خلوص ہے تو ایسے لوگوںکو چلتا کرنا ضروری ہے تاکہ ان اہم محکموں کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہو۔اب اس محکمے پر زر کثیر خرچ کررہی تو ارباب ِ اقتدار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ محکمے کو فعال بنانے میں اور شفافیت لانے میں اہم رول ادا کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں