298

آئین کے چوتھے ستون کے ساتھ نا انصافی کیوں؟

مظفر خان

.

.

صحافت کا شعبہ آئین کا چوتھے ستون مانا جاتا ہے۔دنیا بھر میں صحافت کے پیشے کو عزت اور وقار کا ایک اہم شعبہ تصور کیا جاتا ہے۔ جموں کشمیر بالخصوص کشمیر میں صحافیوں کو طرح طرح کے مشکلات کا سامنا ہے۔ کشمیر میں پچھلے تین دہائیوں سے نا مساعد حالات کے باوجود صحافیوں نے اپنے فرائض انجام دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ بہت سے صحافیوں نے اپنے فرایض انجام دیتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کچھ صحافیوں کو اپنے فرائض کے دوران تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔کشمیر میں اخبارات کا رول بھی بہت اہم رہا ہے۔ اخبارات نے ہمیشہ سے ہی عوام اور حکومت کے درمیاں ایک پل کا کام کیا۔حکومت کے تر قیاتی منصوبوں کی تشہیر بھی اخبارات کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہے۔ ان اخبارت میں روزنامہ، ؛ہفت روزہ اور ماہانہ اخبارات چھپتے ہیں۔ ان اخبارت کے ساتھ ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ اخبارات کو حکومت کی طرف سے محکمہ اطلات کے ذریعے اشتہارات دئے جاتے ہیں جس سے اخبارات میں کام کرنے والے ملازمین اور صحافیوں کے روزگار کا بندو بست ہوتا ہیں۔ 5 اگست 2019 کے بعد جبکہ بہت سے مرکزی قوانین کو جموںکشمیر میں لاگو کیا گیا اسی میں اخبارات کے لئے 2020 میڈیا پالیسی تشکیل دے دی گئی جس میں جموں کشمیر میں شایع ہونے والے اخبارات کے صفحات میں جہاں اضافے کی شک موجود ہے وہی اشتہارات کی مساواتی ترسیل اور ان کی قیمتیں بڑھانے کی شک بھی موجود ہے۔ محکمہ اطلات نے اس پالیسی کو تو نافذ کردیا مگر اس میں سے جو نقات اخبارات کے لئے فائدے مند ہے ان شکوں کو لاگو نہیں کیا گیا جس میں مساواتی اشتہارات کی ترسیل اور قیمتیں بڑھانا ہے اس کو نظر انداد کیا گیا۔ اس بارے میں وقت وقت پر اخبارات کے مدیران نے محکمہ کے افسران سے ملاقاتیں کرکے اشتہارات کی مساوی ترسیل اور ریٹ میں اضافہ کے حوالے سے آگاہ کیا مگر ابھی تک محکمہ کی جانب سے کوئی مثبت اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ستم ضریفی یہ ہے کہ محکمہ اطلات اشتہارات کا زیادہ حصہ کچھ منظورِ نظر اخبارات پر صرف کرتا ہے جبکہ اکثریتی اخبارات پر کم قلیل صرف کیا جاتا ہے۔ اس سے اندیشہ یہ کیا جاتا ہے کہ یا تو ان منظورِ نظر اخبارات پر کسی کا دست شفقت ہے یا اس میں رشوت ستانی کی علامات ہے۔ اس نا انصافی کی وجہ سے اکثریتی اخبارات کے مدیران کو فاقہ کشی کا اندیشہ ہے۔ان اکثریتی اخبارات سے پڑھے لکھے لوگ وابستہ ہے جنہوں نے پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کو ترجیح نہ دیکر اس مقدس پیشے سے خود کو وابستہ کیا۔ مگر حکومت کی غلط پالیسیوں سے اس صحافتی شعبے جسے کہ آئین کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے کا استحصال کیا گیا۔ ان اخبارات سے وابستہ افراد دو تین دہائیوں سے عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کام کرتے آئے ہیں۔ آج حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ان کا روزگار داو ¿ پر لگا ہوا ہے۔اب جبکہ ان اخبارات سے وابستہ افراد نے سرکاری نوکری پانے کی عمر پار کر لی ہے۔اسلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ان مسائل کی طرف دھیان دے تاکہ ہزاروں گھروں کے چولہے بند ہونے سے بچایا جاسکے۔اور صحافتی شعبے سے وابستہ افراد کے عزت اور وقار کو مدنظر رکھ کر ان کے لئے مالی پیکیج کا بندوبست کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں