ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
سہیل سالم
عید الاضحی کے ایام مبارک ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ ایام مسلمانوں کے لئے مسرت اور شاد مانی کا پیغام لاتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جس کو رحمت کا دن کہا گیا ہے کہ اس دن حاجی صاحبان کے لئے ہر طرف اظہار وتشکر کا سماں ہوتاہے۔شکر کس بات کا ؟اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ماہ ذی الحجہ کی صورت میں نیکیوں کا موسم بہار عطا فرمایا کہ اس مبارک مہینے میں ہم اللہ کی رحمت ،مغفرت اور اجرو ثواب سے اپنے دامن کو بھر کرآخرت کی کامیابی کا سامان فراہم کریں۔۰۱ ذی الحجہ وہ تاریخ اور مبارک اور عظیم شان قربانی کا یاد گار دن ہے جب حضرت ابراہیم ؑ نے بڑھاپے میں عطا ہوئے لخت جگر سیدنا اسماعیل ؑ کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا ایساقدم اٹھایاکہ آج بھی اس فیصلے کی تعمیل پر چشم فلک حیران ہے جبکہ دوسری طرف فرمانبرداری و جانثاری کے پیکرسیدنا ابراہیم ؑ کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل ؑ نے رضامندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کرکے قربانی کے تصور کو تاقیامت امر کرنے کا مظاہرہ کیاکہ خو د رضامندی بھی حیرت میں ڈوب گئی۔
یہ فیضان ِنظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب فرزندی
ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے شر ف قبولیت بخشا اور آپ ؑ کے فرزندہ اسماعیل ؑ کو سلامتی کا پروانہ عطا کر لیا۔ آپ ؑ کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ذبح عظیم قرار دیا۔ اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ،اعلی اور افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیم ؑیعنی قربانی کا جو تصور دیا ، وہ اخلاص اور تقویٰ پر زور دیتا ہے۔عید کے روزہر مسلمان اس عظیم شان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جو روئے زمین پر حکم الٰہی سمجھتے ہوئے سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ نے پیش کی تھی۔ خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کے قانون کا حصول اور شیطانی قوتوں کو خاک میں ملانا ہے۔ قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کوپروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اس کی نذر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بھی ذبیح جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ دلوںکا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”ہر گز نہ تو اللہ تعالیٰ تک ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے“۔ (سورہ الحج۔۔۷۳)اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں: ”ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑھائی سے لیا جائے۔اسی لئے قر بانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رزاق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کا گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بند وں سے بے نیاز ہے۔ جاہلیت کی بے وقوفیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے، مسلمان ہو کر صحابہ ؑنے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ توتقویٰ کو دیکھتا ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر۔۔ص۔۔۱۰۳)
معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا بظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری ہوتی ہے۔ خلیل اللہ کی پیروی کا اصل مقصدجانور ذبح کرنا،نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلا وا نہیں بلکہ اللہ کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔قربانی کے ذریعے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ،انبیا ئے کرام ؑ سے محبت اور خلوص و ایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قربانی میں اگر ریاکاری سے کام لے کر نمودونمائش اور اپنی دولت کا رعب ڈالنے کی کوشش کی جائے تو ایسی قربانی قیامت کے روز ثواب سے محروم رکھی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کا خون یا گوشت نہیں بلکہ قربانی دینے والی انسان کی نیت مطلوب ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ قربانی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے لیکن غلو اور ریاکاری نے اس کو تاش تاش کر کے رکھ دیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جس اخلاص سے سیدنا ابر اہیم ؑ اپنے بیٹے کی قر بانی کرنے پر تیار ہوئے ،اُسی اخلاص اور نیت سے ہم بھی قربانی جیسے عظیم فریضے کو انجام دیتے مگرصد افسوس کہ آج کے ماحول میں قربانی سنت ابراہیم ؑ کے بجائے دکھلاوے کی قربانی بن چکی ہے۔لوگ ذاتی نمود ونمائش کے لئے قربانی میں غلو کرنے لگے، اپنی دولت کا رعب جمانے لگے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڈ میں اخلاص اور تقویٰ سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ شاید لوگ بھول چکے ہیں کہ قر بانی کی قبولیت کا انحصار ریاکاری پر نہیں بلکہ خالصیت پر ہوتا ہے اور جہاں اخلاص نہ ہو وہاں قبولیت بھی نہیں ہوتی ہے۔
دوسری اہم بات ہمارے آس پاس بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کی معاشی حالت بہت ہی کمزور ہے نیز جنہیں کئی مشکلات کا سامنا کر نا پڑرہا ہے۔ اس عید پر ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ انسانیت کی خدمت کرنے کا ایک طریقہ۔حضرت محمدﷺ کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل پیرا ہونا ہے۔دنیا میں سب سے قیمتی شئے انسانیت ہے۔ انسانیت کی خدمت کرنا دراصل پوری کائنات کی خدمت کرنے کے مترادف ہے۔ اس بار عیدالاضحی کا پیغام یہی ہوگا کہ ہمیں غریبوں، بے کسوں، یتیموں اور لاچاروں کے ارمانوں، خواہشات اور ان کی ضرورتوں کا احترام کرنا ہوگا تاکہ یہ لوگ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ یہ سعادت بھرے لمحے خوش اسلوبی کے ساتھ گزاریں جس کے سبب ہم اللہ کی خوشنودی اور رضا مندی حاصل کر سکتے ہیں۔بقول اقبال
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا