(عابد حسین راتھر)
جموں وکشمیر کے خوبصورت مناظر، برف سے ڈھکے بلند پہاڑ، خوبصورت وادیاں، بہتے چشمے اور جھرنے، درختوں کی شادابی، جھیلوں کی سکونت، صاف وشفاف پانی اور آلودگی سے پاک ہوا برسوں سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ اگرچہ نامساعد حالات کی وجہ سے گزشتہ چند دہائیوں سے اس صنعت کو کافی نقصان ہوا لیکن حالیہ سالوں میں، خصوصاً 2022 اور 2023 میں، اس خطے نے سیاحت کی صنعت میں نمایاں اضافے کو محسوس کیا۔ جموں وکشمیر کے سیاحتی شعبے نے حال ہی میں سرینگر میں منعقد ہونے ہونے والی جی-20 میٹنگ کے بعد پچھلے سال کے مقابلے میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں 59% کا اضافہ دیکھا۔ لیفٹیننٹ گورنر کے ایک بیان کے مطابق اس سال کے جولائی تک تقریباً ایک کروڑ ستائیس لاکھ سیاحوں نے جموں وکشمیر کا دورہ کیا۔ موجودہ سال کے یکم جنوری سے 19 جون تک پندرہ ہزار غیر ملکی سیاحوں نے کشمیر کا دورہ کیا۔ جموں وکشمیر میں سیاحتی شعبہ کے انتظامیہ کو اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ یہ اعداد وشمار مستقبل میں مزید بڑھتے رہیں گے، اور کشمیر ایک بار پھر عالمی سیاحتی نقشے پر تعطیلات گزارنے کیلئے مشہور مقامات میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرے گا۔ جموں وکشمیر کے جی ڈی پی میں سیاحتی شعبے کا تقریباً 8.5% کا حصہ ہے۔حالیہ ایک تحقیق کے مطابق، کشمیر میں اعلٰی معیار کی سیاحت کی ترقی کے نتائج میں آنے والے پانچ سالوں میں 10,000 نئی ملازمتوں کی تخلیق کا امکان ہے۔
اگرچہ جموں وکشمیر کی سیاحتی صنعت کے متعلق مندرجہ بالا حقائق کافی مثبت، پر نتائج اور دلچسپ ہیں اور ان چیزوں سے ہم اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ یہ صنعت مستقبل میں کشمیر خطے کی معیشت کو بڑھاوا دینے اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کڑی کا ایک دوسرا منفی پہلو بھی ہے جو متعلقہ حکام کی توجہ چاہتا ہے۔ آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ گزشتہ دنوں ایک سنسنی خیز خبر سامنے آ گئی جس کے مطابق جموں وکشمیر میں جنسی منقولہ امراض خاص کر ایڈز کا گراف ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور رواں سال کے جون مہینے تک اس مرض میں مبتلا 6158 افراد کی نشاندہی کی گئی جن میں سے 1400 افراد کی موت واقع ہوگئی۔ اس خبر کے مطابق گورنمٹ کالج جموں میں5060 افراد کو اس مرض میں مبتلا پایا گیا جبکہ صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں اس مرض میں مبتلا 746 افراد کی نشاندہی کی گئی۔ اسی طرح کٹھوعہ میں بھی 352 افراد کو ایڈز کی بیماری مبتلا پایا گیا۔ متعلقہ سرکاری ادارے کے مطابق جموں وکشمیر میں ایسے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے لیکن معاشرے میں بدنامی کے ڈر کی وجہ سے بہت سارے لوگ اپنا ٹیسٹ نہیں کراتے ہیں۔ اگرچہ صحت اور طبی تعلیم کے محکمہ نے بعد میں اس خبر کی تردید کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ اعداد وشمار مجموعی طور پر سال 1992 سے لیکر رواں سال تک کے ہیں لیکن دوسری اہم بات جس کا انکشاف اس خبر میں کیا گیا وہ یہ ہے کہ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کے بڑھتے تعداد کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز بن گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کافی تعداد میں باہر کے سیاح آتے ہیں اور وہ لوگ ان بیماریوں کو یہاں پھیلانے میں بڑھاوا دیتے ہیں کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ اس خطے میں ان بیماریوں میں مبتلا اکثر افراد باہر کے سیاحوں کی وجہ سے ان بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ متعلقہ شعبہ کے اعلٰی افسران کے مطابق نشہ میں ملوث افراد کو جنسی منقولہ امراض ایڈز جیسی جان لیوا بیماریوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اگر ایسے نشے کے عادی لوگ شادی شدہ ہو یا جنسی طور پر فعال ہو تو وہ یہ بیماریاں اپنے پارٹنرز میں منتقل کر سکتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات واضع رہے کہ کشمیر میں نشیلی ادویات اور باقی نشیلی چیزوں کو پھیلانے میں بیرونی سیاح ایک اہم رول نبھا رہے ہیں ۔ لہذا مقامی حکومت کو اس چیز کی طرف دھیان دے کر اس سے سختی سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگرچہ سال 2022 اور 2023 میں حکومت کے کچھ اقتدامات جیسے بہترین حفاظتی تدابیر، جدید مارکیٹنگ طریقہ کار، سیاحتی مراکز کی نئے طریقوں سے تزئین وآرائش وغیرہ کی وجہ سے یہاں سیاحت کو ناقابل یقین بڑھاوا ملا لیکن اس کے ساتھ ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اگر معاشی فوائد کی وجہ سے سیاحت کی بحالی پر توجہ دینا قابل فہم ہے، لیکن ساتھ ہی ایڈز بیماری میں اضافہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ سیاحت میں اضافہ اور جنسی منقولہ امراض کو پھیلنے سے روکنا ایک کثیر الجہت چیلنجز ہیں جن پر توجہ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مقامی صحت کی تنظیمات اور پالیسی سازان کو اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاحت کے فروغ میں بھی کوئی منفی اثر نہ پڑے اور ساتھ ہی لوگوں کو ان مہلک امراض سے محفوظ رکھا جاسکے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاحوں کی آمد کشمیر کی اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے، لیکن اسے ذمہ دارانہ سیاحتی تدابیر اور وسیع جنسی منقولہ امراض بیداری مہموں کے ساتھ منظم کیا جانا چاہئے۔ جنسی منقولہ امراض جیسے ایڈز کے بڑھتے تعداد کو نظرانداز کرنا مقامی لوگوں اور سیاحوں کی صحت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اور اس کے علاوہ کشمیر کی شہرت بطور ایک سیاحتی مرکز کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ شعبہ سیاحت کے حکام کو صحت کے اداروں کے ساتھ مل کر جنسی منقولہ بیماریوں کی آگاہی کے لئے تعلیمی مواد تخلیق کرنے کیلئے تعاون کرنا چاہئے اور اس مواد کو سیاحت کے مراکز، ہوٹلوں وغیرہ پر سیاحوں میں تقسیم کرنا چاہئے۔ مقامی حکومت کو چاہئے کہ کشمیر خطے کے داخلی نقاط پر ایچ آئی وی/ ایڈز کے لئے سخت معائنہ اور ٹیسٹنگ پروٹوکولز کو عمل میں لائے، اور مقامی کلینکس کو ایسے امراض کیلئے خفیہ ٹیسٹنگ خدمات فراہم کرنے کیلئے حکم نامہ جاری کرے تاکہ جلدی سے ایسے بیماروں کی شناخت کرکے انہیں مدد فراہم کی جائے اور ایسی بیماریوں کو پھیلنے سے روکا جائے۔ سرکاری حکام کو چاہیے کہ مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ آگاہی مہموں میں بھرپور حصہ لے اور ساتھ ہی محکمہ صحت میں ہیلتھ کیئر کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرے، متاثرہ افراد کیلئے اینٹائ ریٹرو وائرل تھیراپی کی رسائی میں آسانی پیدا کرے اور ایڈز کے متاثرہ افراد کی حمایت کرکے ان کی بھرپور مدد اورحوصلہ افزائی کرے۔ مختصراً کشمیر میں سیاحتی صنعت کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ جنسی منقولہ امراض کو روکنے کیلئے ایک جامع اور ٹھوس پالیسی کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے لوگوں کی صحت اور معاشرتی و معاشی ترقی کی حفاظت کے لئے مکمل پلاننگ اور اشتراکی کوشیشوں کی ضرورت ہے جس کیلئے مندرجہ بالا اقتدامات اٹھانا بہت ہی اہم اور لازمی ہے۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430