تیرا وجود ہے صرف داستاں کے لئے
رشید پروین ؔ سوپور
اپنے مست قلندر سیاستداں جناب فاروق عبداللہ نے اپنی مختصر سی تقریر کے دوران بی جے پی کو بڑا زرین مشورہ دیا کہ وہ پاکستان سے بات کرے ،اس بارے میں بس یہ کہنا ہی کافی ہے کہ جناب فاروق صاحب گانے اور رقص کے دوران جہاں سُر تال کا خیال نہیں رکھتے بالکل اسی طرح بے وقت کی راگنیاں گانے میں بھی بڑے مشہور ہیں، وہ ایسے بھی مفت اوربالکل مفت مشورے دینے کے ماہر اور عادی بھی ہیں۔ اب شاید آپ کو یاد ہوکہ اپنے دور اقتدار میں کبھی پاکستان پر ایٹم بم گرانے کے مشورے سے بھی مرکزی قیادت کو نوازا کرتے تھے۔ بہر حال ۵ اگست ۲۰۱۹ سے پہلے کشمیر نشین تمام مینسٹریم پارٹیاں اور بشمول این سی، پی ڈی پی جنہیں جموں و کشمیر میں اقتدار کا موقع ملا اپنی دکانوں اور اپنے محلات میں کچھ نہ کچھ مال رکھتے تھے، مال نہ سہی بس خوابوں ہی کے سوداگر کہلاتے تھے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خواب بکتے بھی تھے اور کبھی انہیں بیچنے اور مارکیٹنگ کے لئے خلائی مخلوق بھی آیا کرتی تھی ، لیکن اب کیا ہے ؟، نہ وہ زمانے رہے، نہ وہ لوگ رہے اور نہ ہی وہ وقت رہا ۔جب مرکزی سرکار کو کام چلانے کے لئے کچھ بیساکھیوں کی ضرورت رہا کرتی تھی ۔
۵ اگست کے بعد اپنے آپ کو منظر میں رکھنے کے لئے ایک اتحاد بھی ہوا جس سے گپکار الائنس کا نام دیا گیا تھا اور یہ اتحاد ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۰ ء کو عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے صدر بھی فاروق عبداللہ مقررہوئے تھے۔ تین بڑی اکائیوں ۔ این سی، پیپلز کانفرنس اور پی ڈی پی کے علاوہ اس میں اور بھی کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں تھیں۔ یہ اتحاد بھی ایک سیاسی مجبوری تھی، یہ ساری مینسٹریم پارٹیاں اس ہدف پر نہیں ٹک سکیں جس کے لئے اس کا بظاہر جنم ہوا تھا، انہوں نے سٹیٹ ہڈ کی بات کی، ۳۷۰ اور ۳۵ اے کی بات کی، کشمیر کے مفادات اور تحفظات کی بات کی ۔اب آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشمیر نشین پارٹیاں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر چکی ہیں اور اقدار کی چاہت میں مرکزی سیاسی گلیوں میں مجنونوں کی طرح الل ٹپ اپنی وفاداریاں ذو معنی جملوں سے جتارہی ہیں ، کیونکہ اب وادی میں مکمل امن و امان ہے ۔ شانتی اور سکھ چین ہے اور یہ سب جیسا کہ کہا جارہا ہے ۳۷۰ وغیرہ ختم کرنے کے کرشمے ہیں ۔ جی ۲۰ کا انعقاد ایک دلیل ہے ،اور حا لیہ یوم جمہوریہ جس میں لاکھوں ترنگے بھی لہراتے رہے اور اخبارا ت کے مطابق ہزاروں لوگوں نے ان تقریبات میں حصہ بھی لیا۔اگرچہ اس دوران یعنی ۵ اگست کے بعد کئی اور سیاسی پارٹیاں یا سیاسی دکان بھی کھولے گئے جن میں سید الطاف بخاری اور اس کے بعد اپنے قد آور کانگریسی لیڈر جناب غلام نبی آزاد کی "آزاد ڈیمو کریٹک پارٹی” بھی شامل ہے اور ان دونوں پارٹیوں نے اگر چہ اس بات کو ابتدا ہی میں قبول کیا کہ ہمارے پاس کسی طرح کا کوئی سبز رنگی مال نہیں اور یہ بھی قبول کیا کہ ۳۷۰ ، اٹانومی اور ۳۵ اے وغیرہ کی باقیات بھی ہم اپنی دکانوں میں نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود ان دکانوں کی طرف ارباب اقتدار کی وہ نظر عنایتیں نہیں جو پہلے پہلے کانگریس وغیرہ کے ادوار میں ایسی پارٹیوں کو حاصل رہا کرتی تھی اس لئے اپنی وادی کی سیاسی پارٹیاں بس انتخابات کی منتظر ہیں اور بلکل بے چین ہیں کہ یہ الیکشن کب منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی قوت آزمائی کرکے اقتدار کی دیوی کو اپنے بالاخانوں کی زینت بناسکیں۔
اس پر لکھنے سے بہتر ہے کہ آپ کواپنے ذہن کے پردوں پر رقصاں وہ کہانی سناؤں جو آپ کی بوریت دور کرے گی، اور آپ کو کشمیری سیاست کے موجودہ سینیر یو سے بھی آشنا کرائے گی ۔اور یہ سیاست کار بھی چاہئیں تو کئی سوالات کے جوابات پائیں گے ،کیونکہ کبھی کبھی کہانیاں بھی بڑی دلچسپ اور بڑی مماثلت رکھتی ہیں اور معاشرے کی روایات اور بہاؤکو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرتی ہیں ، بقول غالب ؔ ،ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔۔کیا کیا جائے اس کے بغیر چارہ نہیں کہ کہانیوں سے ہی کبھی کبھی دل بہلایا جائے ۔ ہوسکتا ہے کہ کہانی آپ نے سنی ہو لیکن آپ نے کبھی اس کہانی کو یہاں کے سیاسی منظر نامے میں ریلیٹ کرنے کا خیال ہی نہ کیا ہو۔ ۔ کہتے ہیں کہ کبھی دس پندرہ شودوں(چرسی، بھنگی ،) نے مل کر سوچا کہ بھیڑ کے "سری پا” پکائے جائیں۔ ہمارے شودوں کے بارے میں یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ من کے اجلے ، مست مولا اور دنیاوی فریبوں سے دور اپنی ہی الگ دنیا بسائے ہوتے ہیں جہاں کے یہ خود بادشاہ اور شہنشاہ ہوتے ہیں ، تو ایسے ہی مست مولاؤںکی ٹولی کو خواہش ہوئی ، کیا کیا جائے خوا ہش ہی ہے کہ دھوم سے سری پائے پکائے جائیں اور مزے مزے سے دوچار چلمیں پھونکنے کے بعد کھائے جائیں۔ بس چندہ جمع ہوا اور دیگ بھی چولہے پر چڑھائی گئی ، بڑی دیر کے بعد جب دیگ میں سری پائے تیار ہونے ہی والے تھے ،ایک "شودے” کو خیال آیا کہ سری پا میں سارے مصالحے تو ڈالے ہیں لیکن مرچ رہ گئی ہے، اب سارے ہی شودے دیگ کے ارد گرد بس آخری انتظار کے لمحات گذار رہے تھے ، اپنی چلم بھی پہلے پہلے ہی تمام کر دی تھی اس لئے سبھی مست ، دنیا و مافہیاسے بے خبر آرام فرما ہوچکے تھے ۔ اس لئے کسی بھی شودے نے مرچ لانے کی حامی نہیں بھری اور نہ اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت ہی گوارا فرمائی۔ سو بڑے شودے نے بڑی عقلمندی سے فیصلہ سنا دیا کہ جو شودہ بات کرے گا مرچ اسی پر واجب ہوگی اور اس سے ہر قیمت پر مرچ لانا پڑے گی۔ بس اپنی ہی دنیا کے لوگ ہیں جو من میں سمائی کر ڈالی۔ ایک دم سبھوں نے اپنی زبانوں پر تالے چڑھائے۔ آہستہ آہستہ چولہا سرد پڑا ، دوچار کتے بھی کہیں ادھر اُدھر سے آگئے ، جب انہیں کسی نے بھگانے کی کوشش ہی نہیں کی تو وہ بھی یہی سمجھے کہ مفت کا مال ہے ، ہڑپ لیا جائے۔ محتاط انداز میں دیگ کی طر ف بڑھے، دائیں،بائیں سے کوئی حرکت اور ڈنڈا نہیں اٹھا تو آرام سے دیگ پر ہلہ بولا ۔ دیگ الٹ دی، شودے (چرسی )تماشہ دیکھتے رہے کیونکہ ان کے ذہن میں تو بس ایک بات نقش ہو چکی تھی کہ ( زباں کھولی تومرچ واجب ہوگی )۔ کسی نے حرکت نہیں کی، کتوں نے دیگ الٹ دی ، ’’سری پا‘‘ آرام سے چٹ کر گئے ، لیکن شودے یہی خیال کرتے رہے کہ جس نے زباں کھولی اس کو مرچ لا نا پڑے گی، اتفاقاً اس رات بادشاہ کے ہاں چوری ہوئی ، صبح سویرے شاہی محل میں تلاطم پیدا ہوا ، چوری وہ بھی بادشاہ سلامت کے محل میں؟ ، تو سارے کوتوالوں کی سانس پھول گئی ، گلی کوچوں میں ناکے لگائے گئے اور اسی دوران کسی نے خبر یہ پہنچائی کہ ایک جگہ نکڑ پر پانچ سات آدمیوں کی ٹولی دھونی رما کے بیٹھی ہے شاید چوری کا مال تقسیم کرکے خاموش بیٹھے ہیں، تو کوتوال صاحب آگئے، کچھ پوچھ تاچھ کرنا چاہی لیکن کسی نے زباں کھولی نہیں ، سمجھے کہ بڑے پہنچے ہوئے چور ہیں جو زباں ہی نہیں کھولتے۔ بادشاہ کے روبرو پیش ہوئے ، سوال اور جرح ہوئے لیکن زباں کھولنے کی پاداش میں ان پر مرچ واجب ہوجاتی، اگر چہ اب نہ وہ دیگ تھی نہ وہ سری پائے تھے جس کے لئے مرچ کے پاپڑ بیلنے کی ضرورت تھی۔ جب کوئی جواب نہیں آیا تو سیدھا پھانسی کا حکم ہوا ، سارے شہر میں منادی کردی گئی کہ شاہی چور پکڑے گئے ہیں اور انہیں پھانسی دی جائے گی۔ لوگ ہجوم در ہجوم تماشہ دیکھنے آگئے، ایک چرسی کے گلے میں جب پھا نسی کا پھندا بھی پہنایا گیا اور پھانسی لگنے میں لمحات کی دیر تھی تو جناب( شودے)چرسی کو احساس ہوا کہ اب خاتمہ ہی ہونے والا ہے تو اچانک چیخ پڑا ، میں چور نہیں ،، میں چور نہیں ،، اس کی زباں کھلنی تھی کہ نیچے سے باقی تمام شودے چیخ اٹھے مرچ لاؤ ، مرچ لاؤ،، تم نے زباں کھول دی ہے ۔یہ شور و غوغا سن کر بادشاہ سلامت کے ساتھ تمام درباری اور لوگ حیران و ششدر کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں اب اچانک زباں کھولی ہے، بادشاہ نے شودے کے گلے سے پھانسی کا پھند انکالنے کا حکم دیا اور ماجرا پوچھا، تو شودے نے با ادب سارا ماجرا بیان کیا کہ یہ ایک شرط تھی سو میں نے زباں کھول کر یہ شرط ہاری ہے اور اب مرچ مجھ پر واجب ہوگئی۔ درباری اور بادشاہ سلامت ششدر ، صم بکم۔ کسی وزیر نے پوچھا کہ بھائی وہ "سری پائے” جو پک رہے تھے ہیں کہاں؟ ، شودے نے بیساختہ معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ کتے پہلے ہی چٹ کر گئے ہیں ، بادشاہ نے پوچھا ’’ارے عقل کے اندھے نہ سری پا ہے نہ اس کا شوربہ ہے نہ وہ دیگ ہے ، تو اب مرچ کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ سوال آج تک اس کشمیری کہانی میں اسی طرح موجود ہے جس طرح شودوں کے زمانے میں تھا اور ہم ابھی تک خود بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائے ہیںاور شاید آگے بھی نہ ڈھونڈ پائیں۔