297

گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طالبات نواکدل سرینگر میں معروف ادیب محسن خان کے اعزاز میں ایک ادبی تقریب اورکل ہند مشاعرہ

ڈاکٹر محمد امین میر (علیگ)،

کشمیر یونیورسٹی
7006130260
meerameenamu@gmail.com

مورخہ ۲۴ اگست ۲۰۲۳ ء بروز جمعرات کو گورمنٹ ڈگری کالج برائے طالبات نوا کدل سرینگر میں اُردو پریس کلب فیض آباد ایودھیا (اتر پردیش ) کے زیر اہتما م انعام یافتہ و دورِ حاضر کے معروف ادیب و ناول نگار محسن خان مصنف ناول ’’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘ کے اعزاز میں ایک ادبی نشست و قومی سطح کا مشاعرہ کالج کے وسیع و عریض کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔اس نشست کے مہمان خصوصی جناب محسن خان صاحب تھے ۔ایوان صدارت میں جناب جلال صدیقی صاحب، پروفیسر عارفہ بشری (صدر شعبہ اردو ،جامعہ کشمیر) ،پروفیسر سجان کو ر بالی صاحبہ ،، معروف فلم ساز جناب مشتاق علی احمد خان صاحب،ڈاکٹر جاوید انور (بنارس ) پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق میر (پرنسپل کالج ) اسٹیج پر موجود تھے۔ ادبی نشست کا افتتاح کالج کے پرنسپل اور میزبان پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق میرنے خطبہ استقبالیہ سے کیا ۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری نے انجام دے دیئے اور انہوں نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔
دوران نشست ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ کے جدید ریختہ ایڈیشن کی رسم و رہنمائی بھی ہوئی ۔اس نشست میں مہمان خصوصی اور ناول کے مصنف محسن خان نے اپنی ادبی کاوشوں سے سامعین کو روشناس کرایا اور ساتھ میں اس ناول پر اظہار خیالات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول کی بنیادی محرکات میںعصمت چغتائی کی شخصیت بہت اہم ہے ان کی پہلی ملاقات کی وہ نصیحت نے میرے ادب اور شخصیت کو بہت متاثر کیا جب انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کہانی اور کردار اپنے آس پاس کے ماحول سے اخذ کرنے کی کوشش کیاکرو ۔کردار جتنا ادیب کے قریب ہوگا اتنا ہی وہ اسکی نفسیات کی عکاسی کرنے میں کامیاب ہوگا اور کردار سے گہری وابستگی فن میں تاثیر پیدا کرتا ہے ۔انہوں نے مزید فرمایا کہ اس ناول کے تمام کردار اس نصیحت کی عکاسی پر مبنی ہے۔یہ کہانی ہر اس شخص کی ہے جو اس معاشرے کا حصہ ہے۔
نشست میں ناول کے حوالے سے کافی اہم مقالے بھی پڑھے گئے۔ جن میں سہیل سالم کا تعارفی نوٹ اور جاوید رسول کا مضمون بعنوان ’’ناول اللہ میاں کا کارخانہ۔ ایک مابعد جدید ناول ‘‘بہت اہمیت کے حامل تھے۔ ناول کے حوالے سے ایک مذاکرہ open sessionبھی رکھا گیا تھا جس میں ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب،ڈاکٹر الطاف انجم صاحب ڈاکٹر فیض قاضی آبادی صاحب، ڈاکٹر جاوید انور ،جناب مشتاق علی احمد خان صاحب، پروفیسر سجان کور بالی صاحبہ اور ڈاکٹر وسیم اقبال نحوی صاحب نے اپنے تاثرات پیش کئے ۔ان ناقدین کے تاثرات کا لب لباب یہی تھا کہ اکیسوی صدی کی فکشن میں ناول ’’ اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک اہم حیثیت رکھتا ہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔مزاکرہ میں ناقدین کے درمیان تعمیری مباحث نے اس نشست کو چار چاند لگائے۔کشمیر کے جید ناقد ڈاکٹر الطاف انجم صاحب نے کہاکہ ناول کامطالعہ قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور قاری کو تحریک پسندی اور جدیدیت مابعد جدیدیت کے پس منظر میں بھی مطالعہ کرنے پر متوجہ کرتا ہے ۔ اس حوالے سے انہوں نے اس ناول کے کئی اقتباسات کو بھی پیش کیا۔جامعہ کشمیر شعبہ اردو کی صدر پروفیسر عارفہ بشری صاحبہ نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے اس ناول کے اہم نکات کی طرف سامعین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ناول ’’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘ مثل شفاف آئینہ ہے جس میں کہی نہ کہی ہم اپنی جھلک محسوس کرتے ہیں۔ ناول کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ ہمیںمضطرب الذہن نئی نسل کی طرف لے جاتا ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول نئی نسل کی علامت ہے اور۲۱ ویں صدی کی شاہکار ناولوں میںناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘ سر فہرست ہے اور رہے گی۔اس ادبی نشست میں کشمیر کے دیگر کالجوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ ،طلباء و طالبات بھی موجود تھے۔
پہلے ادبی نشست کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محی الدین زور نے انجام دئے ۔اس پہلی ادبی نشست کے آخر میںپروفیسر پنو اندرابی نے تمام مہمانان اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ پہلی ادبی نشست کی کامیابی کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہو ا ۔ یہ مشاعرہ فخر الدین میموریل کمیٹی (حکومت اترپردیش ) اور اردو پریس کلب فیض آباد ایودھیا (اترپردیش) کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ جس کے مہمان خصوصی کالج کے پرنسپل و میزبان پروفیسر محمد فاروق میر صاحب تھے۔مشاعرے کے مقاصد پر جلال صدیقی صاحب نے تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر محی الدین زورکشمیری صاحب نے خطبہ استقبالیہ کے فرائض سر انجام دیے ۔مشاعرہ کی صدارت مشہور ومعروف شاعرہ رخسانہ جبین صاحبہ اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر نکہت نذر صاحبہ نے انجام دئے ۔ رخسانہ جبین صاحبہ نے اپنے خطبے میں نوجوانوں پر زور دیا کہ اب اس وراثت کو تمہیں آگے لے جانا ہوگا۔ مشاعرہ میں کشمیر کے مشہور شعراء و شاعرات نے حصہ لیا ۔ محترم اشرف عادل صاحب، محترم ارسلان کشتواڑی صاحب ،محترم سید عابد حسین بخاری صاحب، محترم مبارک احمد لون صاحب ، محترم عارض ارشاد صاحب اور محترمہ رخسانہ جبین وانی صاحبہ ان تمام شعراء حضرات نے حاضرین کو اپنے کلام سے محظوط کیا۔ مشاعرے میں طالبات نے بھی بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
کالج کے جن فیکلٹی ممبران نے اس یک روزہ تقریب کو کامیاب بنانے میں بھرپور تعاون دے دیا ان میں
پروفیسر شیخ حفیظ اللہ، ڈاکٹر دلگیر مہدی، پروفیسر شبیر احمد شاہ،پروفیسر شبیر احمد نجار، پروفیسر عادل حسین، ڈاکٹر واجد زرگر، جناب آصف بھٹ، ڈاکٹر عارف بشیر، پروفیسر تنو اندرابی، ڈاکٹر عبدالوحید کھانڈے، ڈاکٹر شجر شفیع جان کے علاوہ غیر تدریسی عملے نے بھی اپنی اپنی خدمات انجام دے دیں۔
کالج کی طرف سے باہر سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کو شال اور مومنٹوز پیش کئے گئے اور کہا کیا کہ کشمیر اور کشمیریت ہر لحاظ سے اپنی اہمیت و انفرادیت رکھتی ہے۔ حالانکہ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی (حکومت اُترپردیش) اور اُردو پریس کلب فیض آباد ایودھیا اُترپردیش کی طرف سے کشمیر کے ان پندرہ افراد کو مومنٹوز پیش کئے گئے جو اپنے اپنے شعبوں میں اُردو زبان و ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق میر (پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے طالبات نواکدل سرینگر) ڈاکٹر محی الدین زور (میزبان کالج) ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر جہانگیر احمد تانترے، ڈاکٹر روبی زتشی، پروفیسر عارفہ بشریٰ (صدر شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی) ، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی (اقبالیات)، ڈاکٹر عرفان عالم، (صدر شعبہ اُردو سنٹرل یونیورسٹی، کشمیر) مشتاق علی احمد خان (معروف فلم ساز) شبیر ماٹجی (میزان پبلشرز) ، سہیل سالم (نوجوان صحافی) جاوید رسول (نوجوان اسکالر) بلال احمد (ایڈیٹر سرینگر سماچار) منوج شیری (ایس ایس پی، پولیس ھیڈکواٹرس) پروفیسر سجان کور بالی (سابق پروفیسر کشمیر یونیورسٹی)
اس پروگرام میں میزان پبلیکیشنز بٹہ مالو کی طرف سے کتابوں کی نمائش بھی کی گئی جس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ، ادیبوں نے بھی اپنی اپنی پسند کی کتابوں کو خرید لیا۔
پروگرام کے آخر میں کالج کے پرنسپل صاحب نے پُر امید صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کی کہ ہماری کوشش یہ رہے گی کہ یہ کالج پورے ملک میں ایک الگ پہچان بنائے لیکن اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے کالج کے تمام اموران کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا ۔جہان تک ادبی اور غیر نصابی مشاغل کا تعلق ہے اس ضمن میں بھی ہماریہی کوشش جاری رہے گی۔ اخیر میں پروفیسر حفیظ اللہ شیخ نے نشست کے تمام مہمانان اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں