رشید پروینؔ سوپور
جموں و کشمیر سپیشل سٹیٹس ۳۷۰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الحاق جموں و کشمیر ، مہاراجہ کی دستاویز اور اس کے ہونے نہ ہونے پر اب کسی بھی قسم کی بحث اور خیالات کا اظہار کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی اور آئین کے مطابق آخری بھی ہوتا ہے ،اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی تشریح اور وضاحت بھی حتمی ہی ہوتی ہے اور اس کی قبولیت بھی ناگزیر ہوجاتی ہے ،جس پر کسی قسم کی رائے زنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس فیصلے پر ملک کے بیشتر اخبارات میں آرٹیکل آتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آگے مستقبل میں بھی کسی نہ کسی طرح اس دفعہ کی پرچھائیاں کہیں نہ کہیں اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی رہیں گی اور شاید قصے کہانیوں کا روپ دھار لیں گی، مختلف پارٹیوں اور ان پارٹیوں کے سر براہوں نے اس فیصلے پر اپنے محتاط بیانات دئے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور جن کا ایک مختصر ساتجزیہ بھی اِتنا ہی دلچسپ ہوگا ، کیونکہ دفعہ تو رہی نہیں لیکن بیانات کی صدائے بازگشت سیاسی فضاؤں میں موجود بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ پہلے جموں کے حوالے سے یہ بات کہ اگر یہ دفعہ۳۷۰ عوام کے حق میں تھی تو یکساں طور پر جموں و لداخ کے لئے بھی اتنی ہی اہم تھی ۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جموں میں تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر جشن کا ماحول نظر آیا جب کہ کشمیر کے عوام نے اس فیصلے کے بارے میں ہونٹ سی لئے اور کسی بھی طرح کسی قسم کا ردِ عمل نہیں دیا ، بلکہ معمول کے مطابق یہ دن بھی گذرا ، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے ، ٹریفک بھی حسب معمول ہی سڑکوں پر نظر آیا اور عام شہری اور پارٹی کارکن بھی بلکل لاتعلق اور بے نیاز ہی نظر آئے ۔ اور لداخ تو بہر حال جموں و کشمیر سے الگ اپنی ایک سوچ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو مرکز کے ساتھ منسلک رہنے کو ہی ترجیح دیتا ہے، یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ ان کا غالب خیال یہ کہ مرکز کے ساتھ منسلک رہنے میں ان کی تعمیر و ترقی کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔
سب سے پہلے پرائم منسٹر مودی جی کا اہم بیان اس فیصلے سے متعلق آیا اور انہوں نے سپریم کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ فیصلہ ایک مضبوط اور متحد ہندوستان کے لئے امید کی کرن ہے۔ آج کا فیصلہ صرف ایک قانونی فیصلہ ہی نہیں بلکہ امید کی ایک کرن کے ساتھ ایک روشن مستقبل کا وعدہ ہے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے اور یہ آئینی طور پر ۵ اگست ۲۰۱۹ پارلیمنٹ فیصلے کو برقرار رکھتا ‘‘۔یقینی طور پر پرائم منسٹر کا اس فیصلے کے بارے میں اس سے اچھے الفاظ میں ستائش ممکن نہیں تھی۔
کشمیر کے لفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ فیصلہ جموں و کشمیر کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا ‘‘۔ ظاہر ہے کہ ان کا شروع سے یہ موقف رہاہے کہ یہ دفعہ جموں و کشمیر کی تعمیر اور ترقی میں ایک رکاوٹ اور اڑچن تھی جو اب مکمل طور پر صاف ہوچکی ہے اور اب اس ریاست میں بھی کھل کر تعمیر ترقی کی راہیں وا ہو جائیں گی۔ امیت شاہ نے بھی کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا لیکن اہم بات جو انہوں نے پارلیمنٹ میں اس دفعہ کے خاتمے پر کہی تھی کہ ’’ اس دفعہ میں کچھ رہا ہی نہیں تھا ، ‘‘ یعنی ہم نے صرف ملبے کوہٹایا ہے ۔ رویندر رینہ بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے صدر نے کہا کہ ۳۷۰پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آچکا ہے، یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور اب مختلف پارٹی لیڈراں کو اشتعال انگیز بیان بازی سے احتراز کرنا چاہئے‘‘ اگر وہ یہ مشورہ نا بھی دیتے تب بھی سیاسی پارٹیوں کا محتاط انداز میں ہی اپنے بیانات ریکارڈ کرنے کی کوشش ہوتی ، کیونکہ معاملے کی نزاکت کے بارے میں وہ سب بخوبی واقف ہیں۔
یہ تینوں بیانات مر کزی سرکار کی سوچ و فکر کا اظہار ہیں اور یقینی طور پر مرکز کے لئے سپریم کورٹ کافیصلہ اطمینان بخش قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب ان بیانات کو ایک نظر میں دیکھنے کی کوشش کریں گے جو مختلف سیاسی پارٹیوں نے دئے ہیں کیونکہ ان کی روشنی میں ہی آنے والے انتخابات اور کشمیر کے سیاسی مستقبل کی ایک مبہم سی تصویر ضرور سامنے آئے گی۔ سابق وزیر اعلیٰ اور این سی نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’میں اس فیصلے سے مایوس ہوں لیکن دل شکن نہیں ‘‘ اور ہم جدو جہد جاری رکھیں گے ‘‘ اب اس میں اور کون سی جدوجہد جاری رکھی جاسکتی ہے جس کا باب ہی بند ہوچکا ہو ، مایوس بھی ہیں لیکن دل شکن نہیں،اس کی بہتر توضیح خود عمر صاحب ہی کر سکتے ہیں ۔۔
سجاد غنی لون شمالی کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے سر براہ ہیں ، مر حوم عبدالغنی لون کے صاحب زادے ہیں اور لون صاحب اپنے دور میں پریشر پالیٹکس کے لئے معروف رہے ہیں ، انہوں نے اس ’’فیصلے کو مایوس کُن قرار دیا ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ ’’انصاف جموں و کشمیر سے کوسوں دور ہے ‘‘ اس جملے کو کئی انداز فکروں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر کرن سنگھ جی جو بہت کم بیانات دیتے ہیں اور جموں و کشمیر کے یوراج بھی رہے ہیںنے بڑی اہم بات کی ہے کہ ’’جموں و کشمیر کے عوام اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں ۔لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنا ناگزیر ہے ۔ لوگوں کو تسلیم کرنا چاہئے کہ جدوجہد کرنے یا دیوار سے سر ٹکرانے سے کچھ حاصل نہیں ‘‘ الفاظ پر غور کیجئے تو شاید اکثریتی عوام کے احساس کی نمائندگی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس مجبوری کابھی اظہار کیا ہے ،جس کی بات کرنا سر ٹکرانے ہی کے مترادف قرار دیا ہے ۔
’’اپنی پارٹی‘‘ یعنی سید الطاف بخاری نے کہا ہے کی اس صورتحال کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا ، ‘‘ یہ بات انہوں نے اپنے بارے میں شاید کی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں بل پاس ہوتے ہی اس صورتحال کے بغیر کسی اور صورتحال کی توقع کیسے کی جاسکتی تھی۔ بہر حال الطاف صاحب کی پارٹی ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد کی پیداوار ہے اور خود انہوں نے اس پارٹی کو لانچ کرتے وقت یہ بات کہی تھی کہ ماضی کو ماضی ہی سمجھنا چاہئے اور یہ کہ بہتر ہے کہ تعمیر و ترقی کے اہداف نظروں کے سامنے رہیں، یعنی ۳۷۰ اور سپیشل سٹیٹس اب اس پارٹی کے لئے کوئی مسئلے نہیں تھے۔
غلام نبی آزاد جو کہ ڈیمو کریٹک آزاد پارٹی کے بانی ہیں۔ نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا تھا ’’بنیادی طور پر ۵ اگست ۲۰۱۹کو جو دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ پارلیمنٹ میں ہوئی تھی وہ ایک غلط فیصلہ تھا اور جلد بازی میں اٹھایا گیا تھا ، اور اب جب کہ سپریم کورٹ نے ۳۰ ستمبر تک انتخابات اور ریاست کی بحالی کے احکامات دئے ہیں تو اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ‘‘ در اصل یہی لفظ یعنی ’’گنجائش باقی نہیں رہی‘‘ ، تمام اوپر دئے گئے بیانات کا متن کہا جاسکتا ہے ، غلام نبی آزاد نے بھی اس جملے کے ساتھ ہی اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ہماری پارٹی کو مایوسی ہوئی ہے‘‘ ۔ ایڈو کیٹ آلوک کمار جو کہ ویشو ہندو پریشد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نے کہا ہے ’’کہ ویشو ہندو پریشد اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ابہام اور دھند صاف ہوچکی ہے اور اب صرف مقبوضہ کشمیر کو پاکستانی قبضے سے آزاد کرنا ہی باقی ہے۔‘‘
کُل ملاکر دیکھا جائے تو سارے بیانا ت یا پارٹی موقفوں میں ایک طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے ، مایوسی ، دل شکنی ، خوشی ، ناخوشی کو چھوڑ کر مشترک سوچ یہی ہے کہ اب ’’ابہام نہیں ، ،دھند چھٹ چکی ہے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، یعنی ستمبر ۲۴ میں جن انتخابات کی ہدایت جاری ہوچکی ہے ان میں حصہ لیا جائے۔ کشمیر نشین سیاسی پارٹیاں مدت سے انتخابات کی ڈیمانڈ کر رہی تھیں اور ان انتخابات کے لئے پہلے ہی سے کمر بھی کس چکی تھیں اور اپنے نریٹیو بھی سامنے لانے کی کوششیں کر رہی تھیں ،لیکن ابھی تک کسی پارٹی کے پاس لگتا ہے کہ کوئی خاص نریٹیو نہیں کیونکہ پچھلے ۷۵ برس تک الحاق، عارضی، مکمل، ۳۷۰ ، سپیشل سٹیٹس اور اس طرح کی خاص چیزیں سیاسی دکانوں میں وافر مقدار میں مہیا رہی ہیں لیکن اب اس مال کو نہ تو کوئی اپنی دکان میں سجا سکتا ہے اور نہ گاہک ہی اس طرف متوجہ ہوسکتے ہیں، تو یقینی طور پر پارٹیاں ایک مخمصے کا شکار رہیں گی لیکن اس مخمصے کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رہے گی کیونکہ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی پیج پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ بس اب مختلف پارٹیوں کے لئے ماضی کی کار کردگیاں ہی شاید زیادہ اہم رہیں گی، ان میں کانگریس ، این سی اور پی ڈی پی نشانے پر ہوں گی کیونکہ اپنی پارٹی اور آزاد ڈیمو کریٹک پارٹی حالیہ پیداوار ہیں اور ابھی نئے حالات میںانہیں آزمایا جاسکتا ہے ، لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ جب کشمیر کے معاملے میں سبھی پارٹیاں ایک پیج پر آچکی ہیں اور سبھی کے پاس بیچنے کے لئے کوئی خاص چیز نہیں ،تو کیا وؤٹ بکھر کر رہ جائے گا ، مجھے لگتا ہے کہ کشمیر کا ووٹر اس بات کو یقینی طور پر مد نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ وہ اس پارٹی ہی کے حق میں ووٹ کرے جو اب بھی بڑی ہو۔ ہر جگہ موجود ہو اور اپنی تمام تر خامیوں اور ماضی کی ناقص کار کردگی کے باوجود بہت ساری سیٹیں نکانے کی پوزیشن میں ہو، اگر یہ پیمانہ سامنے رہا تو یقینی طور این سی آگے رہے گی اور اگر عوام نے ماضی اور این سی کی تاریخ کو سامنے رکھا تو یقینی طور پر لوگ کسی نئی پارٹی ہی کا انتخاب کریں گے۔ ’اپنی پارٹی‘ بھی نئی ہے اور آزاد کی
’ڈیمو کریٹک‘ بھی نئی ہے۔ جموں کے مسلم ائریا میں غلام نبی آزاد کی شبیہہ ٹھیک ہے اور یہاں کشمیر کے ڈھائی سال کی حکمرانی کے نقوش بھی اچھے ہیں۔ ابھی بازار مندا ہے اور یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ لہر اور موجیں کس سمت کا رخ کریں گی۔ یا ’بی جے پی‘ کی کوئی ایسی حکمت عملی اپنی روائتی انداز میں متحیر کر کے رکھ دے گی اور حکومت بنائے گی۔۔۔ حالات اور واقعات کی سوئی ا س طرف بھی لرز رہی ہے،