رشید پروینؔ سوپور
احادیث کی روشنی میں بہت سے علماء کا خیال ہے کہ اس وقت دجال امریکہ میں اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے اور یہاں اس کےٹھہرنے کی مدت ایک ماہ کے برابر ہے اور یہ ایک مہینہ کتنی مدت پر محیط ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے ، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب دجال کے یروشلم منتقل ہونے میں کوئی زیادہ وقت نہیں۔ اسرائیل کے لئے امریکہ اور یورپی یونین کی شفقت، محبت اور کسی معصوم شریر بچے کی مانند اس کی ہر فرمائش اور خواہش پوری کرنا، کوئی پھڈا نہیں یعنی کوئی ناقابل فہم بات نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بر طانیہ نے اسرائیل کی عفریت کو جنم دیا اور ایک مدت تک ، احادیث کی رو سے ایک دن جو ایک سال کے برابر تھا ، اس کی پرورش بڑے لارڈ پیار سے کی اور اس مدت، جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے جب اپنا عالمی نمبر ون ہونے کا مقام کھویا تو امریکہ نے اسرائیل کی سر پرستی قبول کی۔ یعنی دجال امریکہ میں رہائش پذیر ہوا ۔ اس وقت سے اب تک تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے تمام اخلاقی ، اور انسانی اقدار کو تہس نہس کرکے ، اپنی بصارت اور بصیرت دونوں طرح کی آنکھیں بند کرکے اندھوں کی طرح اپنی لاٹھی کا استعمال اسرائیلی تشدد اور بر بریت کے حق میں کیا ہے اور یورپی یونین نے بھی اسرائیل کی ہر ناجائز اور غیر انسانی خواہش کی تکمیل میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا ہے اور ابھی کل پرسوں ہی امریکہ اور یورپی یونین نے حزب اللہ کو دھمکی دی ہے کہ وہ غزہ جنگ سے دور رہیں، نہیں تو ان کے خلاف بھر پور کاروائی کا آغاز ہوسکتا ہے بلکہ براہ راست ایران کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ نہ دیں۔
۷ اکتوبر سے اب تک کی جنگ میں غزہ کی ایک چھو ٹی سی پٹی (۳۶۰کلو میٹر ) اور ایک چھوٹی سی آبادی، جنہوں نے شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اذان مجاہد بلند کی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کر کے اپنے چہرے پر جو کالک ملی ہے وہ بے حساب ہے۔ اس کے اعداد و شمار جو باہر آئے ہیں اس طرح سے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے لئے امریکہ میں کئی دروازے ہیں جہاں سے انہیں لاتعداد ہتھیار مہیا کئے جاتے ہیں تاکہ ان کے تصور ’گریٹر اسرائیل‘ کی تکمیل ہوسکے۔ اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے ۱۰۰۰۰ سے بھی زیادہ ۲۰۰۰ پاونڈ وزنی انتہائی تباہ کن بم اور ہزاروں ہیل میزائیل سپلائی کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۴۰۰۰ ایم کے بم ۸۴ ۔۲۰۰۰ پاونڈ وزنی۶۵۰۰بم، ۳۰۰۰فضا سے زمین پر مار کرنے والے ہیل فائر، ۱۰۰۰ مورچہ شکن بم، چھوٹے قطر کے علاقے میں مار کرنے والے ۲۶۰۰ ہوائی بم اور دیگر گولہ بارود بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود کہ اسرائیل خود بھی تمام دوسرے ممالک کو بڑی مقدار میں مہلک ترین ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ یہ وہ تفصیل ہے جو باہر آئی ہے لیکن اس ہتھیار کے بارے میں کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا جو چور دروازوں سے اسرائیل پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ سارا گولہ بارود ایک مختصر سی پٹی یعنی غزہ پر گرایا جا چکا ہے جس میں اب تک جب میں یہ آرٹیکل لکھ رہا ہوں ، حماس صحت ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اور دوسرے ذرائع کے مطابق ۳۸ ہزار سے زیادہ شہر ی شہید ہوچکے ہیں،جن میں زیادہ تر بچے اور عورتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ابھی بھی جن لوگوں میں ضمیر کی ایک کرن بھی باقی ہے ، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آئے روز احتجاج کرکے تاریخ کی اس بد ترین نسل کشی اور قتل عام سے بیزار۔ اسرائیل کو انسانیت اور جنگی مجرم قرار دے رہے ہیں۔
اصل میں اسرائیل ، امریکہ اور یورپی یونین کی مشترکہ ناقابل تسخیر قوت بھی جذبہ جہاد اور سرفروشوں کو زیر کرنے میں قطعی ناکام اور نا مراد ہے۔ اسرائیل حماس کے مجاہدین کو گراونڈ لیول پر زیر کرنے میں بلکل ناکام رہا ہے اس لئے اسرائیل ساری غزہ پٹی کو مسلم فلسطینیوں سے صاف کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں یاجوج ماجوج ان کے ساتھ ان سے مکمل تعاون کریں گے۔ یہ پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو ۱۵ صدیاں پہلے یہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ یہودی اور مشرک مسلمان کے دوست نہیں ہوسکتے ، لیکن مسلم دنیا نے تو اس حدیث سے استفادہ ہی کیا اور نہ قابل اعتنا سمجھا جس کی وجہ سے ہم اپنی آنکھوں سے مسلم دنیا کا حال دیکھ رہے ہیں اور اسرائیل کے ارد گرد جو بھی بڑی مسلم قوتیں موجود تھیں جن میں شام، عراق، مصر، ایران اور مادی لحاظ سے مضبوط اور طاقتور ممالک سعودی عربیہ اور یو آئی اے ، کچھ تو ختم ہی ہوچکے ہیں اور کچھ آ ج بھی اپنے اندر کے انتشار سے کمزور سے کمزور تر ہورہے ہیں اور چند ممالک شتر مرغ کی طرح اپنا سر اپنے پروں میں چھپاکر سمجھتے ہیں کہ شکاری کو وہ نظر نہیں آرہے اور حیرت انگیز طور پر قیامت کی نشانیوں کو پورا کرنے، شداد کی جنتیں تعمیر کر نے،ا ونچی عمارتیں تعمیر کرنے اور ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کر نے میں مست و مدہوش ہیں۔
بہر حال اسرائیل کی سر پرستی بھی جاری ہے اور امریکہ اس ناجائز اولاد کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر بھی آسانی سے لگا سکتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ فی الحال دجال اسی جگہ رہائش پزیر ہے۔ اگر چہ اس کا نظام ساری دنیا پر حاوی ہوچکا ہے اور جہاں سے حق اور سچائی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ان پر آگ اور شعلوں کی بر سات بھی کی جارہی ہے اور ان کے لئے زندگی کی بنیادی اشیائے ضروریہ اور ادویات کی ترسیل بھی عملی طور پر روکی جارہی ہے۔ کیا یہی نشانیاں دجال کی احادیث مبارکہ میں واضح نہیں کی گئی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس کی دوسری وجوہات بھی ہیں جنہیں ہم اسباب کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں۔ در اصل اسرائیل وہ جادوئی طوطا ہے جس میں امریکی جان اٹکی ہوئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل کا موقف، اسرائیل کا طرز طریق، انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں اورانسانی اقدار کا قاتل اور کھلے عام جنگی مجرم ہونے کے باوجود امریکہ ،’ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ‘۔ اس معاملے کو سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں ۔
یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی افتتاحی تقریب پر ٹرمپ کے سفیر پادری جان ہیکی نے کہا تھا، ’’ اب ہمیں اس سر زمین میں مسیحا کے نزول کی بات کرنی چاہئے ۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولتا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی اسی ’بشارت‘ سے اخذ کی جاتی ہے‘‘،جب سے اسرائیل کا وجود نقشے پر ظاہر ہوا ہے یو این او قرادادوں سے جان سکتے ہیںاور یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اپنے اس طوطے کو سونے کے دانے دے کر اتنی امداد ہر سال فراہم کرتا ہے جتنی کہ وہ سارے ممالک کو فراہم کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ میں کئی تھنک ٹینک ہیں جو اقتدار اعلیٰ پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ یہ تھنک ٹینک بنیادی طور پر وہ ایجنسیاں ہیں جو امریکی پالسیاں ترتیب دیتی ہیں ۔ اکثر لوگ ان تھنک ٹینکوں کی اصل اور ان کے اندر دوڑتی ہوئی روح کو سمجھنے سے بہت ہی قاصر اور محروم ہیں کیونکہ ان کے خواب و خیال میں بھی امریکہ کے اصل حقائق نہیں ، اس لئے سب سے پہلے مختصر طور پر آپ کو اس بات سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ پا یسی ساز ادارے کون ہیں اور اصل میں پنٹا گن کے اندر کس طرح کی جان دوڈ رہی ہے ؟،کچھ کتابیں امریکی مارکیٹ میں وقتاً فوقتاً آچکی ہیں جو امریکی انداز فکر اور پنٹاگن سے ہمیں متعارف کرانے کے لئے کافی ہیں ان میں
The Internation Jew, The World Conquerors, Powns in the Game, Zionist Protocol
اور اس طرح کی بہت ساری مشہور و معروف کتب ہیں لیکن ان سب میں ایک اورنام جس سے شہرہ آفاق کہا جاسکتا اور جس کے چھاپنے کی ہمت دو برس تک کسی امریکی پبلشر نے نہیں کی ، اور آخر جب چھپی بھی تو چوبیس گھنٹوں کے اندر تمام کتب سٹالوں سے پر اسرار طور پر غائب کی گئیں ، یہ کتاب ایک بہت ہی مشہور امریکی سفارت کار (پال فنڈلے) کی تصنیف ہے۔ پال فنڈلے کو مڈل ایسٹ اور امریکہ دونوں جگہوں پر بڑی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، اس کتاب کا نام (They Dare to Speak Out ) ہے اور اس کتاب کو بڑی برق رفتاری کے ساتھ تمام صیہونی لابیوں نے مارکیٹ سے غائب کردیا تھالیکن اس کے باوجود یہ ۹ ہفتوں تک بیسٹ سیلر کا ریکارڈ قائم کر گئی اور کئی بک سٹالوں پر لوگوں نے اس کی عدم دستیابی کے لئے پتھراؤ کیا۔ پال فنڈلے کے مطابق صیہونی لابی تمام امریکی ڈیپارٹمنٹس اور کلیدی اہمیت کے محکموں میں
اپنی بالادستی کسی بھی طرح امریکی عوام میں مشتہر ہونے کے خلاف ہے اور اس مذکورہ کتاب میں ’پال فنڈلے‘ نے امریکی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا ، کہ یہاں راج کس کا چلتا ہے ؟، یہاں کی تمام پالسیاں محض اسرائیل کے مفادات میں ہی کیوں بنتی ہیں؟ اس کتاب کے مطابق یونیسیکو کے ۶۲ شعبوں پر صیہونی غلبہ ہے۔ آئی ایم ایف کے سب سے بڑے عہدے دار فری میسن یہودی ہیں۔ (فری میسن ایک اپر گراونڈ اور انڈر گراونڈ دونوں طرح کی انتہائی خطرناک تنظیم ہے)۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین ۸۵ سب سے بڑے عہدے داروں میں جو امریکہ کو چلاتے ہیں ۵۶ عہدے دار فری میسن صیہونیوں سے ہیں ، اس سے یوں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی آفیسراں اس لابی سے کیوں خوفزدہ ہیں اور کیوں ان کے خلاف اف تک نہیں کر سکت۔ فنڈلے نے عہدے داروں پر واضح کیا تھا کہ ان کے سارے پیغامات آتے جاتے اسرائیل کے ہیڈ کوراٹر پر امریکی ڈیپارٹمنٹوں سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ ان انکشافات سے امریکہ میں جو تہلکہ مچا تھا اس کا اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے ۔ ۔ پال فنڈلے کی یہ کتاب آج بھی اسی اہمیت کی حامل ہے بلکہ اب اس کی افادیت کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے، ’’اسرائیل اپنی گہری اور ہمہ قت لابی کے ذریعے امریکہ کی آزادی، اظہار رائے اور انسانی حقوق و آزادی، تعلیم و تبلیغ جیسے بنیادی عناصر کی بیخ کنی کر چکا ہے اور اصل امریکن ان لابیوں اور صیہونیوں کے غلام ہیں۔ اس لئے’ پال فنڈلیِ کی اس کتاب کا مطالعہ اسرائیل ۔امریکہ تعلقات کو سمجھنے کے لئے آ ج بھی ناگزیر ہے ،،