رشید پروین ؔ سوپور
’’ہوئے تم دوست جس کے ،دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ‘‘،اس شعر کی عملی تفسیر، کسی امریکی صدر نے اپنی بیو گرافی میں یوں کی ہے کہ امریکی دشمن کسی نہ کسی طرح سے تباہی اور بر بادی سے بچ تو جاتا ہے لیکن امریکی دوست ممالک کسی طرح امریکی ڈنک سے نہیں بچ پاتے ‘‘۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بر صغیر ہند و پاک جس میں ۱۹۷۱ میں وجود پانے والا ایک نیا ملک بنگلہ دیش بھی شامل ہے ، کے شب و روز امن اور شانتی، تعمیر و ترقی کی سمت رواں دواں نظر نہیں آرہے ہیں ۔ لیکن اصل میں روز بہ روز تنزلی کی جانب محو ِ سفر ہیں۔ پاکستان جو شروع ہی سے امریکی دجال کو اپنا کعبہ و قبلہ بنا چکا ہے ، اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور اب صرف کفن دفن کا ہی انتظار ہے۔ بھارت نے بھی جب سے اپنے قبلے کا رخ پھیر دیا ہے،یہاں کی ہوائیں بھی مسموم اور جھلسا دینے والی ہیںاس کی وجہ سادہ الفاظ میں اخلاقی گراوٹ ، انسانی حقوق کی پامالی، فرقہ وارانہ اور لسانی منافرت، معاشرتی ظلم و جبر اور عدلیہ میں ترنت انصاف کا فقدان جیسے اندرونی عناصر ہیں تو بیرونی طور پر امریکی قرضہ جات، آئی ایم ایف کی غلامی اور تمام ممالک پر غلبۂ امریکہ کی پالیسیاں ہیں اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن حضرت علی رضیؓ کا ایک مشہور قول ہے کہ’’ دنیا میں کُفر پر مبنی معاشرے چل سکتے ہیں لیکن عدل و انصاف سے خالی معاشرے کبھی زیادہ دیر نہیں چل سکتے ، ‘‘۔
انسان کی معلوم تاریخ میں ہمیشہ مختصر طور پر دو ہی قوتیں رہی ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور آج بھی یہی کچھ ہمارے نئے معاشروں میں جنہیں جمہوری اور عوامی طاقت کے معاشرے سمجھا جارہا ہے ، میں عملی طور پر نظر آرہے ہیں
’’ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تابہ امروز۔
چراغ مصطفوی ﷺ سے شرار بو لہبی ‘‘۔
چراغ مصطفی ﷺ امن ، شانتی ، عدل و انصاف کا سمبل ہے جب کہ شرار بو لہبی فرعونیت اور فتنہ و فساد یعنی دجالی معاشرے کی پہچان اور خصو صیت ہے۔ کبھی کے مشرقی پاکستان ’بنگلہ دیش‘ میں جس نے ۱۹۷۱میں وجود پایا تھا، آج کل بے دریغ لہو بہایا جارہا ہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ شیخ مجیب کی رہنمائی میں بنگالیوں نے جو اپنے حق کے لئے احتجاج کیا تھا، افواج پاکستان نے اس حق پر مبنی احتجاج کوبھی ظلم وجبر کا بازار گرم کر کے کچل دینا چاہا تھا۔ آخر پاکستان نے یحیٰ خان کی ٖغلطیوں، بیو قوفیوں اور حماقتوں کی وجہ سے یہ حصہ کھو دیا اور اس انقلاب کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کردی تھی ، جو یہاں روا رکھاگیا تھا۔ مجیب الرحمان نے انتخابات جیتے تھے ، اقتدار اس کا حق بنتا تھا ، جس سے فوجی ٹولے نے ’سیا سی بو الہوسوں ‘کے ساتھ مل کر نہ صرف عوام کو محروم کیا بلکہ خون کی وہ ہولی بھی کھیلی جس کی نظیر یہاں موجود نہیں تھی اور جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت بن کر ابھر آیا۔ آج بھی پاکستان میں عوامی سطح پر مقبول ترین اور جس سے عوام نے منڈیڈیٹ دیا اس پارٹی کو اقتدار سے محروم کرکے عوامی وؤٹ کی تحقیر ہورہی ہے، بلکل وہی حالات آج پاکستان میں بنے ہیںجو ۱۹۷۱ میں تھے ، لیکن فوجی ٹولہ کبھی اتنا ذہین، فہیم اور سمجھ دار نہیں ہوتا کہ ماضی سے سبق سیکھے۔
آج بڑی مدت کے بعد بنگلہ دیش میں طلبا اور نوجوانوں نے سر پر کفن باندھ کر حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن اور احتجاج شروع کیا ہے اور یہ احتجاج بلکل درست اورجائز ہے۔ اگر چہ یہ احتجاج بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے کوٹے کے نظام کے خلاف شروع ہوا ہے لیکن اس شدید احتجاج کے پیچھے بھی فرعونی اقدار سے بغاوت ہے جو اپنے ہم وطنوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا عزم اور ارادہ رکھتی ہے۔ الیکشن کی د ھاندلیاں، اپنی مرضی سے وؤٹ کاسٹ کرنے کے حق سے محرومیاں اور اظہار رائے پر قدغنیں ، یہ وہ بنیادی عنصر ہیں جو ہر تحریک کے پیچھے نظر آتے ہیں کیونکہ انسانی فطرت بہت زیادہ دیر تک ریپرشن، قدغنیں اور محرومیاں برداشت نہیں کرتی اور ہر ہمیشہ ہر دور اورہر ہر ملک کی یہی کہانی ہے کہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر عوام سر فروشی کی تمنا کے ساتھ اپنے نظام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں، کیونکہ انسانی فطرت قید و بنداور عدل و انصاف سے تہی دست معاشرے کبھی زیادہ دیر تک قبول نہیں کرتی۔ ابھی یہ احتجاج کا پہلا مر حلہ ہے ، جس سے ا پنے آمرانہ مزاج کے مطابق شیخ حسینہ کی سرکار آہنی پنجوں سے نپٹنے کا عزم کئے ہوئے ہےاور اب تک کی رپورٹ کے مطابق ۲۱۵ سے زیادہ نوجوان اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ بند ہے ، سر کا ری ٹی وی عمارت پر دھاوا بولا جاچکا ہے ،بہت ساری عمارتیں جلائی جاچکی ہیں اور احتجا ج کی بظاہر وجہ صرف یہ ہے کہ سرکاری نوکریوں کا مخصوص ایک تہائی کوٹہ جو ان کے لئے مخصوص ہے جنہوں نے پاکستانی افواج کے خلاف ۱۹۷۱ کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور جنہیں بنگلہ دیش میں ہیروز کا درجہ حاصل ہے، ختم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے کو اندروں ملک سلجھایا بھی جاسکتا ہے اور چونکہ یہ نئی جنریشن کا مطالبہ ہے جو درست بھی ہے کیونکہ اس قانون سے طلبا کے لئے نوکریاں بڑی حد تک محدود ہوجاتی ہیں اور ۷۱ سے اب تک پلوں سے بہت سارا پانی بھی بہہ چکا ہے ، اور اس قانون کی وجہ سے بہت سارے بنگلہ طلبا نوکریوں اور ملازمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اس ایک مسلے کا جس کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے ، اور سارے ملک میں کرفیو نافذہے اور افواج بنگلہ دیش نے عوام پر گولی چلانے سے انکار بھی کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس فتنہ و فساد کے دور میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ شیخ حسینہ کی آنکھوں پر بھی پردے پڑے ہوں، اس کا ذہن بھی ماوف ہو او ر وہ پولیس پر تکیہ کرکے ڈھاکہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر طلبا کی لاشوں کے انبار اور ڈھیر لگادینے کی خواہش مند ہوں! ، لیکن بر داشت اور صبر وسکون کے ساتھ معاملے کی نزاکت کو سمجھ کر معاملہ سلجھانے کی طرف راغب نہیں ہوگی، اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرعونی جذبہ ہے جواقتدار کے نشے میں مست فرعونوں کو صم بکم کرکے ان کے دل و دماغ پر مہریں ثبت کرتا ہے ، جب تک وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔
اب ذرا اس ملک کی افواج کا تھوڑا سا تذکرہ بھی ہوجائے جنہوں نے اپنی فرعونیت اور حماقتوں سے بنگلہ دیش کو جنم دیا اور ایک ملک کے دو پھاڑ کر دئے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں یہ ملک لگ بھگ ۶فیصد کی نمو سے آگے بڑھ رہا تھا ، لیکن وقت کے فرعون قمر جاوید باجوہ نے عوامی منتخب حکومت کا تختہ امریکی اشارے پر فی الفور پلٹ کر اپنے آقاؤں کو خوش کردیا۔ پاکستان کی بر بادی کا یہ سنگ بنیاد تھا جس سے آج کے چیف کمانڈر عاصم منیر آگے بڑھا رہے ہیں اور اب اسکی ڈھٹائی ، مکرو فریب کا یہ عالم ہے کہ سترہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی کو حکومت کا تاج وتخت سونپ کر اکثریتی پارٹی کو ہر ممکن طریقے سے کچلا جارہا ہے اور سب سے زیادہ مقبول لیڈرڈیتھ سیل میں پچھلے ایک برس سے زندگی کے دن کسمپرسی اور شدید عذاب میں گذار رہا ہے، کیونکہ وہ فوجی قوت سے ڈیل نہیں کر رہا اور چور ، اچکوں، بدمعاشوں اور پاکستان سے کھربوں ڈالر بیرون ممالک منتقل کرکے اپنی پراپرٹیاں بنا نے والے ’’ شریفوں اور زر داریوں سے سمجھوتہ نہیں کر رہا ہے‘‘ملک کے سارے کرپٹ ادارے جن پر لوٹ مار کے مقدمے یا تو قائم ہیں یا بنائے جاسکتے ہیں ایک خوف اور دہشت کے عالم میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں اور اس بات پر ان سب ایجنسیوں اور مفاد پرستوں کا اتفاق ہے کہ پاکستان رہے یا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے ہم اقتدار نہیں چھو ڑیں گے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوڑمیں سب سے آگے ملک کی افواج اور وہ ادارے ہیں جو ملک کی طاقت کے سر چشمے سمجھے جاتے ہیں۔ اب اس فوج کے بارے میں بہت سارے حقائق سامنے آرہے ہیں، شروع سے یعنی ، قائد اعظم کی زندگی سے ہی فوجی جرنیلوں نے تمام وزیر اعظموں کا قتل یا بر طرف اپنے آقاؤں یعنی امریکہ کی مرضی پر ہی کیا ہے اور اب بھی وہی تمام قسم کی سملنگ اور دوسرے بڑے بڑے سکینڈلوں کے پیچھے ہیں جن سے کوئی حساب اب تک نہیں لے سکا۔ اب دو ہی طرح کے نتائج جلد یا بدیر سامنے آئیں گے ، یا تو پاکستان میں عوامی انقلاب آئے گا جس میں سڑکوں پر لہو کے دریا رواں نظر آئیں گے یا یہ ملک تقسیم در تقسیم ہوکر ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ شریف خاندان جو اس وقت فوج ، پولیس اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے نظر کرم سے اقتدار پر ہے ، حالیہ انتخابات میں اپنی ساری سیٹیں ہار چکے ہیں اور فارم ۴۷ پر حکومتی اداروں میں ہے۔ اس کے باوجود کہ عمران کا بلہ چھینا گیا ، پارٹی پر کریک ڈاون جاری تھا ، چادر اور چار دیوار ی کی حرمت پامال
(بقیہ صفحہ15پر)
کی گئی ، ایک ایک برس سے زیادہ پی ٹی آئی کی خواتین امیدواروں کو قید کرکے بد ترین حالات میں رکھا گیا۔ انٹر نیشنل پریس اور دنیا کے بڑے بڑے چینل لرزہ خیز انکشافات اور داستانیں سنا رہے ہیں ، کئی صحافی شہید کئے گئے اور ہزاروں کارکن جیلوں میں سڑ رہے ہیں ، اس کے پیچھے صرف امریکہ کی خواہش ہے جس کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ افسوس کہ خوئے غلامی اقوام کو کس قدر پستیوں میں گرا کر اُن سے زندگی کا اصل جوہر خود داری چھین لیتی ہے ، محاسبے کا ڈر اور خوف انہیں راتوں کو ڈراکیولا بن کر ڈرا رہا ہے ، جس کا نتیجہ یہ کہ شاید قتلِ عمران ، اور ایک بڑے قتل عام کے سوا انہیں کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دے رہا اور یہی وہ مقام ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ فرعونوں کے قلوب پر مہر ثبت ہو جاتی ہے جو انہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہے۔ اس پسِ منظر میں یہ جملہ بھی بلکل واضح اور درست ثابت ہوجاتا ہے کہ ’’ امریکی دشمن کسی نہ کسی طرح سے بچ جاتے ہیں لیکن امریکی دوست کسی طرح امریکی ڈنک سے نہیں بچتے۔ ایران ، عراق ، شام اور دوسرے ممالک امریکی دوست رہے ہیں جن کی اب تک اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے اور ان میں پاکستان بھی ایک ملک ہے جس نے امریکیوں کی خاطر افغان جنگ بھی لڑی ، لیکن آقا کبھی غلام سے ، کسی بھی حالت میں خوش نہیں رہتا، اس لئے تباہی اور بر بادی ہی اس ملک کا بھی مقدر لکھ دیا گیا ہے اور یہ ان ممالک کے لئے تایانہ عبرت ہیں جو امریکہ کو اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔