حصہ دوم
شیخ کی شادی صدرہ سے ہوجاتی ہے اور زمانے کے ولی اللہ ہی ان کی نکاح خوانی بھی کرتے ہیں اور انہیں دعا بھی دیتے ہیں ، سلر یعنی سالار الدین کھی جوگی پورہ ہی میں اپنے والد ہی کا کام یعنی چوکیداری کرتے تھے اسی دوران ایک رات وہ اُتن پنڈت کے گھر کے سامنے تھے کہ اچانک ہی ان کے کانوں سے اتن پنڈت کی آواز ٹکرائی جو اپنی بیوی فکرہ بٹنی سے کہہ رہا تھا کہ کل شبھ ساعت ہے اور اپنے گاو¿ں کے چشمے (شاردھا چشمہ ) میں پچھلے پہر دو گلدستے ظاہر ہوں ایک یاسمن کا اور دوسرا اڈہر کا ، تم یاسمن کے گلدستے کو سونگھنا، بھگوان کی کرپا سے اولا د نرینہ ہوگی ، ظاہر ہے کہ اتن پنڈت اپنے زمانے کے گورو اور اپنی مذہب کتب پر کافی دسترس رکھتے ہوں گے اسی لئے چشمے کی نشاندہی کے ساتھ ہی گلدستوں کی پہچان بھی پہلے ہی اپنی بیوی کو بتا پائے ہوں گے ، یہ بات سالارالدین ۔ شیخ نورالدین کے والد نے سنی تو فوراً ہی اپنی بیوی صدرہ کے پاس آئے اور سارا ماجرا تفصیل کے ساتھ بتا کر اس سے پچھلے پہر چشمے پر جانے کے لئے آمادہ کیا صدرہ موج پچھلے پہر چشمے پر پہنچی، فکرہ بٹنی بھی اپنے گھر سے اپنے اندازے کے وقت نکلی لیکن نصیب میں یہی تھا کہ وہ کچھ دیر بعد پہنچے ، گلدستے ظاہر ہوئے اور صدرہ نے یاسمن کے گلدستے کو سونگھ لیا ، گلدستہ سونگھتے ہی صدرہ ماجی اتنی بھاری ہوئی کہ اس نے ہاتھ ایک پتھر پر ٹکا دیا تو اس پر ہاتھ کا نشا ن بن گیا اور آج تک یہ پتھر موجود ہے اور اس پر ہاتھ کے نشانات بھی ہیں، یہ روایت اسی طرح تاریخوں میں موجود ہے، اس کے بعد فکرہ بٹنی بھی چشمے پر پہنچی لیکن اس کے نصیب میں اڈہر کا گلدستہ ہی تھا، اس سے سونگھا، دونوں کے بیٹے ہوئے، صدرہ ماجی کے ہاں نند اوور فکرہ بٹنی کے ہاں ”بمہ ساد “جو بعد میں مسلماں ہوکر بابا بام الدین کے نام سے مشہور ہوا۔
شیخ کی ولادت کے بارے میں کئی اور روایات بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ صدرہ ماجی کے چشمے پر پہنچنے سے پہلے ہی حضرت سید سمنانی ؒ، یاسمن ریشی، اور لل عارفہ وہاں موجود تھیں ،گلدستہ ظاہر ہوا تو پہلے اس سے سید سمنانی ؒ نے بوسہ دیا اور اس کے بعد یاسمن ریشی اور پھر لل دید اوریہ بھی تاریخوں میں درج ہے کہ جب صدرہ وہاں پہنچی تو لل دید نے صدرہ سے نام پوچھا اور پھر کہا کہ ہاں لعل و جواہر تو صرف سمندر میں رکھے جاسکتے ہیں، ( صد ر کا معنی ہی سمندر ہے) سید حسینؒ سمنانی نے نو مہینے کی دیکھ بھال بھی لل دید کو سونپی تھی جس کے بارے میں یہ درج ہے کہ وہ مسلسل صدرہ کی خبر گیری کے لئے اکثر آجایا کرتی تھی، نو ماہ کے بعدنو ر الدینؒ پیدا ہوئے تو پہلے اپنی ماں سے دودھ نہیں پیا ۔کئی جتن کرنے کے باوجود بچہ اپنی ماں کا دودھ نہیں پی رہا تھا، یہ بات مشہور بھی ہوئی اور اسی اثنا میں تین دن کے بعد لل عارفہ گھر میں وارد ہوئی، ماجرا سنایا گیا تو مسکرا کر نند سے مخاطب ہوئی، اے نند جب جنم لینے میں شرم نہیں آئی تو دودھ پینے میں کیا شرم، لے دودھ پی،اور اس طرح لل دید نے خود پہلی بار نند کواپنا دودھ پلایا اور تاریخوں میں درج ہے کہ نند نے اتناسارا دودھ پیا کہ لل نے کہا ” نند توہی سارا دودھ پی لے گا کہ میرے لئے بھی کچھ باقی رکھے گا۔ وقت کی عارفہ سے د ودھ پینا۔اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے حق یہی ہے کہ نند نے جنم لیتے ہی پہلے لل سے معرفت نوش کی تھی۔
حالات اور واقعات صریحاً اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ ما در زاد ولی تھے ، کشمیر میں ریشیت کے سر خیل تھے اور ان کی ذات با برکت نے ہی ریشیت کو اسلامی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ ماضی کی ریشیت کی کچھ بنیادیں اور تاثرات اگرچہ محفوظ رہیں لیکن ریشیت کا نیا ڈھانچہ اسلامی اقدار اور تصورات پر استوار ہوا ، صدرہ ماجی نے شیخ کو دستور کے مطابق حصول تعلیم کے لئے استاد کے پاس لیا،انہوں نے الف پڑھایا ۔ اور جب استاد نے ”با “ کہا تو شیخ چپ رہے، بار بار تکرار کے باوجود خاموش رہے اور آخر اپنے استاد سے کہا کہ پہلے الف کے معنی فرمائے ، ، استاد کیا کرے ، چھوٹا سا بچہ یہ سوال کرے تو حیران ہی ہوا ہوگا ، ، ”آگے پڑھ یہ تیرے سمجھنے کی باتیں ابھی نہیں “ تو شیخ کہنے لگے ، ”الف کے معنی اللہ جو ازل سے لا شریک، کبھی اس ذات بے ہمتا کو زوال نہیں ،” ب‘ محمدالرسولاللہ ﷺ، جو قیامت کے روز امت کے شافعی ہوں گے “ کہتے ہیں کہ یہ مکالمہ نند کی والدہ صدرہ بھی سن رہی تھی ، استاد نے فوراً صدرہ سے کہا کہ اس بچے کے لئے وہ مناسب استاد نہیں ،، اب ماں نے نند کو ایک جولا ہے کے پاس لایا، جو لاہے کے پاس جب پہنچے تو سب سے پہلے نند نے آلات بافندگی پر غور شروع کیا ، اور ان کے بارے میں استاد سے سوال کیا ، یہ آلات کیا ہیں ؟ یہ کیا کہتے ہیں ؟ ”اوت “کیا کہتا ہے ، ”موت“سے کیا سبق ملتا ہے؟ ” یہ کٹھراویں “ کیاسبق دیتی ہے ، ان سوالوں کا جواب بے چارہ جولاہا کیا دیتا اسکے لئے تو یہ بس آلات ہنر ہی تھے اور کچھ نہیں، بچے کی طرف حیرانگی سے تکتا رہا تو شیخ بول پڑا ، ”اوت “ کہتا ہے دکانداری ۔ ” موک “ کہتا ہے چند روزہ دنیا پر تکیہ نہ کر ۔ اور کٹھراو¿ں کہ قبر میں جاناہے ، لیکن ماں باپ مجھے ہنر سیکھنے بھیج رہے ہیں، اس کے بعد شیخ نے پوچھا یہ ”ماکو “ادھر سے ادھر جاتا ہے کیا معنی رکھتا ہے ، ، ”ماکو‘ تانا بانا کے تار ادھر سے ادھر لے جاتا ہے ، استاد نے جواب دیا، شیخ نے کہا نہیں ”ماکو“آدمی کی طرح رزق کی تلاش میں گردش کرتا ہے اور جہاں تار ختم ہوا وہاں اس کی زندگی بھی ختم،، جولاہا پریشان ہوا اور صدرہ سے کہا اس بچے کا بافندگی سے کیاسروکار ، اس کے بعد کہتے ہیں کہ شیخ کو ماں نے اپنے سوتیلے بھائیوں کے پاس بھیجا جن کا کام چوری تھا ،، لیکن یہ کسی بھی طرح درست اور صحیح نہیں لگتا کیونکہ جتنے بھی اولیا اور مادر زاد ولی ہوئے ہیں اللہ نے بچپن سے ان کی خاص طرح سے نگہداشت اور پاسبانی کی ہے کیونکہ یہ لوگ عام آدمی نہیں ہوتے اس لئے یہ کہیں سے غلط روایت کے طور پر سینہ بہ سینہ بات چلی ہے۔
۳۱ سال کی عمر میں والد سالار الدین کا انتقال ہوا ، والدہ کی پوری تمنا تھی کہ ان کی شادی ہوجائے اور دوسری وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ اس بندھن میں بندھ کر شاید وہ گھر بسانے کے لئے روٹی روزی کمانے کی بھی فکر کرے ، ان کی شادی (زے دید سے ہوتی ہے جو ڈادہ سر کے اکبر الدین کی بیٹی تھی) اکبر الدین کامقبرہ آج بھی ڈاڈہ سر میں عقیدت مندوں کے لئے راحت اور سکون بخش ہے ،، زے دید کے بطن سے ایک بیٹی زون دید اور ایک بیٹا حیدر پیدا ہوا ، یہ دونوں بچے شادی کے چھ سال کے اندر پیدا ہوئے، اس طرح نورالدین، صاحب عیال بھی ہوئے لیکن دنیا کی طرف کسی طرح راغب نہیں ہوئے ، شیخ العالم نے موضع کیموہ کھڈونی کے قریب ”نشہار ٹینگ“ نامی جگہ پر ایک غار کھودی اور غار نشین ہوئے ، غار نشینی ریشی منیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں رہی ہے بلکہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اکثر و بیشتر ولی اللہ ان ہی گپھاو¿ں میں جام عرفان اور معرفت سے ہمکنار ہوئے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ سن کر ماں اور بیوی زبردست پریشان ہوئی ہوں گی، بڑی منت سماجت کے بعد بھی شیخ واپس گھر آنے پر آمادہ نہیں ہوئے، اس موقعے کا بڑا عارفانہ مکالمہ جو ماں،بیٹے اور بیوی کے درمیان ہوا وہ شیخ کے کلام میں موجود ہے ، آخر ہر طرح سے ناکام ہوکر ساس بہو نے بچوں کو غار کے دہانے پر رکھ کر آخری تیر آزمایا، شیخ نے بچوں پر اپنا خرقہ ڈالا ، اللہ سے دعا کی اور صبح سویرے یہ دونوں بچے اللہ کو پیارے ہوچکے تھے ۔
حضرت نے ساری زندگی تپسیا اور عبادات میں گذاری ، غار نشین بھی ہوئے لیکن غار نشینی کو اسلامی شعائر کے ساتھ منطبق نہیں پایا اس لئے خود ہی بابا نصر سے فرمایا کہ یہ بڑی ”بدنامی “تھی۔ شیخ کا زمانہ حیات ۸۷۳۱ سے ۱۴۴۱ءمانا جاتا ہے ،آپ نے کشمیر سے باہر شاید کوئی سفر نہیں کیا ، لیکن کشمیر کا شاید ہی کوئی گاو¿ں ہو جہاں آپ تبلیغ دین کی خاطر نہیں پہنچے ہیں ، چرار شریف کے شمال و مغرب میں ایک آدھ میل کے فاصلے پر روپہ ون ہے شیخ نے یہاں اپنی زندگی کے سات سال گذار ے،شیخ کی کرامات بے شمار تاریخوں میں درج ہیں، آپ کے ساتھ آپ کے جھنڈے تلے ہزاروں ریشی آپ کی تربیت سے مستفید ہوتے رہے لیکن ا ن میں خلفا چار ہی ہیں جن کے بارے میں آپ خود اشارہ کرتے ہیں ، (بمہ نصر تہ بابا زینو ،لطیف رنبہ ونو چھس )( حضور ﷺ کے بھی چار ہی یار باصفا تھے جو چاروں خلیفہ ہوئے ) بابا بام الدین ، بابا نصرالدین ،بابا زین الدین ،بابا لطیف الدین ،یہ چاروں علم و عرفان کے پیکر ہیں ) ان کے بارے میں شیخ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ نے انہیں مجھے عطا کیا تھا ، یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں “۔
بابا بام الدین: اسکی والدہ وہی ”فکرہ بٹنی“ تھی جس نے شاردھا چشمے سے اڑہر کا گلدستہ سونگھا تھا ،،اور نام بمہ ساد تھا ، (ساد ) کے معنی ہی سادھو سنت اور درویش کے ہوتے ہیں ۔ ، مورخ لکھتے ہیں کہ بمہ سا د کے مندر میں 360 مورتیاں تھیں ۔360مورتیاں خانہ کعبہ میں بھی اسلام سے پہلے موجود تھیں جن کی مشرک پوجا کرتے تھے۔ بمہ ساد کے کمالات کا یہ عالم تھا کہ رات کے پچھلے پہر ہی طئے مکان کرکے کشمیر کے پانچ بڑے تیرتھوں سے اشنان کر کے پو پھٹنے سے پہلے واپس اپنی گپھا میں پہنچ جاتے تھے ، شیخ نے انہیں مسلمان کرنے کا تہیہ کیا، پوری تفصیلات تاریخوں میں ہے ، مختصر یہ کہ دونوں کے درمیان مکالمہ بھی ہوا اور ایک دوسرے نے اپنے کمالات اور روحانی قوتوں کا مظاہرہ بھی کیا جس میں بمہ سادھ کمزور پڑ گئے ، حق پہچانا اور مسلمان ہوئے ،نام بابا بام الدین ہوا ۔
علمدار کے دوسرے خلیفہ حضرت زین الدین ؒ تھے ،جن کا اصل نام زینہ سنگھ ا ور باندر کشتواڈ کے رہنے والے تھے ۔
علمدار کے تیسرے خلیفہ شیخ بابا لطیف الدین تھے ، ان کا اصل نام آدتیہ رینہ تھا ۔
علمدار کے چوتھے خلیفہ بابا نصرالدین تھے اصل نام وُتر تھا۔
چرار شریف میں شمس العارفین شیخ نورالدینؒ کسی خاص مدت تک نہیں رہے ہیں، البتہ باغیچہ سنگرام ڈارنا می میں آیا کرتے تھے ، وہ آخری سفر پر روپہ ون ہی میں روانہ ہوئے ، ، آخری ساعتوں میں بابا نصر سامنے تھے ، نصر نے نے پوچھا حضرت کس چیز کی آرزو ہے ، فرمایا ”حق “۔نصر نے پوچھا ، آپ کے سامنے کون حاضر ہے ؟ فرمایا’ حق‘ کس سے باتیں کر رہے ہیں ؟ فرمایا” حق “عرض کیا کوئی شربت پئیں گے ؟فرمایا ساری عمر نہیں پیا تو اب کیا پینا ؟پانی کا ایک گھونٹ پیا، ” حق“ کہا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ روایت ہے کہ شیخ کا تابوت تین دن تک ہوا میں اڈ کر اس جگہ اترا جہاں آپ کا مرقد پاک ہے یعنی چرار شریف ، جو عاشقان اور عقیدت مندوں کے لئے نور و سرور کی آماجگاہ ہے،لل دید کے بعد ہمیں کلام شیخ ہی منظوم ملتا ہے جس سے کشمیری شاعری کی ابتدا اور منظوم قرآن حکیم کی تفسیر بھی سمجھا جاتا ہے۔
نشانِ مرد ِ مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست