ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
2000ءکی بات ہے کہ مجھے صحافتی تجربے کی کچھ ضرورت تھی۔ حالانکہ میڈیا اورتھیٹر فلم وغیرہ کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا۔ پھر آگے اس شعبے سے اس لئے پیشہ وارانہ طور پر نہیں جڑ سکا، کیونکہ کشمیر کے حالات کے پیش نظر اس میں روزگار کا مستقبل مجھے غیر محفوظ نظر آنے لگا۔ مگر آج بھی اپنے شوق کو آزاد صحافی کے طور پر پورا کر ہی لیتا ہوں۔
خیر میں بات کررہا تھا کہ مجھے کسی اخبار سے جڑنے کی مجبوری تھی تو میں نے اپنے ایک رشتہ دار فیاض کابلی (وہ اس وقت روئٹرز لندن کے ساتھ بطور فوٹو گرافر کام کر رہے تھے) سے اپنے مسئلے کے بارے میں بات کی، تو انہوں نے یکلخت بولا: ”صرف آپ کا پڑوسی اس معاملے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے اورو ہی ایک شخص ہے ہمارے پیشے میں جوکہ ہر کسی کے لئے helpful ہیں ان کا نام گلزار صاحب ہے اور بڈگام میں ہی کہیں رہتے ہیں۔©
اس طرح ایک روز وہ مجھے روزنامہ سرینگر نیوز کے آفس واقع لالچوک لے گئے اور میری پہلی ملاقات گلزار صاحب سے ہوگئی۔ میرے مضامین ’سرینگر نیوز‘ میں چھپنے لگے۔ مجھے اپنے ریسرچ کے ساتھ ساتھ جب بھی کچھ وقت ملتا تھا، تو میں ان کے پاس جاکر صحافت کے مختلف گن سیکھنے لگا اور یہ سلسلہ پھر بہت برسوں تک جاری رہا۔ پھر ہمارے اپنے اپنے مسائل زندگی پیدا ہوئے اور کل تک گلزار صاحب بھی اس ناقص زندگی کی گاڑی کو کھینچتے رہے۔!
گلزار صاحب کا جنم 1957 ءمیں بڈگام ضلع صدر مقام سے کوئی آٹھ کلو میٹر دوری پر واقع شولی پورہ نامی گاو¿ں میں ہوا، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کر لی اور اس کے بعد پاس ہی وترہیل گاو¿ں میں اسکنڈری کی تعلیم حاصل کرلی۔
ان کا خاندانی نام غلام محمد بٹ تھا اور ان کے والد کا نام غلام محی الدین بٹ تھا۔ پہلے وہ Flood Control محکمے میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے لیکن صحافت کی چنگاری ان کے من میں اس قدر بھڑکی کہ انہوں نے 1985 ءمیں اس نوکری کو خیرباد کہہ کر روزنامہ سرینگر نیوز سے مستقل طور پر اپنی وابستگی اختیار کرلی اور پھر کشمیر میں نامساعد حالات کے باوجود بھی وہ اسی پیشے میں ایک جانباز سپاہی کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
کشمیر میں صحافت کی صورتحال اور اپنی کچھ مجبوریوں کے سبب گلزار صاحب کچھ وقت کے لئے ’عقاب‘ اور ایک مقامی انگریزی روزنامہ سے بھی منسلک رہے لیکن ان کی خدمات کو ’سرینگر نیوز‘ میں ہی یاد کیا جا سکتا ہے۔
گلزار صاحب نہایت ہی شریف النفس، باکردار، متین، حساس اور کم گو شخص تھے۔ اسی سنجیدگی میں 2017 ءمیں انہیں دل کا دورہ پڑ گیا اور اس کے بعد وہ اپنے آپ کو پوری طرح سے نہیں سنبھال پائے۔ اپنی بیماری میں زیادہ تر گھر سے ہی آن لائن صحافتی کام کرتے تھے۔ ادھر ہمارے یہاں صحافت کا یہ حال ہے کہ آج کے دور میں ہمارا پیشہ ور کل وقتی صحافی مشکل سے ہی اپنے گھر کا چولہ جلا سکتا ہے۔ ٹھیک یہی حال گلزار صاحب کا بھی رہا، جس کی وجہ سے وہ اپنے پانچ بچوں کے لئے کوئی پونجی جمع کرنا تو دور کی بات، ٹھیک طرح سے ان کی پرورش بھی نہیں کرپائے! اپنے دل میں یہی کسک لئے ہوئے 18مئی 2021 ءکو گلزار صاحب اپنے ہی گھر میں بڑی کسمپرسی کی حالت میں اس دارالجہاں فانی سے کوچ کر گئے۔
جموں و کشمیر میں اُردو صحافت کو گلزار صاحب کی وفات سے بہت بڑا نقصان ہوا اور ان کی خدمات کو مختلف صورتوں میں سراہا جا سکتا ہے کیونکہ آج کے دور میں ان کے جیسے ایماندار اور خلوص والے لوگ بہت کم ہمیں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جس طرح وقت ِضرورت پر گلزار صاحب نے میرے لئے اپنے دل کے دروازے کھول رکھے تھے، شاید ہی کسی نام نہاد استاد یا پروفیسر نے اس خلوص سے میرے لئے کچھ کیا ہوگا۔ اس لئے ان کا احسان ہم پر ناقابل فراموش ہے۔!