ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری
Go to law for a sheep and lose your cow. (German Proverb)
دو سال قبل میں نے باہر کے ایک بہت بڑے شہر کے ایک اچھے خاصے ادیب پر ایک آرٹیکل لکھا اور چند دن پہلے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بات کا پتہ کیا جائے کہ انہوں نے پھر میرے اُس آرٹیکل کو کتاب میں شامل کیا کہ نہیں، اس لئے انہیں فون کیا۔ وہ کچھ یوں فریاد کرنے لگے:
”میں بہت بڑی مصیبت میں ہوں۔ میں نے دو شادیاں کرلی تھیں اور میری دونوں بیویوں سے پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اولاد نرینہ سے محروم رہا۔ دونوں بیویوں کو الگ الگ دو گھر بناکے دیئے اور بیٹیوں کی شادی بھی کروائی۔ اس وقت میرے ساتھ کوئی نہیں رہتا ہے۔ میں اکیلے اپنے باپ (یعنی تیسرے مکان میں) کے مکان میں رہتاہوں۔ ہوٹل سے کھانا کھاتا ہوں۔ کوئی میرے پاس آتا بھی نہیں۔! البتہ میرے بھانجوں، بھتیجوں اور میرے داماد وں نے مجھے مختلف جھگڑوں اور مقدمات میں اُلجھاکے رکھا ہے۔ ہر کوئی میرے پشتنی مکان اور میرے پینشن پر اپنے حقوق جتلاتا ہے۔ میں کروں تو کیا کروں۔ اب خود کشی کا سوچتا ہوں۔“
چونکہ نہ میں کوئی مولوی،مفتی ہوں اور نہ قانون کے داو¿ پیچ جانتا ہوں پھر بھی اس بزرگ ادیب کو یوں سمجھانے لگا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کی دو بیویاں، پانچ لڑکیاں، پانچ داماد اور بھانجے بھتیجے سب کے سب غلط نہیںہو سکتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنا محاسبہ کیا ہے۔ اب جہاں تک کہ آپ کی بچی کھچی پراپرٹی پر ان تمام فریقین کا دعویٰ ہے، یہاں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہے۔ اس سارے مخمصے کا پہلا علاج یہ ہے کہ آپ کم از کم کسی ایک کو اپنالو اور جو زندگی آپ کی باقی ہے، اس کے ساتھ گزارو، بقیہ لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلو۔ اب دوسرا علاج یہ ہے کہ آپ کے پاس جو بھی پونجھی بچی ہوئی ہے، اس کو اور اپنے آپ کو کسی معتبر ٹرسٹ کے حوالے کرلو۔ وہ لوگ آپ کی خدمت ان ایام میں کرسکتے ہیں اور مقدمہ وغیرہ کا توڑ بھی ٹرسٹ والے خود کر سکتے ہیں۔ مجھے لگا انہیں میری یہ باتیں ہضم نہیں ہوئی۔ ان کی یہ ناگفتہ بہہ حالت کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس موضوع پر کشمیر کے حوالے سے کچھ بات کی جائے۔
فتنے فساد اس زمین پر حضرت آدمؑ کے زمانے سے چلے آرہے ہیں لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ کس سوسائٹی کے لوگ کتنے عقل مند ہیں کہ وہ ان کو کیسے نمٹائیں گے۔ اب جہاں تک کہ ہماری کشمیری سوسائٹی کا تعلق ہے، ماضی میں کیا ہوا، بقول مرحوم مولانا وحید الدین خا ن ” ہمیں ماضی سے سبق حاصل کر لینا چاہئے“۔ میرے نزدیک سبق ہی نہیں، بلکہ کہیں کہیں عبرت بھی ہونا چاہئے ۔ ہمارا خواب ہے کہ آج سے ہمارے کشمیر کا ہر محلہ اور ہر قریہ جرائم سے آزاد ہو۔ ہمارا یہ خواب کب اور کیسے پورا ہوگا، اس کے لئے ہمیں اپنی چند روایتوں اور نظریات کو پہلے بدلنا ہوگا، اس کے بعد سوسائٹی کے چند اہم افراد اس ضمن میں اچھا خاصا رول ادا کر سکتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں پاکستان کے ایک گاو¿ں کا ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا، جہاں کوئی جرم نہیں ہوتا ہے، جہاں کوئی سگریٹ نہ بیجتا ہے اور نہ پیتا ہے، جہاں کوئی بچہ مزدوری نہیں کرتا ہے، جہاں کے سبھی مسئلے گاو¿ں کی برادری امام صاحب کی نگرانی میں حل کرتے ہیں!
اس کے برعکس یہاں کے سیاسی مسئلے اپنی جگہ جو کہ بڈشاہ کے بعد کبھی حل نہیں ہوئے اور نہ ان کے حل ہونے کے امکانات ہمیں نظر آجاتے ہیں، اس لئے ہم یہاں سماجی مسئلوں اور ان کے حل کے بارے میں ہی سوچیں گے۔ یہاں گھر گھر میں ساس بہو، بھائی بہن، باپ بیٹے اور ہمسایوں کے آپس میں مختلف معاملات پر لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ چوری، ڈکیٹی، قتل و غارت، ریپ، کاروباری تنازعے، پراپرٹی کے تنازعے وغیرہ وغیرہ بھی ہوتے ہیں، تو یہ مسئلے جہاں بھی پیدا ہوتے ہیں ہمارے بھائی بہن تھانے اور پھر کورٹ میں برسوں تک پستے رہتے ہیں۔ مجھے یہاں تفصیل میں بات نہیں کرنی ہے، اس لئے میں مختصر الفاظ میںیہ کہوں گا کہ تھانے میں آپ کی بے عزتی، مارپیٹ ہوتی ہے اور آپ کا جیب وہاں خالی کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کورٹ ایک عجیب معاملہ ہوتا ہے۔ جج اور وہاں کے سبھی لوگوں کو اس بات کا پتہ ہوتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کی تہہ تک ہم نہیں پہنچ پائیں گے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کسی خاص معاملے کے بارے میں اس سے متعلق لوگ ہی ٹھیک جانتے ہیں۔ مثلاً زمین کے بارے میں آس پڑوس کے زمین والے ہی جانتے ہیں۔
گھریلو مسئلہ ۔ اس کے بارے میں میاں بیوی کو ہی اصل بات معلوم ہوتی ہے کہ جھگڑے کی وجہ کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے گھر والے اور دیگر رشتہ دار – ٹھیک یہی حالت کاروباری اور دیگر معاملات کی بھی ہے۔
ان بنیادی وجوہات کے پیش نظر کوئی بھی جج صاحب آپ کے کیس کا یکدم کوئی حتمی فیصلہ نہیں لے لیتا ہے، اس لئے وہ تاریخ پہ تاریخ رکھتا ہے۔ اس سے انہیں کیا کچھ ملتا ہے۔ ایک تو فریقین خود تنگ آجاتے ہیں اور ایک دن وہ اس معاملے کا تصفیہ کرنے کے لئے راضی ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات وکیل، ان کے ایجنٹوں اور دیگر لوگوں کا کاروبار ہماری نا سمجھی کی وجہ سے خوب چلتا ہے۔
پولیس کا کام ہے کہ سرکاری املاک کی حفاظت، امن و قانون پر نظر رکھنا اور بڑے بڑے لوگوں کے دائیں بائیں گھومنا ۔کورٹ کا کام ہے اگر آپ کا کوئی سرکاری معاملہ ہے تو اس میں آپ کورٹ کی مدد لے سکتے ہیں۔ یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم نے پولیس اور کورٹ کو اتنا سر پر چڑھا کے رکھا ہے کہ یہ لوگ ہمارے اندرون سے واقف ہو جاتے ہیں اور ہم سے سرکاری نوکر ہونے کے باوجود بھی دو دو ہاتھوں لوٹتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کو balance میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے پہلی کوشش ہماری یہ رہنی چاہئے کہ ہم سے کوئی بھی کرائم یا فتنہ فساد نہ ہو۔ اب اگر کہیں دو فریقین کے درمیان کوئی اختلاف یا نفاق پیدا ہوا ہے، تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے اندر برسوں سے چند خود غرض عناصر نے مسلکی، جماعتی، گروہی، ذات پات۔۔۔ وغیرہ وغیرہ کا جو زہر بویا ہے اس کو جڑوں سے اُکھاڑا جائے تاکہ یہ زمین پھر پھل دار پودوں اور پیڑوں کے اُگانے کے لئے ہموارہو جائے۔ اس کے بعد ہر محلے میں ایک ایماندار کمیٹی بنائی جائے۔ جو ان معاملات کو سُلجھانے کی ہمیشہ مثبت کوشش کرے ۔ اس کے بعد علاقائی سطح پر بڑی بڑی سوسائٹیاں قائم ہوں جہاں مولویوں اور مفتیوں کا بھی section ہو۔ ان سوسائیٹیوں یا کمیٹیوں میں مختلف طبقوں کے لوگوں کی شمولیت ہو۔ اور یہ سبھی کچھ رضائے الٰہی کے لئے ہو، نہ کہ یہاں روزگار یا روپیوں کا کوئی عمل دخل ہو۔ کوشش یہ رہے کہ یہاں وہی لوگ کام کریں جو باروزگار اور ریٹائر سرکاری ملازم ہوں۔ خاندانی راج، ذات پات وغیرہ کا یہاں کوئی نام بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ عورتوں کی بھی شمولیت اس میں ناگزیر ہے۔
یہاں سرکارکی کوئی عمل دخل ممکن ہی نہیں ہو سکتی ہے البتہ سرکار سے اس کی رجسٹریشن لینا ضروری ہے ۔ جب مسئلہ یہیں پر ختم ہو جائے ، تو سرکار کے پاس جانے کی کس کو ضروت پڑجائے گی۔
اس کے علاوہ کسی بڑے مفتی وغیرہ کی بھی آج کل کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ آج کل ہر کوئی با شعور اور پڑھا لکھا ہے۔ آپ کے محلے میں ضرور کوئی حافظ، کوئی مفتی۔۔ وغیرہ ہوگا۔ ویسے ماضی میں کیا کیا ہوا اس کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھئے۔ ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ”مرغی کا انڈادے دو اور فتویٰ لے لو“ اسی طرح میرے ایک دوست ایڈوکیٹ نے مجھے ایک بار بتایا کہ ایک روز ہمارے کورٹ میں ایک ایسا معاملہ پیش آیا کہ کسی مفتی صاحب نے دونوں فریقین کے حق میں تحریری فیصلہ دے دیا تھا اور دونوں نے کورٹ میں فتویٰ پیش کرکے اپنا اپنا دعویٰ مستحکم کرنا چاہا۔ جج نے اس کی verfication کے لئے مجھے اس مفتی صاحب کے پاس بھیج دیا۔ میں ان کے پاس گیا، تو یہ بات ثابت ہوئی کہ مفتی نے روپیہ لے کر الگ الگ دونوں فریقین کو صحیح قرار دے دیا تھا۔!
آج کا زمانہ وہ نہیں رہا۔ اس لئے ہمارے سماج کو اب نئی ڈگر پر چلنے کی ضرورت ہے۔ جہاں وہ ایک صاف اور پاک زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے لئے میری پہلی گذارش کشمیر کے ان علماءاور واعظ حضرات سے ہے جن کا اچھا خاصا اثر یہاں کے عوام پر رہتا ہے۔اگر یہ لوگ عوامی اجتماعات میں لوگوں کو فتنہ فساد، جھگڑے وغیرہ نہ کرنے کی تلقین کریں گے اور پولیس ، کورٹ کے بدلے میں مختلف کمیٹیوں اور سوسائٹیوں میں انہیں اپنے اپنے مسائل کو حل کرانے کے لئے تاکید کریں گے۔ تو وہ دن دُور نہیں ہوگا، جب ہمارا کشمیر ایک آئیڈیل سماج کی مثال بن جائے گا۔