324

کشمیر نشین مینسٹریم پار ٹیاں۔ الائنس کے بعد

رشید پروین سوپور

(نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے )


یہ اتحاد ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۰ ءکو عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے صدر فاروق عبداللہ مقرر ہوئے تھے ،تین بڑی اکائیوں ۔ این سی ۔ پیپلز کانفرنس اور پی ڈی پی کے علاوہ اس میں اور بھی کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں تھیں۔ یہ اتحاد بھی ایک سیاسی مجبوری تھی اور اس اتحاد سے عوام کی کوئی زیادہ امیدیں پہلے ہی سے وابستہ نہیں تھیں اور نہ اس اتحاد کو عوام نے پرندے کی طرح اپنا آشیاں ہی سمجھا تھا، اس کی وجوہات عام فہم آدمی کی سمجھ سے بھی باہر نہیں کیونکہ یہ سیاسی اتحاد ان تمام چہروں اور آزمائے ہوئے لوگوں کا ملن تھا جو اقتدار ی سیاست کے سوا اپنی ساری زندگی میں اس سے آگے نہ سوچ سکے ہیں اور نہ ان کی بصیرت ہی اقتدار سے آگے کبھی مستقبل کو دیکھ اور سمجھ سکی ہے ۔
مجھے لگتا ہے کہ جو چیز ٹوٹنے کے لئے بنی ہی ہو اس پر کسی قسم کا افسوس نہیں ہونا چاہئے ، یہ ساری مینسٹریم پارٹیاں اس ہدف پر نہیں ٹک سکیں جس کے لئے اس کا بہ ظاہر جنم ہوا تھا ، انہوں نے سٹیٹ ہڈ کی بات کی ، ۳۷۰ اور ۳۵اے کی بات کی،کشمیر کے مفادات اور تحفظات کی بات کی لیکن ان ہی کالموں میں اسوقت بھی ہم نے واضح کیا تھا کہ یہ اقتداری سیاست کے سوا اور کوئی سیاست نہیں جانتے اور نہ ہی ان کی نظروں میں کوئی اور منزل یا ہدف ہوسکتا ہے، اب آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشمیر نشین پارٹیاں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر چکی ہیں اور اقدار کی چاہت میں مرکزی سیاسی گلیوں میں مجنونوں کی طرح الل ٹپ اپنی وفاداریاں ذو معنی جملوں سے جتارہی ہیں۔
بی جے پی نے ۱۵گست سے ہی کشمیر سے متعلق ایک واضح موقف اختیار کئے رکھا ،کہ ۳۷۰ کو اب ماضی کے اندھیروں ہی میں دبا رہنے دو اور اس کا تذکرہ بھی اب صرف زیب داستاں کے لئے ہی ہوسکتا ہے۔ ۳۵اے وغیرہ بھی اسی تابوت میں دفنائی گئی ایک لاش ہی کہی جاسکتی ہے اور سٹیٹ ہڈ کے بارے میں کچھ مہینوں پہلے تک یہی موقف تھا کہ شاید کسی مقام پر اس کی بحالی پر سوچا جاسکتا ہے لیکن پہلے حد بندی اور اس کے بعد الیکشن لازمی اور ضروری ہیں، اس پر بہت کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے لیکن اب پچھلے کئی ہفتوں سے اُس موقف میں بھی واضح تبدلی محسوس کی جارہی ہے ، مثلاً یہ کہ اب سٹیٹ ہڈ کو کشمیر میں مکمل امن سے مشروط کیا جارہا ہے اور ایسا کہا جارہا کہ جب تک ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہے کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا اور دوسری بات یہ کہ کشمیر سے لے کر بھارت تک کا سبھی ، الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کشمیر کی ترقی کو زمینی سطح پر سڑکوں، بجلی، تعمیرو ترقی اور بیروز گاری کے خاتمے کے روپ میں نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے بلکہ اس ترقی کی دیوی کو تمام بڑے چھوٹے لیڈراں اپنی بانہوں میں جکڑے رمبا سمبابھی ناچتے رہے ہیں ،یہاں تک کہ کچھ مرکزی لیڈروں نے یہ کہہ کر قصہ ہی ختم کیا کہ اب مزید بلندیاں بچی ہی نہیں ہیں اوردوسری بات یہ کہ اب وادی میں مکمل امن و امان ہے ۔شانتی ،اور سکھ چین ہے اور یہ سب ۳۷۰ وغیرہ ختم کرنے کے کرشمے ہیں جس سے ہم نے چٹکیوں میں فنا کے گھاٹ اتارا ہے۔ لیکن دیکھنے کی یہ بات ہے کہ ساری جموں نشین پارٹیاں اور لوگ اس معاملے میں ایک ہی پیج پر ہیں، یہاں تک کہ بہت بڑے اور پرانے لیڈر حضرات بھی کشمیر نشین پارٹیوں سے الگ ہو چکے ہیں اور اس بات کو مکمل واضح کیا ہے کہ ہم اس موقف پر ایک ہیں جو کشمیر سے متعلق انہوں نے اپنا رکھا ہے ا ور وہ یہ کہ جموں کے ساتھ ہر دور میں نا انصافی ہوئی ہے۔ ہم اس پر کوئی ریمارک یا تجزیہ کی جر ات نہیں کرسکتے ،کیونکہ اگر ہمیں یہ سب نظر نہیں آرہا تو ہماری آنکھوں کا قصور ہے،ہماری بیمار سوچ کا قصور ہے اور ہمیں اپنی آنکھوں میں وہ سرمہ لگانا چاہئے جو یہ لوگ لگا کر وادی وارد ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے سبھی مینسٹریم نے ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد کی پوزیشن اور کھونے پانے کے عمل سے بے نیاز ہوکر اقتدار کی ریس میں اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ نہ صرف کمر کس لی ہے بلکہ بہت سارے لوگ اِدھر سے اُدھر جاچکے ہیں اور ان میں سے اکثر محترم سجاد غنی لون کی پیپلز پارٹی کے خیمے میں پہنچ چکے ہیں،، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، اور اپنے سید الطاف بخاری بھی کچھ دم بخود سے ہیں کیونکہ اب دوسری مینسٹریم پارٹیوں کا گفتار اور ارادے بھی کچھ مختلف نہیں، انہیں جس بات کا انتظار ہے دوسری پرانی پارٹیوں کو بھی اسی طرح کا انتظار اور اسی طرح کے اہداف ہے، تو ان کے لئے مزید کوئی خاص بات کیا رہ جاتی ہے اس لئے اپنی وادی کی سیاسی پارٹیاں بس انتخابات کی منتظر ہیں اور بلکل بے چین ہیں کہ یہ الیکشن کب منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی قوت آزمائی کرکے اقتدار کی دیوی کو اپنے بالاخانوں کی زینت بناسکیں۔ لیکن یہاں میرے ذہن کے پردوں پر ایک چھوٹی سی کہانی رقصاں ہورہی ہے، کیونکہ کبھی کبھی کہانیاں بھی بڑی دلچسپ اور بڑی مماثلت رکھتی ہیں اور معاشرے کی روایات اور بہاو کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرتی ہیں، بقول غالب، ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ۔
کیا ۔کیا جائے اس کے بغیر چارہ نہیں کہ کہانیوں سے ہی کبھی کبھی دل بہلایا جائے، کہتے ہیں کہ کبھی دس پندرہ شودوں نے مل کر سوچا کہ بھیڑ کے سری پا، پکائے جائیں ، ہمارے شودوں کے بارے میں یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ من کے اجلے ، مست مولا اور دنیاوی فریبوں سے دور اپنی ہی الگ دنیا بسائے ہوتے ہیں جہاں کے یہ خود بادشاہ اور شہنشاہ ہوتے ہیں ، تو ایسے ہی مست مولاو¿ںکی ٹولی کو خواہش ہوئی ، کیا کیا جائے خوا ہش ہی ہے کہ دھوم سے سری پائے پکائے جائیں اور مزے مزے سے دوچار چلمیں پھونکنے کے بعد کھائے جائیں، بس چندہ جمع ہوا اور دیگ بھی چولہے پر چڑھائی گئی ، بڑی دیر کے بعد جب دیگ میں سری پائے تیار ہونے ہی والے تھے ،ایک شودے، کو خیال آیا کہ سری پا میں سارے مصالحے تو ڈالے ہیں لیکن مرچ رہ گئی ہے ، اب سارے ہی شودے دیگ کے ارد گرد بس آخری انتظار کے لمحات گذار رہے تھے ، اپنی چلم بھی پہلے پہلے ہی تمام کر دی تھی اس لئے سبھی مست ، دنیا و مافہیاسے بے خبر آرام فرما ہوچکے تھے ۔ اس لئے کسی بھی شودے نے مرچ لانے کی حامی نہیں بھری ، اور نہ اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت ہی گوارا فرمائی ، سو بڑے شودے نے بڑی عقلمندی سے فیصلہ سنا دیا کہ جو شودہ بات کرے گا مرچ اسی پر واجب ہوگی اور اس سے ہر قیمت پر مرچ لانا پڑے گی ،، بس اپنی ہی دنیا کے لوگ ہیں جو من میں سمائی۔ کر ڈالی ، ایک دم سبھوں نے اپنی زبانوں پر تالے چڑھائے ، آہستہ آہستہ چولہا سرد ہوپڑا ، دوچار کتے بھی کہیں ادھر اُدھر سے آگئے، جب انہیں کسی نے بھگانے کی کوشش ہی نہیں کی تو وہ بھی یہی سمجھے کہ مفت کا مال ہے ، ہڑپ کیا جائے ، محتاط انداز میں دیگ کی طرف بڑھے ، دائیں، بائیں سے کوئی حرکت اور ڈنڈا نہیں اٹھا تو آرام سے دیگ پر ہلہ بولا ۔ دیگ الٹ دی ، شودے (چرسی )تماشہ دیکھتے رہے کیونکہ ان کے ذہن میں تو بس ایک بات نقش ہو چکی تھی کہ ( زباں کھولی تومرچ واجب ہوگی )، کسی نے حرکت نہیں کی، کتوں نے دیگ الٹ دی ، ”سری پا“ آرام سے چٹ کر گئے ، لیکن شودے یہی خیال کرتے رہے کہ جس نے زباں کھولی اس کو مرچ لا نا پڑے گی، اتفاقاً اس رات بادشاہ کے ہاں چوری ہوئی ، صبح سویرے شاہی محل میں تلاطم پیدا ہوا ، چوری وہ بھی بادشاہ سلامت کے محل میں؟ تو سارے کوتوالوں کی سانس پھول گئی ، گلی کوچوں میں ناکے لگائے گئے اور اسی دوران کسی نے خبر یہ پہنچائی کہ ایک جگہ نکڑ پر پانچ سات آدمیوں کی ٹولی دھونی رما کے بیٹھی ہے شاید چوری کا مال تقسیم کرکے خاموش بیٹھے ہیں، تو کوتوال صاحب آگئے کچھ پوچھ تاچھ کرنا چاہی لیکن کسی نے زباں کھولی نہیں ، سمجھے کہ یہی چور ہوسکتے ہیں، بادشاہ کے روبرو پیش ہوئے، سوال اور جرح ہوئے لیکن زباں کھولنے کی پاداش میں ان پر مرچ واجب ہوجاتی، اگر چہ اب نہ وہ دیگ تھی نہ وہ سری پائے تھے جس کے لئے مرچ کے پاپڑ بیلنے کی ضرورت تھی،، جب کوئی جواب نہیں آیا تو سیدھا پھانسی کا حکم ہوا ، سارے شہر میں منادی کردی گئی کہ شاہی چور پکڑے گئے ہیں اور انہیں پھانسی دی جائے گی ،،، لوگ ہجوم در ہجوم تماشہ دیکھنے آگئے ، ایک چرسی کے گلے میں جب پھا نسی کا پھندا بھی پہنایا گیا اور پھانسی لگنے میں لمحات کی دیر تھی تو جناب( شودے)چرسی کو احساس ہوا کہ اب خاتمہ ہی ہونے والا ہے تو اچانک چیخ پڑا ،، میں چور نہیں ،، میں چور نہیں ،، اس کی زباں کھلنی تھی کہ نیچے سے باقی تمام شودے چیخ اٹھے، مرچ لاو¿ ، مرچ لاو¿،، تم نے زباں کھول دی ہے ،،یہ شور و غوغا سن کر بادشاہ سلامت کے ساتھ تمام درباری اور لوگ حیران و ششدر کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں اب اچانک زباں کھولی ہے ، بادشاہ نے شودے کے گلے سے پھانسی کا پھند انکالنے کا حکم دیا اور ماجرا پوچھا ،، تو شودے نے با ادب سارا ماجرا بیان کیا کہ یہ ایک شرط تھی سو میں نے زباں کھول کر یہ شرط ہاری ہے اور اب مرچ مجھ پر واجب ہوگئی ،،، درباری اور بادشاہ سلامت ششدر ، صم بکم ، ، کسی وزیر نے پوچھا کہ بھائی وہ سری پائے جو پک رہے تھے ہیں کہاں؟ شودے نے بیساختہ معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ کتے پہلے ہی چٹ کر گئے ہیں ، بادشاہ نے پوچھا ”ارے عقل کے اندھے نہ سری پا ہے نہ اس کا شوربہ ہے نہ وہ دیگ ہے، تو اب مرچ کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ سوال آج تک اس کشمیری کہانی میں اسی طرح موجود ہے جس طرح شودوں کے زمانے میں تھا اور ہم ابھی تک خود بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائے ہیں اور شاید آگے بھی نہ ڈھونڈ پائیں ، یہ کہانی کسی پارٹی یا کسی خاص شخص کی طرف منسوب نہیں، بس میرے ذہن پر رقصاں ہوئی اور آپ تک پہنچائی ۔۔
کشمیر کا پولیٹیکل سنیریو جو بھی ہے اور جو بھی رہا ہے وہاں اس کہانی کے خدوخال کہیں ہیں کہ نہیں لیکن میں نے جب بھی اپنے سیاسی پس منظر پر غور کیا ہے مجھے بار بار یہی لگا ہے کہ میں خود بھی اس کہانی کا ایک کردار یعنی ایک (شودہ ) ہوں جن کے پاس نہ سری پا ہے کھانے کے لئے اور نہ شوربہ ہی چکھنے کے لئے بچا ہے ، اس لئے یہ سیاسی منظر مینسٹریم کے لئے بلکل نیا اور انوکھا ہے ،، کیا دیا جائے جب کہ مرکز کے پاس مینسٹریم کے لئے کچھ ہے ہی نہیں،، کہیں ایسا تو نہیں کہ ان لوگوں نے دہائیوں جو خواب لوگوں کو بیچے ہیں اب خود بھی یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ بس خواب دکھاتے رہے ہیں اور خواب بیچتے رہے ہیں ، آج بھی یہ خوابوں کے سوداگر اپنی اسی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ،کیونکہ خوابوں کے خریدار ہر دور اور جگہ میسر رہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں