غازی سہیل خان
مسرت اپنے والدین کی شہزادی تھی، بہت ہی شرمیلی اور با حیا لڑکی تھی ۔۔۔۔نرسری سے ہی اسکول میںبا پردہ رہتی تھی، شدید گرمی کے موسم میں جب مرد و خواتین پیر و جواںآدھے کپڑے پہن کے گرمی سے بچنے کا سامان پیدا کرتے تھے ایسے میں مسرت مکمل پردے کا اہتمام کرتی ۔۔۔۔مسرت کی سہیلی” علیزہ“ اکثر کلاس میں مسرت کو کہتی ارے یہ تو بتا اتنی گرمی کے باوجود تو اس طرح اپنے جسم کو کیسے ڈھک پاتی ہیں۔۔۔۔؟ میرا تو تجھے دیکھ کے ہی دم گھٹنے لگتا ہے،اگر میں ایسے حجاب پہنوں نا تو مجھے لگتا ہے میں محض تین منٹ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوں گی۔۔۔ ارے میری پیاری”علیزہ “آپ یقین کریں جب میں باپردہ ہوتی ہوں نا پہلے تو میں اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھتی ہوںاور ذرا بھی گرمی محسوس نہیں کرتی۔۔۔۔ اچھا ”علیزہ“ نے حیرانگی کے عالم میں بولا ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟ مسرت جواب ہی دینے لگی تھی کہ کلاس میں” سُلیمان سر“ آ گئے اور اپنے مخصوص انداز میں ریاضی پڑھانا شروع کر دیا۔۔!
مسرت کی منگنی پڑوس کے ایک گاو¿ں” وندگام“ میں ایک صالح نوجوان سے ہوئی تھی چونکہ مسرت ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور جہاں اس کی منگنی ہوئی وہ بھی دال روٹی پہ ہی اپنا گزارا کرنے والوں میں سے تھے۔۔۔۔ لیکن تھے بڑے اسلام پسند، اور اگلے ماہ رخصتی کا پروگرام بھی تھا۔۔۔ رخصتی بھی انتہائی سادگی اور با حیاءطریقے سے ہوئی، مسرت کا ہونے والا سرتاج بھی باحیاءتھا وہیں رخصتی کے چند ہی ماہ کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کا اس جوڑے پر فضل ہوا کہ مسرت اُمید سے ہو گئی۔۔۔!
جیسے جیسے مسرت کی اُمید کو رنگ بھرنے کے دن قریب آتے گئے مسرت ڈپریشن میں جانے لگی،بلکہ ہر روز صبح اُٹھتے ہی رونا شروع کر دیتی،رات کو نیند نہیں آتی ،کروٹیں بدل بدل کر رات کا ایک ایک لمحہ مسرت پر قیامت بن کے گُزرتا لیکن گھر میں کسی کو محسوس تک نہیں ہونے دیتی،یہاں تک اپنے شوہر کو اپنی بے قراری اور اضطرابی کیفیت کو محسوس نہیں ہونے دیا وہ اس لئے کہ مسرت کو اپنے گھر کی مالی حالت کا احساس تھا گذشتہ سال ہی مسرت کی سال کی گردوں کا آپریشن ہوا جس کے سبب گھر میں چند مرلے زمین کو بھی بیچنا پڑا، وہیں یہ گھر وڈیروں کے قرضے کے نیچے دب کے رہ گیا تھا،مزمل جو بھی اپنی محنت سے کماتا مشکل سے ایک مقروض کا قرض ادا کر سکتا تھا، پھر وہی حال جو ہم سب جانتے ہی ہیں۔۔۔۔۔ مسرت کے چہرے پہ خوف، گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار دیکھتے ہوئے ”مزمل“ مسرت کے شوہر نے ایک بار مسرت کو اپنے کمرے میں ظہر نماز کے فوراً بعد بُلایا اور کہا کہ آپ کے چہرے پر یہ مایوسی اور غم کے آثار کیوں ہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ اُمید سے ہیں۔۔۔ دیکھو مسرت اللہ تعالیٰ ہمیں اتنی جلدی اپنی اولاد کی عظیم نعمت سے نوازنے جا رہے ہیں،یہاں تو چند ایسے بھی جوڑے ہیں جو برس ہا برس تک اور چند کو تو ساری عمر ایک اولاد سے محروم ہونے کے سبب ان کی زندگیاں عذاب بن گئی ہوتی ہیں۔۔۔! اب مسرت کے ذہن میں کیا چل رہا تھا اور وہ” اُمید سے ہونے “کے باوصف کیوں ڈپریشن میں چلی گئی، اُسے کیا خوف ستا رہا تھا مسرت بخوبی جانتی تھی۔۔۔ ایک دن مزمل نے ٹھان لی کہ آج میں مسرت سے پریشانی کی وجہ جان کے ہی دم لوں گا اور اگلے دن مغرب کی نماز کے فوراً بعد ابھی مسرت ابھی مصلیٰ بچھائے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہی تھی کہ مزمل سیدھے کمرے میں آیا اور مسرت کے پیر پکڑے اور کہا مسرت پلیز بتائیں آپ اتنا پریشان کیوں ہیں،مجھ سے آپ کو ایسے غمگین دیکھنا برداشت نہیں ہو رہا ہے۔۔۔ پلیز مسرت بتائیں نا پلیز۔۔۔۔ ہم تو مسرت کو اپنے گھر میں شہزادی کی طرح رکھتے ہیں میرے بابا اور امی اس کو اپنی بیٹی ہادیہ سے بھی زیادہ پیار دیتے ہیں۔۔۔؟ میری بہنیں جن کی ابھی شادی بھی ہونی باقی ہے مسرت کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک مانتے ہیں مزمل مسرت کی اور ٹکٹکی باندھے سوچنے لگا۔۔۔۔!
آج مسرت کا 9 واں مہینہ چل رہا تھا اور اگلی سنیچر کو اسپتال میں داخل ہونا تھا۔۔۔۔ اسپتال میں داخلہ کے بعد ڈاکٹرنے سارے ٹیسٹ کرانے کے بعد” مزمل“ کو بتایا کہ” مسرت“ کوآپریشن تھیٹر لے جانا ہے اس کی جراحی ہوگی۔۔۔” ڈاکٹر عمران“ اپنے نوجوان اور تازہ دم تھیٹر اسٹاف کے ساتھ جیسے ہی اندر آئے اور پہلے مسرت کا بلڈ پریشرBP) (چیک کیا۔۔۔ ابھی ڈاکٹر صاحب BPہی چیک کر رہے تھے کہ مسرت پسینے سے شرابور ہوگئی، اور گھبراہٹ و اضطراب کے نشان اس کے چہرے پہ واضح اُبھر کے آ گئے ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے اپنی ٹیم سے گویا ہوئے اور کہا کہ یہ اس سرجری کو فی الحال کے لئے معطل کرنا ہوگا،کیوں کہ اس کا BPبہت زیادہ ہے۔۔۔۔ ایسے میں ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے۔۔۔۔!
ایک دن ایسے ہی گزرگیا اور مسرت کو سوموار کی صبح کے سات بجے پھر سے تھیٹر لایا گیا حسب معمول BPکی جانچ ہوئی ارے یہ کیا ابھی تو اس کا BPنارمل تھا یہ اتنا جلدی کیسے 180پر پہنچ گیا ”ڈاکٹر عمران“ حیرانگی اور پریشان کُن حالت میں اپنے” مرد نوجوان تھیٹر اسٹاف“ سے گویا ہوئے ۔۔۔ مسرت کی حالت جب زیادہ خراب ہونے لگی وہیں دوسری اور مسرت کے ایک ٹیوب میں انفیکشن کے سبب یہ سرجری جلدی انجام دینی تھی تاکہ بچہ اس انفیکشن کی زد میں نہ آیے زچہ کو بھی کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔!
مسرت کی حالت کو بگڑتا دیکھ کر” ڈاکٹر عمران “ نے تھیٹر سے باہر نکل کر ڈیپارٹمنٹ آف gynaecology کی ہیڈ ”ڈاکٹر روبینہ“ سے مدد چاہی اور یہ کیس ہنڈل کرنے کی گزارش کی۔۔۔۔ ڈاکٹر روبینہ نے فرض منصبی نبھانے کااپنے اندراحساس پیدا کرتے ہوئے اور شعبہ کا تمام کاغدی کام وہیں چھوڑ کر ” اپرن پہن “کے اندر تھیٹر آ گئی اور مسرت کو سمجھایا کہ بیٹا اور ریلکس ہو جائیں نہیں تو آپ کے لیے مشکل ہو جائے گی۔۔۔۔ ڈاکٹر عمران اور تھیٹر کا سارا میل اسٹاف ڈاکٹر اور مریض کی اور اپنی نظریں جمائے دیکھ رہے تھے اب آ خر ہوگا کیا۔۔۔؟؟؟ مسرت نے ہلکی سی آہ بھرتے ہوئے ڈاکٹر روبینہ سے کہا کہ آپ مرد حضرات کو تھیٹر سے نکال دیں جب تک میری جراحی ہو جاتی ہے میں یقین سے کہتی ہوں میرا BP نارمل ہو جائے گا۔۔۔۔۔!!!