218

کشمیر منشیات کے دیو ہیکل پنجوں میں پھنس گیا

غازی سہیل خان

گذشتہ ماہ حکومت ہند کی وزارت انصاف نے کشمیر کے حوالے ایک چونکا دینے والی رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 10؍سے 17؍سال عمر کے 168700؍نوجوان جموں کشمیر میں منشیات کی لت میں گرفتار ہو گئے ہیں وہیں اس رپورٹ کو پڑھ کے انسان تب چونک جاتا ہے جب دس لاکھ مرد حضرات کے ساتھ ساتھ اب ایک لاکھ سے زائد خواتین بھی اس زہرناک وبا میں گرفتار ہو گئی ہیں ۔گذشتہ سال تک میں اکثر اپنے منشیات کے متعلق مضامین کی تمہید میں لکھا کرتا تھا کہ جموں کشمیر میں منشیات وبا کی طرح پھیل رہی ہے ! لیکن افسوس حالیہ حکومتی اعداد شمار کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے کو مجبور ہو رہا ہوں کہ جموں کشمیر میں منشیات ایک وبا کی مکمل صورت اختیار کر گئی ہے ۔پہلے پہل تو ہم پولیس کے ذریعے سے زیادہ تر گرفتاریاں جو منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہوتے تھے مرد حضرات کی ہی دیکھتے اور پڑھتے تھے ،لیکن آج خواتین کی گرفتاریاں بھی دھڑا دھڑ ہو رہی ہیں ۔یہ اتنی جلدی کشمیر میں کیا سے کیا ہوگیا مرد و خواتین اس انسانیت سوز دھندے میں کیوں ملوث ہو رہے ہیں میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں ۔
بہر کیف اب اس وبا سے محض وہ منشیات کا عادی فردِواحد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے سبب گھروں کے گھر اور ہنستے کھیلتے خاندان برباد ہو کے سماج تباہی کی اور بڑی تیزی سے جا رہا ہے ۔نوجوان نشہ آور ادویات،شراب اور دیگر چیزوںکو خریدنے کے لئے اپنے گھروں سے قیمتی سامان کوڑوں کے دام بیچ کے اپنی زندگی برباد کرنے سے ہچکچاتے نہیں، جن کو گھروںمیںبیچنے کے لئے کچھ ملتا نہیں وہ دوسرں کے گھروں سے قیمتی سامان چُرا کے نشہ آو رچیزیں خرید رہے ہیں ۔کشمیر میں نشہ آور چیزوں کی خرید وفروخت آ ج کی تاریخ میں اپنے عروج پہ ہے ۔اس کاروبار سے وابستہ انسانیت کے قاتلوں نے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرکے اپنے لئے دولت کے انبار جمع کر کے محلات تعمیر کیے ہیں ۔بلکہ آج جو بھی زیادہ پیسہ کم وقت میں کمانا چاہتا ہے وہ اس انسانیت سوز دھندے میں شامل ہو جاتا ہے ۔کشمیر میں نشہ آور ادویات اور دیگر نشیلی چیزوں کا استعمال نوجوان بہت ساری وجوہات سے کر رہے ہیں ۔چند اپنی گھریلوں پریشانیوں کے سبب، چند لڑکو ں اور لڑکیوں سے عشق و عاشقی کے سلسلے میں، چند شوقیہ اور ماہرین کے مطابق چند نوجوان کشمیر میں چل رہی شورش کے سبب نشہ آور چیزوں کا استعمال کر رہے ہیں ۔یعنی اربوں کی دولت کو اُڑا کے جموں کشمیر کے نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہو کے ایک قومی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ لیکن یہ شراب اور دیگر نشہ آور ادویات کہاں سے اور کیسے کشمیر میں سپلائی کی جا رہی ہیں یہ کشمیر کی عوام جاننے سے قاصر نظر آ رہی ہے ۔ تاہم BBCکی ایک رپورٹ میں جس کا عنوان ہی تھا کہ ’’ کشمیر میں منشیات کہاں سے آتے ہیں ؟‘‘لکھتے ہیں کہ ’’پولیس اور سول انتظامیہ کے کئی افسران کشمیر میں منشیات کے پھیلاو کو روکنے کے لئے کام کر چُکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 100؍سال پہلے کشمیر کے راستے ہی منشیات پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتی تھیں ،ان کے مطابق کشمیر کو ایران ،افغانستان اور پاکستان کے قریب ہونے کی وجہ سے گولڈن کریسنٹ یا ’’ سُنہرا ہلال‘‘ کہا جاتا تھا۔ایک مقامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جس طرح کی وبا اب یہاں پھیلی ہے، ایسے کبھی نہیں تھی،یہی وجہ ہے کہ یہاں 1990سے 2000تک نوجوان نیند آ ور یا درد کش گولیاں لیتے تھے، پچھلے چند سال میں یہاں ہیروئن کی سپلائی بھی بڑھی ہے اور ڈیمانڈ بھی ۔‘‘(بی بی سی رپورٹ )
اس وبا کے سبب ہم دیکھتے ہیںکہ کشمیر میں جرائم کی تعداد میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔آپ ہم سب آئے روز اخبارات اور سوشل میڈیا میں دیکھتے ہی ہیں کہ کس طرح سے ابھی بچے لڑکپن ہی کی عمر میں ہوتے ہیں اور وہ دیگر جوانوں سے معمولی قسم کی باتوں پر پارکوں، گلی کوچوں اور چوراہوں پر جھگڑتے ہیں، یہ اب روز کا معمول ہی ہیں تاہم اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان ایک دوسرے پر چھریوں سے بھی وار کرنے سے ہچکچاتے نہیں، جس کی مثال حال ہی میں ایک نوجوان کی سرینگر میں مبینہ طور اسی قسم کی آپسی رسہ کشی میں موت واقع ہو چُکی ہے۔ سماج میں لڑائی جھگڑے عام ہونا فتنے اور فسادایک ٹرینڈکی شکل ہمارے کشمیر میں اختیار کر گئی ہے ۔ وہیں چند نوجوانوں کو نشہ آوردوائی نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر دیتے ہیں اور چند کو خطرناک بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیںمثلاً کشمیر میں نشہ میں مبتلا 50؍فیصد تک افراد اپنی رگوں میں ہیروین انجیکشن کے ذریعے پہنچاتے ہیں اور کئی لوگ ایک ہی سوئی کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہیپاٹائٹس سی اور کئی دیگر خطرناک بیماریاں لگ جاتی ہیں ۔ان نشوں میں کشمیر میں بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ملوث ہو گئی ہیں بلکہ اچھے گھروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ان منشیات کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت ہند کے وزارت انصاف کی حالہ رپورٹ ہمارے لئے چشم کُشا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کشمیر میں نوجوانون کو اس وبا سے پاک رکھنے کے لئے سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں، پولیس اور علماء اپنی کوششوں کے باوجود بھی منشیات کو کشمیر سے ختم کرنا تو دور کی بات کم کرنے میں بھی ناکام دیکھائی دے رہے ہیں ۔ بلکہ آئے روز کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔عوام انتظامیہ سے یہ سوال کرتی ہے کہ یہ افیم اور ہیروئن اور دیگر نشیلی انجیکشن اورٹیبلٹس کہاں اور کیسے کشمیر میں پہنچ رہے ہیں ۔یہ بات واضح ہے کہ یہ سارا کچھ ایک منظم طریقے سے ہی انجام دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک اس دھندے سے وابستہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو پکڑا نہیں جاتا تب تک اس وبا پہ قابو پانا ممکن نہیں ہے ۔یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جموں کشمیر میں ڈرگ پالیسی کے اطلاق اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی کارروائیوں کے باوجود ڈرگ اسمگلروں پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکتا ؟کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دھندہ ایک منظم پروگرام اور سیاسی لوگوں کے آشرواد سے چل رہا ہے یہ عام لوگوں کے بس کی بات ہی نہیں ہے ۔اگر سرحدوں پہ اتنی فوج اور تاربندی کی گئی ہے تو وہاں سے اتنی بڑی مقدار میں ڈرگس کیسے کشمیر لائے جا رہے ہیں اسی طرح سے وادی میں اگر فورسز کی نظر ہر ایک شحص پہ ہے تو یہ ہزاروں میں جو درندے کشمیر کے نوجوانوں کی زندگیاں اُجاڑنے میں مصروف ہیں یہ کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہے ہیں ؟ ایک تجزیہ نگار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جموں کشمیر میں جب سے مذہبی آزادی اور علماء کی گرفتاری اور نوجوانوں کو دینی ماحول قائم کرنے پر رکاوٹ کے سبب گذشتہ چند سالوں سے کشمیر میں منشیات کا بے قابو ہونا بھی ایک سبب ہے۔ مزید اُن کا کہنا تھا کہ ہم دیکھتے ہیں 2019کے بعد سے ہمارے تعلیمی اداروں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں مختلف پروگرموں کے ذریعے سے بے حیائی اور اخلاق باختی کا ماحول قائم کیا جا رہا ہے ۔تعلیمی اداروں میں بچو اور بچیوں کو رقص و سرور کی محفلیں سجا کے اور انہیں مخلوط نظام میں بے حیائی پھیلانے کی آزادی دینا بھی کشمیر کے نوجوانوں میں منشیات کی وبائی شکل اختیار کرنا ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔
اس ساری مایوس کُن اورتشویشناک صورتحال کے بیچ ہمیں چاہئے کہ ہم اجتماعی طور سماجی سطح پہ اس ناسور کو کشمیر سے اُکھاڑ پھینکیں ۔اپنے بچوں کو پہلے سے ہی اچھے اور بُرے کی تمیز کروانا سیکھائیں، اُن پہ نظر رکھیں، اُنہیں دینی تعلیم سے آراستہ کروائیں ۔ہمارے علماء کا یہاں ایک خاص رول بنتا ہے کہ اپنی اپنی مساجد اور درسگاہوں میں بچوں کو تلقین کریں اس ناسور سے دور رہنے کی۔ سب سے اہم ذمہ داری ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ صاحبان پر کہ وہ بچوں کو منشیات سے دور رکھنے کے لئے مختلف طرح کے پروگرام منعقد کریں بچوں کو پرائمری سطح سے ہی اس ناسور سے دور رکھنے کے لئے ہمارے اسکول اور اساتذہ ایک عظیم کام انجام دے سکتے ہیں ۔وہیں انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ اسلام پسند اور با حیاء نوجوانوں کو بھی کشمیر میں نوجوانوں کے اندر دینی حس اور مذہبی بیداری کے لئے ایک موقعہ فراہم کرنا چاہیے ،جتنا نوجوان اپنے دین و مذہب کے ساتھ جُڑے رہیں گے اُتنا وہ ان چیزوں سے دور رہ سکتے ہیں ۔ پولیس کو بھی چاہیے اس منظم دھندے میں ملوث افراد ( خاص طور سے بڑے بڑے مگر مچھ )کے خلاف کڑی سے کڑی کارروائی عمل میں لا کے دیگر لوگوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں