155

نئی عمارت میں بدزبانی کا آغاز!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

جہاں تک بات پارلیمنٹ کے نئی عمارت کی ہے تو اس میں کاروائی کے آغاز میں ہی ایک ایم پی نے دوسرے ایم پی کے ساتھ جو گھٹیا پن سلوک کیا اسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اس پر کنور دانش علی کے آنسوؤں پر جن لوگوں نے قہقہہ لگایا انہیں بھی یاد رکھا جائے گا ضرورت تو اس بات کی تھی کہ سارے ممبران پارلیمنٹ اخلاقی بنیاد پر اور انسانیت کی بنیاد پر پارٹی اور سیاسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر رمیش بدھوڑی کی مذمّت کرتے اس کی پارلیمانی رکنیت رد کرنے کا اسپیکر سے مطالبہ کرتے مگر افسوس کہ کسی کی غیرت جوش میں نہیں آئی۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو ایوان میں بولنے کے دوران ہنگامہ برداشت نہیں ہوا اور ایوان کو ہی الوداع کہہ دیا اب انہیں کی پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کو ایوان میں ذلیل کیا گیا تو مایاوتی نے اپنی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کو کیوں نہیں کہا کہ دانش علی کی حمایت و ہمدردی میں کمربستہ ہوجائیں اور رمیش بدھوڑی کو دندان شکن جواب دیں۔ محبت کی دکان کھولنے والے اور بھارت جوڑو یاترا ہاتھ ملاؤ یاترا نکالنے والے راہل گاندھی بھی دانش علی کی حمایت میں کیوں نہیں آگے آئے۔ اگر اکھلیش یادو کہہ رہے ہیں کہ دانش علی صرف بہوجن سماج پارٹی کے نہیں بلکہ سماجوادی پارٹی کے بھی ایم پی ہیں تو اس کا ثبوت پارلیمنٹ کے اندر سماجوادی پارٹی کی طرف سے کیوں نہیں دیا گیا۔ سارے لوگ صرف باہر چاپلوسی کررہے ہیں تاکہ مسلمانوں کا ووٹ بہکنے نہ پائے یعنی سب کا وہی حال ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور۔ یقینا رمیش بدھوڑی کی نازیبا حرکت سے ہمیں جتنا غصہ آرہا ہے اتنا ہی دانش علی کے رونے اور آنسو بہانے سے تکلیف بھی ہوئی ہے آخر آپ نے رویا کیوں، آپ نے بدھوڑی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی بات اور اس کی حرکات کا منہ توڑ جواب کیوں نہیں دیا، آپ کے رونے سے مسلمانوں کا حوصلہ ٹوٹا ہے مایوسی اور احساس کمتری کی چادر تنی ہے اور مسلمان یہ سوچ رہا ہے کہ ایک مسلم ایم پی ایوان کے اندر جب اتنی بے بسی اور لاچاری ظاہر کرے گا تو کیسے مسلمان یہ اُمید رکھے کہ مسلم قیادت وجود میں آئے گی یا ابھرے گی دانش علی کو سینہ ٹھونک کر کہنا چاہئے تھا کہ لال قلعہ فصیل ، قطب مینار کی بلندی ، جامع مسجد کے در و دیوار ، تاج محل کی چمک، ایٹمی طاقت ، قومی پرچم یہ سب بھارت کے ساتھ مسلمانوں کی حب الوطنی کا ثبوت ہیں اور ایسی حب الوطنی پر کوئی انگشت نمائی کرے اور شک و شبہ کرے تو یہ اس کی ذہنی دیوالیہ پن کا مظاہرہ ہے اور مذہبی منافرت کا ثبوت ہے، اور میں بھی انہیں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں پھر بھی مجھے جو گالیاں دی گئیں اور جس گھٹیا اور توہین آمیز کلمات سے مخاطب کیا گیا وہ ساری صفت خود تمہارے اندر ہے۔ ہم آئین کی بالادستی قائم رکھنا چاہتے ہیں اور تم آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہو ، ہم جمہوریت کو فروغ دے رہے ہیں اور تم جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہو ، ہم پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر سمجھتے ہیں اور تو اس میں بھی منافرت پھیلانے کی کوشش کررہے ہو ، ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور تم ملک کا ماحول خراب کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ مگر افسوس صد افسوس کہ دانش علی صاحب آپ فرقہ پرستی کی ذہنیت رکھنے والے کو جواب نہیں دے سکے آپ سے چوک ہوگئی –
بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر اترپردیش کے امروہہ حلقہ سے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے ساتھ جو ہوا وہ قابل مذمت ہے، یہ جمہوریت کی بھی توہین ہے اور جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے کی بھی توہین ہے۔ ایک شخص جسے عوام نے ووٹ دے کر اپنا نمائندہ تسلیم کیا ہے اور وہ ممبر آف پارلیمنٹ ہے اس کے باوجود بھی اسے دہشت گرد کہہ کر مخاطب کیا جائے اور ساتھ ہی ایسے نازیبا کلمات کہے جائیں جسے تحریر کرنے میں بھی شرم آتی ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ دانش علی کو دہشت گرد کہنے والا خود دہشت گرد ہے اور یہ سب کچھ اس لئے کہا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اس جگہ کہا جارہا ہے جو ملک کی سب سے بڑی پنچایت ہے ، جو جمہوریت کا مندر ہے اور اس کے ذریعے کہا جارہا ہے جو خود بھی ممبر آف پارلیمنٹ ہے یہ نفرت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ کنور دانش علی کے ساتھ دہلی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے جو توہین آمیز سلوک کیا ہے اس سے پورے ملک کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور پورے ملک کا مسلمان غصے میں ہے۔ علاوہ ازیں اسپیکر کی طرف سے بدھوڑی کے خلاف کاروائی نہ کیا جانا بھی شرم کی بات ہے اور مذہبی بنیاد پر ناانصافی بھی ہے، کم از کم اسپیکر کو اتنا تو سوچنا چاہئے کہ جب پارلیمنٹ کے اندر انصاف نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا اور ایک ایم پی کے ذریعے ایک ایم پی کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے اور اتنا ٹوٹ جائے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے اس جگہ کو الوداع کہنے پر غور کرے اور آنکھوں سے آنسو بہائے تو ملک کا مسلمان اپنے کو کیسے محفوظ تصور کرے گا-
کبھی ٹرین میں ، کبھی اسٹیج پر ، کبھی اسکول و کالج میں ، کبھی سڑکوں پر ، کبھی بازاروں میں آئے دن جو نفرت کی چنگاری بھڑکائی جاتی ہے کبھی سوچا کہ آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ ہر طرف نفرت کا دھواں اٹھ رہا ہے اور مذکورہ تمام مقامات سے ہوتے ہوئے نفرت کی چنگاری پارلیمنٹ تک جا پہنچی کیا جمہوریت کی جڑوں کو ہلانے والی بات نہیں ہے، ملک کے آئین کی توہین نہیں ہے ؟ آخر مسلمانوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے اس ملک کی مٹی میں ہمارے بزرگوں اور ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیاں دفن ہیں ، اس ملک کی مٹی میں ہمارا لہو تک شامل ہے آخر کیوں ہم سے بار بار حب الوطنی کا ثبوت مانگا جارہاہے۔ دریا سے ڈبونے کا ثبوت نہیں مانگا جاتا، ہوا سے اڑانے کا ثبوت نہیں مانگا جاتا، آگ سے جلانے کا ثبوت نہیں مانگا جاتا کیونکہ اس کے اندر یہ صفت، خصوصیت اور فطرت ہے تو اسی طرح مسلمانوں سے بھی حب الوطنی کا ثبوت نہیں مانگا جانا چاہئے کیونکہ ملک آزاد کرانے میں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں ہمارے علماء کرام نے انگریزوں کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلا ہے، سروں پر کفن باندھ کر جام شہادت نوش کیا ہے ، ہمارے مدارس اسلامیہ ملک کی آزادی کے لئے تحریک کا حصہ بنے ہیں تب ملک آزاد ہوا ہے اور آج ہم ہی سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جارہاہے ایک رکن پارلیمنٹ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ملک کا غدار کہا جاتا ہے اور اسے رونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ اس ملک کا مسلمان خوفزدہ ہوجائے جبکہ مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح وطن کی محبت دوڑتی ہے یعنی وطن عزیز کی محبت مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے مسلمان ملک کی عدلیہ پر اعتماد کرتا ہے ، ملک کے آئین پر اعتماد کرتا ہے اور مسلمانوں کے اعتماد کا یہ صلہ دیا جارہا ہے کہ کبھی مساجد پر دھاوا بولا جاتا ہے تو کبھی مدارس پر دھاوا بولا جاتا ہے اور یہ اپنا دفاع بھی کرتے ہیں تو انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینکا جاتاہے ، فرضی مقدمات میں پھنسایا جاتاہے ان کے بچوں کے مستقبل کو تباہ کیا جاتا ہے اور مکانوں پر بلڈوزر چلایا جاتاہے، آخر مسلمان کتنا صبر کرے۔ آئے دن قومی یکجہتی کے نام پر اسٹیج مسلمان لگاتا ہے، گاڑی کے شیشے ہاتھ بڑھا کر گائے کو کیلا مسلمان کھلاتا ہے، اپنے مخصوص مواقع پر لنگر و سبیل کے اہتمام کو لے کر آپس میں جھگڑ جاتاہے مگر کاونڑیوں کے لئے شربت پانی کی سبیل مسلمان لگاتا ہے اور ان کے اوپر پھول مسلمان برساتا ہے پھر بھی کہا جاتا ہے کہ کہاں سے آیا مسلمان اسے بھیجو قبرستان۔ آخر اب اس سے آگے مسلمان کیا کرے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں