جاوید اختر بھارتی
یہودی قوم مغضوب عنداللہ تو ہے ہی مبغوض عند الناس بھی ہے،ظلم و جبر،سفاکی وبربریت، طغیان و سرکشی، احسان فراموشی و نافرمانی، حرام کاری و بدمعاشی، عیاری و مکاری، فساد و فتنہ پروری، لامحدود حرص ولالچ اور وہ تمام خصائل قبیحہ جو کسی قوم یا جماعت کے افراد میں متفرق طور پر پائی جاتی ہیں، اس خنزیر صفت قوم کے ہر فرد میں مجموعی طور پر ملتی ہے ان کا ہر فرد تنہا تنہا ان خصائل رذیلہ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم دنیا میں جہاں بھی گئی اور جن دیگر اقوام کے درمیان اس نے سکونت اختیار کی اپنی انہیں ناپسندیدہ خصلتوں کے باعث لوگوں کے غیض وغضب اور نفرت و حقارت کا شکار ہوئی حتیٰ کہ ان ملعونوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو مجبوراً ان پر ظلم تک کرنا پڑا۔
نازی جرمنی کا مشہور تانا شاہ ایڈولف ہٹلر بھی جو اس قدر سفاک قاتل بنا اس کو اس گناہ تک انہیں کی بدمعاشیوں نے پہونچایا۔ ایک مرتبہ ہٹلر سے اس کے ایک دوست نے پوچھا کہ تمہیں یہودیوں سے اتنی نفرت کیوں ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ ابھی وہ جرمنی کا چانسلر نہیں بنا تھا مگر یہودیوں کے خلاف اس کی نفرت انگیز باتوں سے لوگ واقف تھے ہٹلر نے اس دوست سے کہا کہ اگر تم اپنے سوال کا جواب چاہتے ہو تو کل میرے ساتھ بازار چلو۔ دوسرے دن اس نے اپنے دوست کو ساتھ لیا اور کسانوں کا لباس پہن کر اور انہیں جیسا حلیہ بنا کر بازار کی طرف چل دیا، بازار پہونچ کر ایک کراکری کی دکان میں داخل ہوئے دکان کا مالک ایک یہودی تھا، ہٹلر نے اس یہودی دوکاندار سے کپ دکھانے کی فرمائش کی، اس دوکاندار نے ایک عمدہ قسم کا کپ نکال کرمیز پر رکھ دیا اتفاق سے اس کپ کو پکڑنے والی گھنڈی ہٹلر کے بائیں ہاتھ کی طرف تھی ہٹلر نے اس کپ کی قیمت دریافت کی، اس دوکاندار نے اس کی واجب قیمت بتائی
ہٹلر نے اس کپ کی خوب تعریفیں کی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا مگر خریدنے سے معذرت کرلی۔ دوکاندار نے جب اس کی وجہ پوچھی تو ہٹلر نے کہا کہ یہ خوبصورت کپ میرے مقصد کا اس لئے نہیں ہے کہ یہ بائیں ہاتھ سے استعمال کے لئے بنایا گیا ہے اور کھانے پینے کے لئے بائیں ہاتھ کا استعمال ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے اگر تمہارے پاس دائیں ہاتھ سے استعمال ہونے والا کپ ہو تو وہ دکھاؤ دوکاندار اندر گیا اور اسی جیسا دوسرا کپ لا کر سامنے اس طرح رکھا کہ اس کی گھنڈی ہٹلر کے دائیں طرف تھی ہٹلر نے جب اسے دیکھا تو خریدنے کی ضرورت سے زیادہ دلچسپی دکھائی اور اس کی قیمت پوچھی، دوکاندار نے اس کپ کی قیمت پہلے والے کپ کی قیمت سے دوگنی بتائی، ہٹلر زیادہ قیمت کا بہانا بنا کر دوکان سے نکل گیا دوکاندار لاکھ اصرار کیا اور واپس بلانا چاہا مگر ہٹلر نے اس کی ایک نہ سنی باہر نکل کر وہ اپنے دوست کی طرف متوجہ ہوا اور اس کو مخاطب کرکے کہا کہ تم نے اس یہودی کی فطرت دیکھی کہ اسی کپ کو گھما کر وہ ہمیں یہ بتا سکتا تھا کہ اسے دائیں ہاتھ سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے مگر جب اس نے دیکھ لیا کہ ہم بھولے یا بیوقوف ہیں تو اس نے ہماری بیوقوفی سے ناجائزفائدہ اٹھانا چاہا اور دوگنی قیمت وصولنا چاہا، یہی اس قوم کی فطرت ہے اس قوم کی حرص اور لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہے یہ قوم جہاں جاتی ہے وہاں کے لوگوں کی سادہ لوحی کا پوری عیاری و مکاری سے فائدہ اٹھاتی ہے اور آہستہ آہستہ تمام وسائل پر قبضہ جما کر لوگوں کا استحصال کرنا شروع کردیتی ہے، اسی لیے میں اس قوم سے نفرت کرتا ہوں .
آج جس قضیہ فلسطین پر پوری امتِ مسلمہ خون کے آنسو رورہی ہے اس قضیے کی ابتدا بھی کچھ اسی مکاری و عیاری سے ہوتی ہے۔ سن 1948 سے قبل جنگ عظیم دوئم کے بعد جب پورا فلسطین برطانیہ کے زیرِ نگیں تھا اور وہاں کی اکثریت عرب مسلمانوں کی تھی، عالمی طاقتوں نے یہودیوں کو ان کے آبائی وطن کا خواب دکھا یا، فلسطین میں آباد ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی وہاں آکر آباد ہونے لگے اور منہ مانگی قیمت دیکر عربوں سے ان کی زمینیں خریدنے لگے۔ چونکہ ان کے پاس دنیا بھر کا سرمایہ تھا دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی اور پیسوں کی لالچ میں عربوں نے نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنی زمینیں ان کے ہاتھ فروخت کرنی شروع کیں۔ جب اس سرزمین پر یہودیوں کی ایک معتدبہ آبادی ہوگئی تو اقوام متحدہ کے ذریعہ اسرائیل کے نام سے ایک ملک کی ناجائز ولادت کا اعلان کر دیا گیا اور یہ منحوس و ظالم ملک آج تک جملہ عرب ممالک اور پوری امتِ مسلمہ کے لئے ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ اس سے نجات کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آتی۔
یہودی اپنے مفاد کے لئے ہر روپ اختیار کرلینے والی قوم ہے ، ظاہری طور پر ہر مذہبی لبادہ اوڑھ لینے والی قوم ہے، خانقاہ، درسگاہ سے ہوتے ہوئے محراب و منبر تک پہنچ کر ظاہر میں دین کے مبلغ داعی بننے والی اور حقیقت میں یہودی مشن کو تقویت دینے والی قوم ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے لڑ رہے تھے تو ایک شخص ایسی تقریریں کرتا تھا کہ لوگ متاثر ہو جایا کرتے تھے صلاح الدین ایوبی کے جاسوس نے بتایا کہ ایک عالم ہے جو بڑی پرمغز تقریریں کرتا ہے وہ کہتاہے کہ جنگ و جدال اور قتل و قتال سے کچھ نہیں ہونے والا ہے ہماری آبادیاں کم ہو جائیں گی کتنی گودیاں اجڑ جائیں گی بہتر ہے کہ جو جس حال میں ہے اسے رہنے دیا جائے صلاح الدین ایوبی نے اس سے ملاقات کی اور کہا کہ بتاؤ بیت المقدس فتح کرنے کا وہ کونسا راستہ ہے جس سے مسلمانوں کا کم سے کم نقصان ہو اس نے کہا صرف دعا۔ یہ سنتے ہی صلاح الدین ایوبی کا چہرہ غصے میں سرخ ہوگیا وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص محاذ پر لڑنے والے یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہے آپ نے خنجر نکالا اور اس کی انگلی کاٹ دی وہ چیخنے اور چلانے لگا آپ نے کہا کہ اپنی حقیقت بتا ورنہ گردن بھی کاٹ دوں گا۔
واضح رہے کہ یہودیوں کو عربی زبان بولنے میں بھی مہارت کل بھی تھی اور آج بھی ہے اسی وجہ سے یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یہ اتنی نمک حرام اور احسان فراموش قوم ہے کہ جب ہٹلر یہودیوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا تو جب ادھر ادھر مظاہرہ ہونے لگا اور ہٹلر پر جب کافی دباؤ پڑا تب بھی ہٹلر نے یہی کہا تھا کہ میں دنیا کے دباؤ سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں بلکہ دنیا کے سامنے اس حرام خور قوم کا چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے چھوڑ رہا ہوں اور بہت جلد دنیا ایک بار پھر دیکھے گی کہ یہودی کتنی ظالم و بے رحم و احسان فراموش قوم ہے۔
یہ قوم سود میں یقین رکھنے والی ہے، زنا کو فروغ دینے والی ہے، شراب نوشی کو بڑھاوا دینے والی ہے، اسلام اور پیغمبر اسلام سے بغض رکھنے والی ہے، مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والی ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنانے والی ہے،، ہٹلر کی بات آج صحیح ثابت ہوئی یہودیوں کو جس قوم نے پانی پلایا اسی قوم کو یہودی آج پیاسا مار رہے ہیں، جس نے کھانا کھلایا اسی کو آج بھوکا مار رہے ہیں، جس نے سر چھپانے کے لئے جگہ دی اسی کے مکانات کو آج بلڈوزر اور بموں سے ڈھارہے ہیں، جس نے قتل ہونے سے بچایا اسی کو آج یہ قتل کر رہے ہیں۔ فلسطین میں ظلم کا بازار گرم ہے آسمان کی طرف نظریں اٹھتی ہیں تو ہوائی جہاز کے ذریعے بموں کی برسات ہورہی ہے سرزمین غزہ آج مظلوم مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے آج یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا کی سب سے بہادر قوم فلسطینی مسلمان ہیں اسرائیل کے ساتھ اور یہودیوں کے ساتھ امریکہ کھڑا ہے اور اسرائیل امریکہ کی ہی ناجائز اولاد ہے اسی لئے جو بائیڈن کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوگیا اور اس کی رگوں میں یہودیت کا خون آجکل بڑی تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا ہے۔ مسلم ممالک ابھی تک مذمت کررہے ہیں، تشویش کا اظہار کررہے ہیں ان کی غیرت مرچکی ہے ضمیر مردہ ہوچکا ہے اسی لئے انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے ایک کروڑ یہودی درد سر بنے ہوئے ہیں 75 سال سے سنا جارہا ہے اور پڑھا جارہا ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے مگر محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ تمام مسلم ممالک پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور صرف فلسطین آزاد ہے اور یہودی اس پر بھی قبضہ کرنا چا ہتے ہیں۔ بالخصوص عرب ممالک عیش پرستی کی نیند سو رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ خاموش رہ کر ہماری حکومت برقرار رہے گی تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ اگر مسجد اقصیٰ مسمار ہوئی اور فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہوا تو عرب ممالک کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا اور امریکہ یہی چاہتا ہے لیکن افسوس مسلم حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں آج فلسطین کا بچہ بچہ چیخ رہا ہے کہ اے مسلم حکمرانوں جاگو اب سے بیدار ہو جاؤ یہودیت کا پنجہ مروڑ دو اور بیت المقدس مکمل طور پر آزاد کرالو، اگر آج بھی تم بیدار نہیں ہوئے تو تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور کل میدان محشر میں اللہ و رسول کے سامنے کیا منہ دکھاؤ گے-