رشید پروینؔ سوپور
ہماری کئی نسلیں یروشلم کی اہمیت اور اس سے متعلق حقائق سے بلکل بے خبر اور اسرائیلی نسلیں اپنی پوری ڈھائی ہزار برس کی تاریخ سے واقف ہیں، سائنس اورتاریخ سے انہوں نے پہلے سے ناطہ جوڑا ہے جس کا منطقی نتیجہ ہے کہ وہ اس وقت سپر پاور بھی ہے اور دنیا کے سب ممالک سے اپنی ٹیکنالوجی اور علمی لحاظ سے بہت آگے ہیں۔ تاریخ اور نسل در نسل ان تک یہ فریب، حق بناکر پہنچایا گیا ہے کہ (تحریف شد ہ صحائف) وہ دنیا کی بر گزیدہ اور خداوند کی پسندیدہ قوم ہے اور خداوند ان سے کسی بھی معاملے میں ناراض نہیں رہتا ۔ اور ان صحائف میں ان کے لئے یہ خوشخبریاں تراش لی گئی ہیں کہ جلد ہی خدائی وعدہ پورا ہوگا اور اللہ ایک مسیحا کو بھیجے گا جو اس قوم کے لئے ساری دنیا کی حکمرانی ہی نہیں بلکہ وہ سب کچھ ممکن بنادے گاجو اس قوم کی جائز اور ناجائز خوا ہشات میں شامل ہے۔ سود، شراب فحاشی، اپنے تراشے اور بنائے ہوئے سیکولر اور اپنے لئے بنائے ہوئے اپنی مرضی اور منشا پر مبنی معاشرہ تشکیل دے گا جو ان کی ہزاروں برس کے بد بختانہ مزاج کوواضح کرتا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ پہلے بھی جھوٹ تھا اور آج بھی یہ ایک بہت بڑے فریب میں مبتلا ہیں۔
قرآن کریم کا اس بارے میں کیا دعویٰ ہے؟ پہلے کچھ جملے حالیہ اور جاری حماس اور اسرائیلی جنگ پر، جو بظاہر حماس کے لئے ایک لا حاصل اور خود کشی کے مترادف معاملہ ہے ، اس کے دو ہی پہلو ہو سکتے ہیں (۱)ایک یہ کہ حماس کو کسی طرح ٹریپ کیا گیا ہے اوراگر ایسا ہے تو یہ ٹریپ ایک نیا’’ نو گیارہ ‘‘جیسا منصوبہ ہوگا۔جس کا واحد مقصد غزہ پٹی کو فلسطینیوں سے خالی کرانا ہے جو گریٹر اسرائیل کی طرف ایک اور قدم قرار دیا جاسکتا اور گریٹر اسرائیل کا مفہوم اور منزل ہی یہ ہے کہ یہاں سے ساری دنیا کی معیشت، سائنس،سماجی اقدار، تہذیب و تمدن اور ثقافت کو کنٹرول کیا جائے تاکہ اسرائیل کی جستجو پر ہی ساری دنیا کا نظام رواں دواں رہے ۔ (۲) اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس حماس کے حملے کی سوچ یہی ہے کہ سسک سسک کر مرنے سے پہلے ایک بار زندگی کی جنگ بھر پور اور ایک مکمل منصوبے کے ساتھ لڑی جائے اور اس کا انجام اللہ ہی پر چھوڑا جائے جس کے اپنے الگ منصوبے ہوتے ہیں۔
بائڈن کے اس حکمنامے کے بعد کہ اسرائیل کو زمینی آپریشن سے گریز کرنا چاہئے ۔قرین قیاس یہ ہے کہ وہ غزہ کو اسرائیل کا افغانستان نہیں دیکھنا چاہتے، پہلے نقطہ نگاہ کو آخری دجالی دور کے ساتھ ملاکر دیکھئے تو آپ کو دجال بھی نظر آئے گا اور آپ ان یاجوج ماجوج کے بھی درشن کریں گے جن کی مدد اور امداد سے یہ ساری دنیا اُس دور میں داخل ہوچکی ہے ، ’’ جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا ان پر ہم نے حرام کردیا کہ وہ وہاں نہیں جاسکیں گے ۔حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کھل جائیں اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں گے‘‘ (سورۃ الانبیا ء۹۵ ،۶)۔ واضح مطلب ہے کہ یاجوج اور ماجوج کی اعانت اور تعاون کے بغیر یہودی یروشلم میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے ان نافرمانیوں اور خباثتوں کی بنا پر جو اس قوم سے ڈھائی ہزار برس کے دوران پہلے سرزد ہوئی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہودیوں کو آخری زمانے میں ایک بار یروشلم یاجوج ماجوج کی امداد اور تعاون سے ہی حاصل ہو گا جو کہ حال میں اُن کے پاس ہے۔مسلم عقیدہ جو قرآن حکیم سے اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو سچے مسیحا ہیں اور جنہیں اللہ نے آسمان پر اٹھالیا تھا وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ، دینی اور دنیاوی سربراہ یعنی امام مقرر کئے جائیں گے اسی دین ابرہیمی کو حتمی، آخری اور دائمی دین قرار دیں گے جس کی اصل پیروی رسول پاک ﷺ نے کی۔ جب یہ ثابت ہوا کہ دین ابراہیمی ہی اصل اور آخری ہے تو باقی سارے دین خود بخود باطل ہوجاتے ہیں، اس لئے اس کا تقاضاہے کہ یروشلم صرف اور صرف دین ابرہیمی کے لئے ہی خالص رہے گا نہ کہ صیہونیت کے لئے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تاریخ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی یا قیامت برپا نہیں ہوسکتی جب تک نہ "حق” ارض مقدس پر غالب آجائے۔ خداخوف، انسان دوستی ، انصاف پسندی، زہد اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ انسان اللہ کے سامنے سربسجود ہوکر اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کردے۔ کسی اور ازم یا فلاسفی پر اٹھائی گئی سودی اور خدا بیزار حکومت قائم نہیں رہے گی اور اسی لئے تو حضرت عیسیٰؑ کو بلاشک اترنا ہے اور یروشلم ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے سچ کی تصدیق ہونی ہے اور یہی منشا الٰہی ہے۔
حضرت ابو ہریرؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کے اتریں گے، وہ صلیب کو توڈ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کا خاتمہ کردیں گے پھر دولت کی فراوانی ہوگی اور کوئی خیرات لینے والا نہیں ہو گا ‘‘
حضرت عیسیٰ کو کن لوگوں نے صلیب دی ؟ کن لوگوں نے جھٹلایا تھا ؟ جب یہود نے حضرت عیسیٰ کو جھٹلایا ، انہیں مسیح تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پھر اس پر گھمنڈ کیا کہ انہوں نے انھیں قتل کیا ہے اور اس کے باوجود آسمانی صحائف میں تبدیلی کرکے ا ہل یہود کو اپنے علماء نے ا س فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم آئیں گے جو یہودیوںکے لئے ایک دائمی اور مستقل حکومت قائم کریں گے۔ حضرت عیسیٰ ؑضرور آئیں گے لیکن کیا وہ سودی اور اللہ بیزار حکومت کی تشکیل کیلئے آئیں گے ؟
اسرائیل غزہ پٹی کو سرے سے مٹادینے کا عزم کئے ہوئے ہے ،جیسا کہ ان کے وزیر اعظم نے کئی بار اپنے ٹی وی پر اس طرح کے کئی بیانات دئے ہیں اور یقینی طور پر جس طرح غزہ پٹی پر بمباری ہورہی ہے اور ایک بہت بڑے پیمانے پر گراونڈ آپریشن کی بات کی جارہی ہے اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل اس پٹی ہی کو نیست و نابود کرنے کا تہیہ کر چکا ہے ،یہ ان کی جنگی قوت اور صلاحیت پر غرور اور گھمنڈ کی عکاس ہے اور یہ غرور اس جھوٹ کا جو کتاب ’’استثناء‘‘ میں تحریف کا نتیجہ ہے جہاں اسرائیلی نسلوں کو صدیوں سے یہ پڑھایا جارہا ہے کہ ’’ اس لئے جان لو کہ تمہاری راست روی سے تمہارے خداوند نے یہ اچھی سر زمین نہیں دی ہے بلکہ ا س لئے دی ہے کہ تم گردن اکڑانے والے لوگ ہو ‘‘ سبحا ناللہ ؟ کہاںیہ کہ غرور او ر گھمنڈ اللہ کے نزدیک سب سے ناپسند اور ناقابل معافی جرم اور کہاں یہ کہ اسی جرم کی پاداش میں انہیں سر زمین پاک سے نوازا جارہا ہے ، یہاں تو خاکم بدہن اللہ کے بہترین ’’عدل اور عادل ہونے پر ‘‘اور قائم کی ہوئی میزان پر ہی سوالیہ نشان لگتا ہے۔ایسی ہی تحریفات کی وجہ سے اس سر کش اور متکبر قوم کو اتنی سخت سزا ملے گی کہ تاریخ میں ایسی بد ترین سزا کسی قوم کو نہیں ملی ہوگی۔ تاریخی لحاظ سے یہ ثابت ہے کہ یہودیوں کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار اپنے اس طرز عمل کی بنیاد پر اس سر زمین پاک سے بے دخل کیا گیا ہے۔۔ پہلی بار انہیں ۵۸۷ قبل مسیح بیبلون کی فوج نے جو بخت نصر کی کمان میں تھی نکالاگیا تھا۔یرو شلم کو ملبے کا ڈھیر بنادیا اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو غلام بنا کر لے گیا ۔دوسری بار انہیں اپنے انبیاء کو قتل کرنے پر یہ سزاملی جب انہوں نے حضرت ذکریا علیہ السلام کو مسجد کے اندر گھس کر قتل کیا اور ان کے بیٹے حضرت یحیٰ کو بھی دھوکے سے قتل کیا بلکہ انہیں ہر بار کبھی رومیوں تو کبھی بخت نصر کے ہاتھوں قتل عام سہنے پڑے ہیں اور قرآن ہی واضح کرتا ہے کہ جب بھی یہ قوم ان حرکات کو دہرائے گی ان کی سزا کو دہرایا جائے گا (سورہء بنی اسرائیل ۸)۔
بہر حال ظاہری آنکھ اور عقل کی کسوٹی پر دیکھا جائے توحماس اور اسرائیلی جنگ واقعی غلیل اور راکٹ کے درمیان معرکہ آرائی ہے، ’’بس مسلم آزمائے جائیں گے ‘‘۔یہ وعدہ مسلم ہے ‘ اور اس کے لئے لازمی طور پر اس قوم کا ایک جگہ ایک ٹھکانے پرجمع ہونا لاز می ٹھہرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اس سر زمین میں یکجا کئے جارہے ہیں اللہ کی منشا کے مطابق ۔۔لیکن اس وقت مسلم دنیا بھی آزمائی جارہی ہے کہ کون حق کے ساتھ اور کون شیطان سے ڈر کر اپنے سونے کے محلات میں دبک کر مست و مدہوش رہنا پسند کرتا ہے ۔دیکھا جائے توتمام مسلم ممالک نے اب عملی طور پر مظلوم فلسطینیوں کو بے یارو مدد گار چھوڑا ہے اور ان پر جو ظلم و جبر اور قہر سامانیاں لمحہ بہ لمحہ ڈھائی جارہی ہیں ان سے کوئی بھی مسلم ملک اور مسلماں بے بہرہ نہیں ، لیکن کسی بھی نام نہاد مسلم ملک میں یہ قوت اور ہمت ہی نہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے اور اگر کسی نے آواز اٹھانے کی ہمت دکھائی تو اس ملک ہی کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ کیا یہ دور اپنی اصل اور عملی شکل میں دجالی دور نہیں؟ باقی رہے یہ ’’بیانات‘‘ تو یہ سب فکسڈ میچ کے معاملات ہی ہوتے ہیں، افسوس کہ یہ لوگ کبھی اپنے نبی برحقﷺ اور قرآن کریم میں واضح طور قوم یہود سے متعلق پیش گوئیوں اور ماضی و حال کے عمل کو نہ پہچانتے ہیں اور نہ اپنی بے پناہ’’ دجالی‘‘ مصروفیات کی وجہ سے ان پر غور کرنے کی فرصت پارہے ہیں ،اس کا راز کیا ہے؟
سفر معراج کے دوران رسول پاک ﷺ نے یروشلم جہاں بیت المقدس میں انہوں نے تمام پیغمبروں کی امامت کے فرائض انجام دئے ( جو ایک اہم پیغام ہے )وہاں آپ ﷺ نے یہود کے ارض مقدس میں لوٹ آنے، ان کے فساد و فتنہ ،ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا، حضرت عیسیٰ ابن مریم کی واپسی دیکھی اور اسرائیلی ریاست کی آخر پر، اختتام وقت کے قریب اس خدا بیزار ریاست کی تباہی دیکھی اور آپ ﷺ نے سچائی، انصاف، راست روی اور ایک فلاحی اور انسان دوست معاشرے کا مشاہدہ بھی کیا جو دین ابراہیمی کے نفاظ کے بعد یہاں قائم ہوگا ۔
یہ شہا دت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔۔۔۔
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا