جاوید اختر بھارتی
سن 1948 سے قبل دوسری جنگ عظیم کے بعد جب پورا فلسطین برطانیہ کے زیرِ نگیں تھا اور وہاں کی اکثریت عرب مسلمانوں کی تھی عالمی طاقتوں نے یہودیوں کو ان کے آبائی وطن کا خواب دکھا یا فلسطین میں آباد ہونے کی ترغیب دی چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی وہاں آکر آباد ہونے لگے اور منہ مانگی قیمت دیکر عربوں سے ان کی زمینیں خریدنے لگے چونکہ ان کے پاس دنیا بھر کا سرمایہ تھا دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی اور پیسوں کی لالچ میں عربوں نے نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنی زمینیں ان کے ہاتھ فروخت کرنی شروع کیں جب اس سرزمین پر یہودیوں کی ایک معتدبہ آبادی ہوگئی تو اقوام متحدہ کے ذریعہ اسرائیل کے نام سے ایک ملک کی ناجائز ولادت کا اعلان کر دیا گیا اور یہ منحوس و ظالم ملک آج تک جملہ عرب ممالک اور پوری امتِ مسلمہ کے لئے ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ اس سے نجات کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آتی۔
ایک بڑا مشہور لفظ ہے بڑا مشہور جملہ ہے جسے مذمت کے نام سے جانا جاتا ہے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی توپ یا توپ خانے کا نام مذمت ہے ، کسی فوجی دستے کا نام مذمت ہے ، کسی اسلحے کا نام مذمت ہے ، کسی بڑی کاروائی کا نام مذمت ہے ، منہ توڑ جواب دینے کا نام مذمت ہے لیکن جب اس پر گہرائی سے غور کیا گیا تو پتہ چلا کہ بس ایک مشہور جملے کا نام مذمت ہے،، کسی نے کسی کے مذہب کی توہین کردی تو اس کی مذمّت ہوگئی ، کہیں ہجومی تشدد کی واردات ہوگئی تو اس کی مذمّت ہوگئی ، کہیں کسی کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو اس کی مذمّت ہوگئی ، یہاں تک کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس کی مذمّت ہوگئی ، افغانستان پر حملہ کیا تو اس کی مذمّت ہوگئی ، یہاں تک کہ آج کل فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کردیا تو اس کی مذمّت ہوگئی اور آج بھی وحشیانہ بمباری جاری ہے ، بستی کی بستی اور آبادی کی آبادی کا نام و نشان مٹ گیا، بڑی تعداد میں بچے جوان بوڑھے کو موت کے گھاٹ اتار دیا، نہ جانے کتنی خاندان کا خاتمہ ہوگیا، انسانیت چیخ رہی ہے فلسطین میں ، اسرائیل قتل وغارت گری کرہا ہے فلسطین میں عبادت گاہوں پر بمباری ، اسپتالوں پر بمباری ، چھوٹے چھوٹے بچے اور خواتین پر بمباری غرضیکہ سرزمین فلسطین خون سے لالہ زار ہے زمین پر لاشیں پڑی ہوئی ہیں تباہ شدہ بلڈنگوں کے ملبے بکھرے ہوئے ہیں اور فضاؤں میں اڑتے ہوئے جہاز کمزور و نہتے فلسطینیوں پر مظلوموں پر بم برسا رہے ہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے اندر بے چینی ہے اسرائیل و یہودیوں کے تئیں غصہ ہے ناراضگی ہے اور 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مذمت کا سلسلہ جاری رکھا ہے فلسطینی مسلمان بارود کے ڈھیر پر ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ اسرائیل ظلم و بربریت کا مظاہرہ نہ کرے۔ اسرائیل کا حوصلہ بلند ہے ظلم و ناانصافی قتل وغارت گری و مکاری اس کی فطرت میں داخل ہے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اس کے سینے میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا ہے امریکی وزیرخارجہ نے اسرائیلی وزیراعظم کی پیٹھ تھپتھپائی ہے امریکی صدر جو بائیڈن نے شاباشی دی ہے برطانیہ نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی ہے اور یہ دونوں ممالک نے اسرائیل کو مزید فوجی و جنگی ساز و سامان دینے کی یقین دہانی کرائی ہے اور 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیے کسی ایک بھی مسلم ملک کا سربراہ تو چھوڑیں کوئی وزیر بھی فلسطین نہیں گیا بس بیان بازی، تشویش اور مذمت کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ آخر انہیں کس کا ڈر ہے امریکہ کا ، یا برطانیہ کا یاکہ پھر صرف اور صرف دولت ، عیش پرستی اور اپنی حکومت پیاری ہے۔ اگر امریکہ کا خوف ہے تو اس کا مطلب کہ خدا کی ذات پر بھروسہ نہیں اور دولت و حکومت پیاری ہے، مسلم حکمرانوں کے اندر بزدلی نظر آتی ہے ان کے اندر موت کا ڈر ہے اسی لئے تو کتنوں نے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا حالانکہ موت تو آنی ہی ہے چاہے اسرائیل کو خوش کریں یا نہ کریں۔
آج فلسطین میں بے شمار مساجد کو اسرائیل نے شہید کردیا ایک رپورٹ کے مطابق 2008 سے اب تک اسرائیل نے ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے جس میں 33 ہزار کی تعداد بچوں کی ہے اور اب جو حال ہے فلسطین کا وہ خون کے آنسو رونے والا ہے امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی سرپرستی کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ قوم جو نسل کشی کا شکار ہو چکی ہے وہ آج مسلمانوں کی نسل کشی پر تلی ہوئی پھر بھی مسلم ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے غیرت انسانی اور غیرت ایمانی کا خاتمہ ہوچکاہے ،، یاد رکھیں آج نہیں تو کل اپنی باری کا بھی انتظار کریں کیونکہ بھلے مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے لیکن ان کی حیثیت مرغوں اور مرغیوں کی جیسی ہے پنجرے سے جس مرغے کو نکالا جاتا ہے وہی چیختا ہے اور وہی پھڑپھڑاتا ہے باقی دوسرے سارے خاموش رہتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باری باری سب کٹ جاتے ہیں کہیں یکے بعد دیگرے مسلم ممالک کا بھی یہی حال نہ ہوجائے۔
ایک بات اور ہے کہ اکثر وبیشتر لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ مسلمان بہت رحم دل ہوتا ہے ، بڑا ہمدرد ہوتا ہے یہ کسی مظلوم شخص پر بہت جلد ترس کھاجاتا ہے تو یاد رکھیں ہمدردی کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے اور کوئی معیار ہوتاہے ذاتی مفاد پر مبنی ہمدردی کے نتائج اگر اچھے ہوئے تو وہ دیرپا نہیں ہوتے اور کسی کے ساتھ ہمدردی ایسی کرو کہ فرمان نبی کی خلاف ورزی ہوجائے تو اس کا سنگین خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس روئے زمین پر جب رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کی کھلی خلاف ورزی ہوگی تو اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ یہود ونصاریٰ تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ یہودیوں کو کہیں جمع نہ ہونے دینا اور ساتھ ہی مدینہ منورہ ان سے خالی کرایا گیا تو پھر جب ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کرایا تو دردر بھٹک رہے تھے دنیا کا کوئی ملک ان کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا جہاں جاتے وہاں سے بھگائے جاتے لیکن فلسطینیوں نے انہیں پناہ دی تو گویا قرآن کی بھی خلاف ورزی ہوئی اور نبی پاکؐ کے فرمان کی بھی خلاف ورزی ہوئی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے –
آج فلسطینی مسلمانوں پر جو گزر رہی ہے وہ انہیں کے دل سے پوچھنے کے قابل ہے یقیناً ان کے دل و دماغ میں یہ بات تو آتی ہی ہوگی کہ دنیا میں 57 مسلم ملک ہیں آخر ان کے پاس بھی کم و بیش فوجیں ہیں کیا کسی بھی مسلم ملک کے حکمراں و افواج کو فلسطین کا راستہ معلوم نہیں یا ان کے سینے میں کل مومن اخوہ کے تحت درد نہیں ہمدردی نہیں ؟ اگر ہے تو پھر کیا اس کا اظہار کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے ؟
ایسی صورتحال میں بھی فلسطین کو بچانے کے لئے ، مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لئے اور وہاں کے مسلمانوں کو نسل کشی سے بچانے کے لئے مسلم ممالک متحد ہوکر اسرائیل کا منہ توڑ جواب نہیں دیتے ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جائے گا کہ مقامی و ملکی اور عالمی سطح پر نہ مسلمانوں کی کوئی قیادت ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ اتحاد ہے بلکہ مسلمان ہر شعبے ہر میدان میں مفلوج ہے اس کا ہر دعویٰ اور وعدہ کھوکھلا ہے یہ جیتا ہے اپنے لئے اور مرتا ہے اپنے لئے،، مسلمان ہوکر مسلمان کو اسلحے سے قتل کرتا ہے اور اسرائیل کو دعاؤں و بدعاؤں سے مارنا چاہتا ہے –