245

اب سے نہ سمجھو سیاست کو شجر ممنوعہ !

جاوید اختر بھارتی

آجکل لفظ سیاست سے بہت سے لوگ گھبرا جایا کرتے ہیں اور کچھ لوگ تو مخالفت کرنے لگتے ہیں کچھ لوگ منہ بگاڑنے لگتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب دیکھو سیاست ہی کی بات کرتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے کسی بہت ہی غلط کام کا ذکر کرتے ہیں جبکہ بغیر سیاست کے ہم اپنے حق حقوق کی پہچان بھی نہیں کرسکتے اور اس کے تحفظ کی آواز بھی بلند نہیں کرسکتے ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں کی آج کے دور میں کوئی پہچان نہیں ہے دوسری طرف یہی مسلمان دلیل دے گا کہ ارے سیاست کرنا اچھے لوگوں کا کام نہیں ہے کیونکہ سیاست گندی ہوگئی ہے اب سیاست کی دنیا میں اچھے لوگوں کا کام نہیں ہے،، انسان کے جسم پر لباس گندا ہوجاتاہے تو کیا لباس بدلا نہیں جاتا بالکل بدلا جاتاہے اور گندے لباس کو دھل کر صاف کیا جاتا ہے دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ لباس گندا ہوگیا اب لباس نہیں پہننا چاہئے،، اسی طرح سیاست کی دنیا میں بھی جو غلاظت آگئی ہے چاہے وہ لوٹ کھسوٹ کی شکل میں ہو یا تعصب و تنگ نظری و نفرت کی شکل میں ہو، چاہے فرقہ پرستی کی شکل میں ہو یا غنڈہ گردی کی شکل میں ہو اسے بدلا جاسکتاہے اور ملک و ملت کے مستقبل کو روشن کیا جاسکتاہے فرقہ پرستی غنڈہ گردی اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے مگر پہلے سیاست کے میدان میں آنا ہوگا اور آج کے دور میں جو صورتحال ہے تو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان سیاست میں پوری سرگرمی کے ساتھ حصّہ لے تبھی نظام میں تبدیلی لایا جاسکتا ہے، عبادت گاہوں اور درسگاہوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اس بات کا ذکر تو خوب کرتا ہے کہ عروج کے ساتھ زوال بھی ہے، ہر رات کو صبح کا سامنا کرنا ہے اس لئے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ حالات کا سامنا کرنا چاہئے اور مستعدی کے ساتھ مقابلہ بھی کرنا چاہئے لیکن ہاں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں کہ عوام کو ان لمحات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں یہ انسانی فطرت ہے ہاں ان لمحات میں بھی عوام کو جب کچھ میسر نہیں ہوتا ہے تو جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور بے بسی بھی ظاہر کرنے لگتا ہے۔ مسلمان مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک انتخابات میں کسی نہ کسی کو ووٹ دیتا ہے تو اس سے یہ امید بھی لگائے رہتا ہے کہ ہمارے اوپر کوئی پریشانی آئے گی یا ہماری زندگی میں کوئی مسائل درپیش آئیں گے تو ہم نے جسے اپنی رہنمائی کے لئے منتخب کیا ہے تو وہ ضرور ہماری رہنمائی کرے گا اور ہمارے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ مسلمان اس وقت یہ بھول جاتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا ایک نظریہ ہوتا ہے ایک گائڈ لائن ہوتی ہے وہ جب بھی کام کرے گا تو اپنی پارٹی کے اصول ضابطہ کے مطابق ہی کرے گا اس سے ہٹ کر وہ کوئی کام نہیں کرے گا-
مسلمانوں کی سیاست سے اس قدر دوری ہوگئی کہ اب دوسرے سماج کے لوگ طعنہ بھی مارنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی پہچان نہیں اور مسلمانوں کا کوئی لیڈر نہیں اور کوئی قیادت نہیں کبھی سکھ مذاہب کے لوگ للکار تے ہیں تو کبھی بہار کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ للکارتے ہیں بہار کے ایک سماجی رہنما اکثر و بیشتر کہاکرتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد 18 فیصد ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں نے اپنا ایک لیڈر پیدا نہیںکیا تھوڑا ان کا انداز تلخ ہوتا ہے مگر سچائی بھی یہی ہے-
مسلمان خود مسلمان کی قیادت پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایم آئی ایم، پیس پارٹی، مسلم فورم یعنی جو بھی سیاسی پارٹی تشکیل پاتی ہے تو اسے بی جے پی کی بی ٹیم کہہ دیاجاتاہے اور اس کے لیڈر کو بی جے پی کا ایجنٹ کہہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد کبھی سماجوادی پارٹی تو کبھی بہوجن سماج پارٹی تو کبھی کانگریس پر بھروسہ کرلیا جاتا ہے۔ مطلب کوئی اپنا آئے تو ایجنٹ اور غیر آئے تو وہ لیڈر، جبکہ یہ بھی سچائی ہے کہ مذکورہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو صرف ووٹ بنک سمجھتی ہیں خود ان کی پارٹی میں کوئی مسلم لیڈر قوم و ملّت کی بات کرتا ہے تو فوراً اس کے پروں کو کتر دیا جاتا ہے۔ یہ پارٹیاں مسلمانوں کی کتنی ہمدرد ہیں یہ نئی سیاسی صف بندی سے بھی پتہ چلتا ہے کیونکہ انڈیا اتحاد میں کسی بھی مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی کو جگہ نہیں دی گئی ہے اسی سے واضح ہوتا ہے کہ ان پارٹیوں کو مسلمانوں کا صرف ووٹ پیارا ہے قیادت نہیں بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ کوئی مسلم قیادت ابھرنے نہ پائے گھوم پھر کر معاملہ پھر اپنے ہی گریبان کی طرف آتا ہے کہ جب مسلمان خود اپنی قیادت تسلیم کرنے کو راضی نہیں ہے تو دوسرا کہاں سے اور کیسے مسلم قیادت تسلیم کرے گا-
بھارت میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی لیکن مسلمانوں کا کوئی لیڈر نہیں لیکن مسلمان نہ جانے کب اس پہلو پر غور کرے گا اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہوگا۔ کبھی مدارس نشانے پر آتے ہیں تو کبھی سی اے اے کا جن بوتل سے باہر نکلتا ہے یعنی مسلمانوں کے سروں پر آئے دن تلوار لٹکتی رہتی ہے، حالانکہ بھارت میں سیاسی پہچان بنانا اور سیاسی پارٹی بنانا جتنا آسان ہے اتنا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے اور یہ آسانی و سہولت آئین کے ذریعے حاصل ہے اسی وجہ سے تو کہاجاتاہے کہ ماسٹر چابی کا نام سیاست ہے جمہوری نظام میں ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے سیاست کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سیاست ہی لائحہ عمل ہے اور سیاست ہی حکمت عملی ہے اور اسی سے قانون بنتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ جب کوئی طبقہ کوئی سماج سیاسی گلیارے سے دوری رکھے گا تو وہ اپنے روشن مستقبل کے لئے قانون کیسے بنائے گا یا بنوائے گا،، نتیجہ یہ ہوگا کہ خود اسی کے خلاف مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ آج دیکھ لیجیے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں کبھی اشتعال انگیزی کبھی موب لنچنگ کبھی مختلف الزامات غرضیکہ مسائل کے انبار لگے ہیں روزی روٹی کے مسائل سے بھی مسلمان گھرا ہوا ہے مندر و مسجد کے نام پر سیاست ہورہی ہے ایک وقت میں رام مندر کا نعرہ دیکر حکومت بنانے کی کوشش کی گئ اور اب رام مندر کا افتتاح کرکے حکومت بچانے کی کوشش کی جارہی ہے مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو ابھار کر بھی سیاست کی جانے لگی اور مذہب کے نام کی ایسی گھٹی پلادی گئی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری، بدعنوانی سب پر پردہ پڑجاتا ہے بی جے پی حکومت کے فیصلے کے خلاف بولنے پر جیل کی سلاخوں کا مزا چکھنا پڑتا ہے پورے ملک میں یہ ذہن سازی کی جارہی ہے کہ بی جے پی اور حکومت کے خلاف بولنا ملک کے خلاف بولنا ہے جبکہ آئین کی رو سے دیکھا جائے تو حکومت کا وفادار ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ملک کا وفادار ہونا ضروری ہے-
چاہے یوم جمہوریہ ہو یا یوم آزادی مسلمان اپنے مکان سے لے کر مدارس تک انتہائی جوش و خروش کے ساتھ پرچم کشائی کرتاہے تحریک آزادی کی تاریخ بیان کرتا ہے اور مجاہدینِ آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے لیکن پھر بھی سماج دشمن عناصر مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کی انکھوں پر تعصب و نفرت کی عینک چڑھی ہوئی ہے اس لئے انہیں حقیقت نظر ہی نہیں آتی اور مسلمانوں کو بھی یہ تہیہ کرلینا چاہئے کہ تعصب کے اندھیرے میں بھی کامیابی کا راستہ ہموار ہوگا مگر ہاں بار بار آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات کرکے نہیں، ان کے ہاتھوں سے تسبیح بنٹواکر نہیں، مخصوص مذہبی یاتراؤں پر پھول برساکر نہیں، کل مذہبی اجلاس و اسٹیج کا انعقاد و اہتمام کرکے نہیں بلکہ سیاسی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ملک کی آزادی سے لے کر آج تک کے حالات پر نظر دوڑائیں اور غور کریں تو وہ تمام چھوٹے چھوٹے سماج جو کل تک گمنام تھے مگر آج ان کی سیاسی پہچان بنی ہوئی ہے مسلمانوں کو بھی وہی طرز عمل اپنانا ہوگا۔ آج بھی نفرت و تعصب کے اندھیرے میں کامیابی کے چمکتے ہوئے ستارے بھی نظر آتے ہیں بشرطیکہ دیکھنے کے لئے سیاسی چشمہ کا استعمال کرنا ہوگا –

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں