32

انتخابات … اور دوسرے مرحلے کے رحجانات

رشید پروینؔ سوپور

اس سے پہلے کہ کہ دوسرے مر حلے کے حال احوال پر بات کی جائے ایک دلچسپ آفر ہے ، شری امیت شاہ نے مینڈھر کے ایک جلسے میں اپنے پارٹی امید وار کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ بڑی آفر دی کہ ’’ہم گھر کی عمردراز خاتوں کو سالانہ اٹھارہ ہزار روپیہ، عیداور محرم کے موقعوں پر دو گیس سیلنڈر مفت فراہم کریں گے ‘‘ آفر ہے ،قبول کرنا، اس پر یقین کرنا عوام کا کام ہے، تو جشن جمہوریت کے دوسرے مر حلے کا بھی اختتام ہوچکا ہےاور یہ جشن کسی کام کا ہو کہ نہ ہو لیکن بڑی مدت کے بعد عوام ہنس رہے ہیں، سڑکوں پر بے خوف و خطر اچھل کود رہے ہیں، ڈانس اور اپنی مرضی کا رقص کر رہے ہیں اور جو ان پارٹیوں کے ساتھ دھاڑی پر نعرے بازی بھی کر رہے ہیں اور اپنے مخالفین کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بھی ہر لمحے تیار رہتے ہیں ، یہ جانے بغیر کہ ان کے مخالفین کیا کہتے ہیں ،؟ کیوں کہتے ہیں ؟ بس وہ ادھر یا اُدھر انگیج ہو چکے ہیں اور یہ فصل بھی صرف کچھ دنوں تک ہی کاٹنے کے قابل ہوگی۔ یہ وہ سب جانتے ہیں ،اس لئے جو کچھ کھانا پینا اور کمانا ہے یہی چند دن ہیں اور پھر سب اپنی اپنی راہ لیں گے اور چند خوش قسمت اسمبلیوں کی راہ لیں گے جہاں ان کی تقدیر میں بس عیش ہی عیش لکھے جا چکے ہیں ۔
سو پہلے مرحلے کے بعد یہ دوسرا مر حلہ بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور یہ مر حلہ بھی اپنے منطقی انجام تک اپنا سفر پورا کر چکا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس بار اس الیکشن میں واقعی ایک بہت بڑا جشن چل رہا ہے کیونکہ اس بار کے انتخابات ہر لحاظ سے ریکارڑ بنا رہے ہیں، یعنی انکرس کی زباں میں اس الیکشن کی ہر نیوز بریکنگ نیوز ہے اور ہر پہلو اپنا ایک نیا ریکارڑ بنا رہا ہے اور ہر لمحہ تاریخی ہے۔ اس دوسرے مرحلے میں ۲۶ سیٹوں پر ۲۳۹ امیدوار’’امید ‘‘ سے ہیں۔ نشستیں صرف ۲۶ اورامیدوار ۲۳۹۔ کیا یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک انار پر سو بیماروں کی نگاہیں ہیں۔ دیکھئے کوچۂ جاناں سے کس کے نام پیام آتا ہے۔ بہرحال اس دوسرے مرحلے میں راجوری ، پونچھ، ریاسی،گاندربل ، سرینگراور بڈگام ضلعوں کے اسمبلی حلقوں کے لئے یہ ریکارڈ تعداد امیدوار ہیں۔کشمیر میں پندرہ اسمبلی حلقوں اور جموں ڈویژن میں ۱۱ حلقوں پر ووٹ ڈالے جا چکے ہیں اور اس طرح سے ایک ریکارڈ توڑ معاملہ ہی کہا جاسکتا ہے ،مجموعی طور پر وؤٹنگ کی شرح فیصد ۵۶ رہی ہے ، سب سے زیادہ وؤٹ ۷۲ فیصد ریاسی میں اور سب سے کم یعنی ۲۷ فیصد سرینگر میں ریکارڈ ہوئی ہے۔ان انتخابات کا یہ بھی ریکارڈ ہی ہے کہ کہیں سے کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہیں۔
کشمیر کے جن ۱۵ حلقوں میں ووٹنگ ہوئی ہے اور ان حلقوں میں امید واروں کی فہرست یوں ہے ، کنگن حلقہ میں ۶ امیدوار ،گاندربل میں ۱۵ امیدسے ہیں۔ آپ کو شاید یاد ہی ہوگا کہ یہ گاندر بل حلقہ کسی زمانے میں مرحوم شیخ صاحب کی الیکشن جاگیر بھی کہی جاتی تھی کیونکہ یہاں ان کے مقابل اور فاروق عبداللہ کے مقابل بھی کسی ایک شخص یا پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہاں ایک ہی رنگ ہوتا تھا اور ایک ہی نشان دکھائی پڑتا تھا جس سے سے ’’ہل ‘‘کہا جاتا ہے اس لئے یہ دونوں باب بیٹے کی ایک محفوظ اور الاٹ شدہ سیٹ سمجھی جاتی تھی ،لیکن اب دیکھئے کہ ہواؤں کا رُخ اور وقت کے بہاؤ نے گاندربل کی سیٹ کو بھی این سی کے لئے غیر محفوظ کیا ہے اور یہاں آج اس الیکشن میں ۱۵ امیدوار ایک سیٹ کے لئے لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر عبداللہ جو اس حلقے سے انتخابات میں ہیں، نے دوسری جگہ بڈگام سے بھی اپنا فارم بھر دیا ہے اور یہاں سے بھی الیکش لڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت بل کاحلقہ ہے، یہاں ۱۳امیدوار کنٹیسٹ کر رہے ہیں، خانیار حلقہ میں دس افراد الیکشن لڑ رہے ہیں، خانیار کی سیٹ نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر کی سیٹ ہے یہاں سے وہ مسلسل اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں اور اس بار یہاں بھی دس امیدوار وں میں مقابلہ ہے۔ اس کے بعد حبہ کدل کا حلقہ آتا ہے یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ علاقہ ہندو برادری سے منسوب ہے ، اس لئے کہ یہاں بہت بڑی تعداد ہندؤں کی بودو باش رکھتی تھی ، لیکن ۹۰ کی دہائی میں یہ لوگ چند دنوں کے لئے یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں جا بسے تھے اور پھر اب تک واپس ہی نہ آسکے جس کے لئے بہت سارے سیاسی اور سماجی عوامل ذمہ دار ہیں۔ بہرحال اس حبہ کدل حلقے میں ۱۰ امیدوار ہے اور ان میں ہندو امیدواروں کی تعداد ۶ ہے۔ لال چوک حلقہ میں بھی اسی طرح ۱۰ امیدوار الیکشنوں میں حصہ لے رہے ہیں، چھانہ پورہ حلقے میں ۸ ،زڈی بل میں ۱۰ ،عید گاہ میں ۱۳، شالہ ٹینگ ۱۳، بڈگام ۸، بیروہ ۱۲، خان صاحب ۱۰ ،چرارِ شریف ۱۰ اور چاڈورہ میں ۶ امیدوار ہیں۔ ضلعوں کے لحاظ سے سرینگر میں ۹۳ ،ضلع بڈگام ۴۶ راجوری ۳۴ ضلع پونچھ ۲۵ گاندربل میں ۲۱ اور ریاسی میں ۲۰ امیدوار کی تقدیریں مشینوں میں بند ہوچکی ہیں۔
وؤٹنگ کی ٹا ئمنگ ۷ بجے صبح سے شام ۶ بجے تک تھی اور بعد میں سرکل میں جتنے بھی لوگ ہوتے ہیں وہ وؤٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ سرینگر میں امید واروں کی بھر مار نے ووٹر کو تھوڑا سا مایوس کیا ہے جو کم شرح وؤٹنگ کی وجہ بنی ہے۔ اب یہ بات کہ اس الیکشن میں امیدواروں کی بھر مار اور اس ریکارڈ توڑ تعداد کے پسِ منظر میں کیاہے ، بہ ظاہر جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے ، جن میں این سی، پی ڈی پی، کانگریس، اور سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی کے امیدواروں کا تعلق ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے عوام میں متعارف ہیں یا تو وہ ان پارٹیوں کے صف اول کے ورکر ہیں، یا سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں جو تیس چالیس برسوں سے اسی سیاسی پچ پر بیٹنگ ، باؤلنگ کرتے رہے ہیں اس لئے لوگ انہیں جانتے ہیں، ان میں سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ دو نشستوں پر گاندربل اور بڈگام دونوں جگہوں پر سخت مقابلے میں ہیں۔ بڈگام میں ان کے مقابل رکن پارلیمنٹ آغا رو ح اللہ کے چچا زاد بھائی آغا سید منتطر ہیں۔جموں و کشمیر کانگریس کمیٹی کے صدر طارق قرہ، سید الطاف بخاری، جیل میں مقید سرجان احمد وگے المعروف سر جان برکاتی، این سی کے سینئر لیڈر علی محمد ساگر ، عبدالرحیم راتھر، بی جے پی لیڈر اعجاز حسین ،ذالفقار چودھری اور سید مشتاق بخاری قابل ذکر ہیں۔یہ اور ان کے علاوہ بھی کئی ایسی شخصیات ہیں جنہیں کہیں نہ کہیں کسی طرح کی پہچان ہے ،لیکن ابھی تک اس بات کی تشریح اور توضیح نہیں ہو رہی ہے کہ امیدواروں کی مشروم گروتھ کا سلسلہ کیوں چلاہے کیونکہ یہ نہ صرف سرینگر کے لئے ہی مخصوص تھا بلکہ وادی کی ہر سیٹ پر بے شمار لوگوں نے نامزدگیاں داخل بھی کیں اور الیکشن فرے میں بدستور بنے رہے۔ عام آدمی بس بڑی جلدی میں کہہ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے ان لوگوں کے تار ہلائے گئے ہیں اور ان کی ڈوریاں بھی کہیں اور ہیں ۔اسی لئے اتنی تعداد میں امیدوار کھڑے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وؤٹ تقسیم در تقسیم ہوکر وہ نتائج سامنے لائیں گے جن کی کسی کو بھی توقع نہیں ہوگی۔ اس مفروضے میں یہ بات واضح نہیں ہورہی کہ جس کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہیں وہ کس کو جتانا یا کس کو ہرانا چاہتا ہے کیونکہ وؤٹ کی تقسیم سے ہر امیدوار تذبذب اور غیر یقینی صورتحال سے جھوج رہا ہے سوائے ان چند امیدواروں کے جو ایسے حلقوں میں ہیں ، ایسی پارٹیوں سے ہیں جن کی بنیادیں یہاں گہری اور مضبوط ہیں اور ان میں سوائے این سی کے اور ایسی کوئی تنطیم نہیں جو گھاٹی میں شاید اپنی شان رفتہ کو بحال کر نے میں کامیاب ہوجائے۔ پی ڈی پی دو ہزار چودہ میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار چکی ہے اور بی جے پی کے ساتھ اپنے تعاون کے حق میں جو محبوبہ جی دلائل دے رہی ہیں عوام سمجھتی ہے کہ ان میں کوئی وزن نہیں۔ این سی سے لوگ اوب چکے تھے اور ایک نئی سیاسی پارٹی یا سیاسی افق کی تلاش میں عوام نے متبادل کے طور پر پی ڈی پی کو آزمایا تھا ، لیکن بی جے پی نے اس پارٹی کی چولیں ہی ہلادیں اور اب اس پارٹی کااس انداز میں پھر ایک بارمنظم متحد اور قوت میں آنا فی الحال ممکن نہیں۔ اب رہی این سی کی بات تو انہوں نے شروع سے کشمیری عوام کا استحصال بھی کیا ، فریب میں بھی رکھا ہے ، صحرانوردیاں بھی کرائی ہیں اور پھر اندرا عبداللہ ایکارڑ کی صورت محض چیف منسٹری پر اکتفا بھی کیا ہے ، لیکن ان کی یہ ساری خطائیں اس لئے معاف ہیں کہ کہتے ہیں کسی درویش نے اپنے ایک عقیدت مند کو جو تمباکو اور چرس بیچا کرتا تھاایک تعویز دیا تھا اور اس تعویز کے باندھنے سے دکان پر گاہکوں کی لائن لگ گئی ، بڑی مدت کے بعد دکاندارنے سوچا کہ چلو دیکھیں بابا نے آخر اس تعویز میں لکھا کیا ہے ، کھولا ، اس پر لکھا تھا ’’اے لوگو تمباکو پینا گناہ ہے لیکن اب پینا ہے تو اسی د کان سے خرید کر پی لو ‘‘ اس لئے لوگ اسی دکان سے تمباکو ، چرس پینے کے لئے مجبور بھی ہیں کیونکہ انہیں کہیں سے متبادل نظر ہی نہیں آتا۔ ان انتخابات میں امیدواروں کی بھر مار کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اب کہیں سے کوئی بائیکاٹ کال نہیں بلکہ بائیکاٹ کال دینے والے ، جن کی وجہ سے بھی خوف اور ڈر پیدا ہوتا تھا اب خود بھی ان سیکولر اور جمہوری الیکشنوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور بڑے آرام سے اس سیکولر جمہوری تماشے میں اپنے اعتماد کا اظہار کرکے ان انتخابات میں شمولیت فر ما رہے ہیں۔ اس کے بھی اپنے عوامل ہیں جس طرح سے اندرا عبداللہ ایکارڈ کے اپنے عوامل تھے ، جن پر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں