285

مسلم معاشرے میں خواتین محفوظ و مامون

آئے روز اخبارات اور سماجی ویب سائٹوں پر خواتین پر ہورہی زیادتیوں کے بارے جانتے ہوئے دل ٹوٹ جا تا ہے کہ آیا یہ سب مسلم معاشرے میں ہورہا ہے وہ بھی ایسی جگہ جہاں کے لوگوں کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور ملنسار ہونے کا شرف حاصل ہے۔جن سے کسی بھی معمولی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ اس درجہ اخلاق سے عاری کیسے ہورہے ہیں۔جہاں مرغے کو ذبح کرنے سے لوگ کتراتے ہیں وہاں بہو بیٹیوں کو زندہ جلانے کی وباءکہاں سے نمودار ہوئی۔رشتوں کی جان ہی مفقود ہورہی ہے۔اسلام کے نزدیک ازدواجی زندگی کی روح محبت و رحمت ہے۔مرد کی ذمہ داری خاندان کی حفاظت اور نگرانی ہے۔اسلام نے ایک طرف مرد کو نظم وضبط قائم رکھنے کے لئے خاندان میں”ناظم “کا منصب عطا کیا تو دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں تاکہ خاندان کا نظام درست اور چاق و چوبند رہے۔مرد کو ”قوام“ بنائے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے اختیارات کو زیادتی کے لئے استعمال کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو خاندانی اصلاح کے لئے استعمال کریں۔اسلام چاہتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق مہر و محبت کی بنیاد پر دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو۔عورت مرد کے لئے ذریعہ سکون ہے لیکن دورِ حاضر میں اکثر مردوں نے عورتوں کو اپنے لئے تفریح کا ذریعہ سمجھا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی کا پورا نقشہ ہی بگڑ کر رہ گیا اور دونوں (میاں بیوی )کی زندگی سکون کا غارت ہوکر رہ گیا ہے۔اطمینان و سکون کافور ہوا ہے۔یہی چیز بالآخر ڈپریشن پیدا کرکے پورے خاندان کو پ±ر سکون نیند سے محروم کر دیتا ہے۔” گھریلو تشدد“(Domestic Voilation) ایک عصری اصطلاح ہے جو کہ حقوقِ نسواں کے علمبرداروں نے عورت کی مظلومیت اور اس پر ہورہے ظلم ، تشدد و تسلط دیکھ کر ا±سے رہائی دلانے کے لئے وضع کی ہے۔ مرد جب اپنے اختیارات کو زیادتی کے لئے استعمال کرتا ہے تو خاندان میں زلزلہ آجاتا ہے۔موجودہ دور میں ہر کوئی مثالی خاندان کے لئے ترس رہا ہے۔گھریلو تشدد کے معاملے میں آج کا مسلما ن مرد بلا خوف و تردد کے اسلامی حدود کو توڑتے ہوئے نظر آرہا ہے۔جبکہ یہی گھریلو تشددایک مضبوط خاندان کے بننے میں بہت بڑی رکاوٹ کے ساتھ موجودہ دور کا بہت بڑا اِشو بھی بن گیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو پورے خاندان کے عزت و وقار کی دھجیاں اڑا دیتا ہے اور انسان کی ازدواجی و خاندانی زندگی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔بلواسطہ یا بلا واسطہ آج کل شوہر کی جانب سے بیوی پر ہر قسم کا تشدد ہو رہا ہے اور ہمارے معاشرے میں بہت ساری عورتوں نے اسی بنیاد پر بار بار مرنے کے بجائے خود کشی کے ذریعے سے ایک ہی بار اپنا کام تمام کر دینے کا وطیرہ اپنایا ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں عورتوں کے اسبابِ موت میں گھریلو تشدد کو کینسر کی طرح خطرناک قرار دیا گیا ہے۔موجودہ دور میں گھریلو تشدد نے ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اس سے پریشان ہیں اور دن رات جی جان سے اس پر قابو پانے میں کوشاں ہیں اور مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں لیکن بظاہر اس کے حل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ایسی صورت میں اسلام چیلنج دے کر سامنے آتا ہے اور اگر واقعی طور پر اسلامی تعلیمیات کو اپنایا جائے تو بہ خوبی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔موجودہ دور میں جن مصیبتوں نے انسان کو آگھیرا ہے،ان سے نجات پانافطرت کی طرف رجوع کرنے میں ہی پنہاں ہے۔کیونکہ فطرت سے انحراف ہی انسان کے لئے ان مصیبتوں کا سبب بن گیا ہے۔لہٰذا گھریلو تشدد جیسے مسئلے کو بھی دینِ فطرت یعنی اسلام کے ذریعے ہی قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔موجودہ بحران سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں۔اسلام نے مردوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کریں۔وہ ان کی خادمائیں نہیں کہ ان کو اپنے سے کمتر سمجھیں،ان کی تحقیر و تذلیل کریں یا ان کو جسمانی یا نفسیاتی اذیتیں دیں۔میاں بیوی دونوں الگ الگ خاندانوں سے آکر ایک نیا خاندان تشکیل دیتے ہیں، لہٰذا ان کے مزاج میں اختلاف ہونا عین ممکن ہے۔ویسے تو ہم تجربے کے طور پر دیکھتے ہیں کہ انسان کو کسی نئی جگہ پر ایڈجسٹ ہونے کے لئے کافی وقت لگتا ہے اور یہ چیز ہر ایک شوہر کو اپنے گھر نئی بیوی لانے کے بعد مدِ نظر رکھنا ضروی ہے۔انسان کو اپنے آپ میں تبدیلی لانے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے اور پائیداری اور دور رس تبدیلی کے لئے یہی راستہ فطرت کے عین مطابق ہے۔اس کے برعکس مصنوعی تبدیلی کی عمر کم ہی ہوتی ہے اور یہ فطرت سے انحراف کا راستہ ہے جو کہ عین وقت اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔اس لئے مزاج کے اختلاف کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر شوہر کو بیوی کی کوئی بات یا کوئی رویہ ناگوار گزرتا ہو تو اس سے نفرت کے بجائے محبت،دل لگی،شائستگی اور ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ اسی طریقے میں خاندانی نظام کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نکاح کرنا آسان ہے لیکن نکاح کو نبھانا بہت ہی مشکل کیونکہ نکاح کے ذریعے سے ہی ایک خاندان وجود میں آتا ہے اور اگر خاندانی نظام میں میاں بیوی کی کوتاہی سے کسی قسم کی دراڑ پیدا ہوجائے تو آناً فاناً اس کا اثر پورے معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے جو کہ ایک سنگین فعل تصور کیا جاتا ہے،جس کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر بار بار حاضری دینی پڑتی ہے اور دینی بھی چاہئے۔ اسلام نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ صریح احکام کے ذریعے شوہروں کو ان پر ظلم و تشدد کرنے سے روکا ہے۔اسلامی تعلیمات پر اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو گھریلو تشدد جیسے سنگین مسئلہ کو آسانی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جن معاشروں میں ان تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے وہ سچ مچ میں امن و سکون کا گہوارا بنتے ہیں اور اس میں رہنے والے تمام افراد ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے گھر کو ایک مثالی خاندان میں تبدیل کریں اور بعد میں عام انسانوں کو اسی چیز کی طرف دعوت دیں،اس کے بغیر ہم مضبوط،پ±رسکون اور جنت نظیر خاندان اور خوشحال گھر کا تصور نہیں کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں