رشید پروین سوپور
میں نے جب بھی کسی نظم غزل یا شعری مجموعے کے بارے میں اپنے تاثرات کو کاغذ کا پیرہن پہنانے کی کوشش کی ہے ہمیشہ یہی لکھا ہے کہ میں کوئی محقق، یا تنقید نگار نہیں اور نہ ہی یہ میرا کام ہے کہ میں کسی بڑے یا چھوٹے شاعر کے ادبی یا روحانی مقام کا تعین کرنے کی غلطی کر بیٹھوں ، میں صرف اپنے ان تاثرات ، احساسات اور کیفیات کو الفاظ کے رنگوں میں ڈھالنے کی کوشش ہی کر سکتا ہوں جومیرے ذہن کے کینواس پر رقصاں ہوجاتے ہیں،ہمارے یہاں لل عارفہ کے بعد نند ریش شیخ نورالدین نورانی سے جس الہامی کلام کے سوتے پھوٹے ہیں ان کی زباں اور سٹائل ہی ہماری کشمیری شاعری کی بنیاد اور ابتدا کے طور پر پہچانی جاتی ہے ، جہاں لل عارفہ شیوازم کی علمبردار تھیں وہاں شیخ نو ارلدین نے ریشیت کے قدیم فلسفے کو اسلامی لباس میں مستور کرکے صحیح سمت اور جہت عطا کی ان کے بعد اٹھارویں صدی کی آخری دہائیوں اور انیسوی صدی تک ہمارے کشمیری ادب و شاعری کے آسمانوں میں اَن گنت اور بے شمار چاند ستارے جگمگاتے دکھائی پڑتے ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ستارا اپنے وجود اور مقام کا احساس دلاتا ہے جن میں یہ فرق کرنا ہی بہت مشکل ہے کہ کس ستارے کی روشنی زیادہ ضو فشاں اور تابناک ہے ، ان میں شمس فقیر، نعمہ صاحب ، رحیم صاب احمد بٹوار سوچھ کرال ،وہاب کھار،وازہ محمود، رحمان ڈاراگر ہراول دستے میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں تو ان کے پیچھے ایک کھیپ ایسے شعرا کی نظر آتی ہے جو ان ہی کے نقش قدم پر اپنا اپنا الگ منفرد مقام بنائے ہوئے ہیں، یہ سلسلہ کئی محققین کی نظر میں احد زرگر تک پہنچتا ہے اور اس وقت کے نامور محققوں کی رائے ہے کہ شاید ایسے ستاروں نے اندھیروں کی چادر لپیٹ کر ایک خلاءچھوڈا ہے لیکن اس ناچیز کی رائے اس سے مختلف ہے۔ چونکہ زمانے کے رنگ بدل چکے ہیں اور ریڈیو ، ٹی وی ، سوشل میڈیا نے جو انقلاب پیدا کیا ہے ،الیکٹرانک آسماں اور افق پیدا کئے ہیں اس لئے مختصر یہ کہ جو ،ان آسمانوں میں جگہ بناپایا ، وہی نظروں کے سامنے رہتے گئے ریڈیو ٹی وی اور خصو صاً اچھے گلو کاروں نے ان کے کلام کوعوام سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ گلو کار شاعر کا کلام بڑی حد تک اپنے تعلقات کی بنا پر گاتے ہیں یا اِن تک کلام پہنچتا ہی نہیں اور وہ لوگ جو نام و نمائش ، ظاہری آن بان ، اور شہرت سے بے نیاز اپنے آپ کو پردوں میں چھپانے کے قائل تھے ،( جس کی وجوہات معقول لگتی ہیں ) وہ حال کے محققین اور تنقید نگاروں کی نظروں سے نہ صرف اوجھل رہے، بلکہ ان کا کلام بھی زمانے کے گردو غبار میں کھو گیا ایسے کئی شعرا کا تھوڑا تھوڑا سا کلام میری نظروں سے گذرا ہے جن پر تحقیق ہونی چاہئے تھی لیکن ادب اور ادیب، شاعر و محقق سبھی یکساں طور پر اسی ”شو “اور الکٹرانک میڈیا تک محدود ہوکر رہ گئے۔ایسے سینکروں شعرا جو واقعی تصوف سے منسلک تھے بہت کم پہچانے گئے، اور بہت کم لوگ ان کے کلام اور مقام سے آشنا ہوسکے۔
میں جس شاعر کی بات کرنے جارہا ہوں وہ اس کھیپ کے آخر کی پیداوار ہیں اور ابھی یہ مضمون میں ان کی دوسری برسی کی مناسبت سے آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ وہ صوفی شاعر سوپور کے محی ا لدین گلشن ہیں جن کا کلام کم و کاست ریڈیو ٹی وی پر کبھی آیا کرتا تھا اگرچہ دور و نزدیک کے گلو کار بھی تھوڑا تھوڑ اصوفیانہ محفلوں میں گاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک خاص حلقہ ہی ان سے اور ان کے کلام سے آشنا ہے۔ محی الدین گلشن سوپور کے محلہ خوشحال متو میں شاید ۳۳۹۱ءمیں پیدا ہوئے اور ان کے ساتھ محی الدین گوہر، واسدیو ریہہ، روگناتھ کستور، وشواس، کنول اور اس دور کے دوسرے سوپور کے معروف شاعرساتھی رہے لیکن انہوں نے ان سب سے الگ صوفیت کی راہ گزاروں کا سفر شروع کیا اور یہ شاید ان کے لئے ،مختصص ہوچکا تھا جوا س واقعہ سے مترشع ہے جو وہ اپنے مجموعہ کلام ،” شرون گوم کنن“ کی ابتدا میں کہتے ہیں اور اس کا ناقابل تردیدثبوت بھی خود ہی فراہم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی شاعری کی ابتدا ہی ایک عجیب واقعے سے ہوئی کہ ایک رات خواب میں کوئی بزرگ آئے، انہوں نے ایک غزل عنایت کرکے تعارف میں کہا کہ وہ سوچھ کرال ہیں۔ اکثر لوگ ( شاید ان میں بھی ہوتا) ان کا مذاق اڑاتے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ (بقول گلشن )صبح میں نے یہ غزل لکھ دی بلکہ میں خود حیرت زدہ تھا کہ یہ مجھے یاد کیسے رہ گئی ،اس غزل کامقطع بھی سوچھ کرال کا ہی ہے اور آخری شعر میں گلشن کا نام ہے ، دونوں اشعار پیش کرتا ہوں :
(مطلع) تختس ن. کتے سجاومت/ شاہن
تنہ گوم گوشن دیدن چھ یار
(مقطع)ِ سچھ کرال شیچھ سوز ،بوزیتھ کم/ بوز،۔
روز منز سرودس تی گو ہنوز۔ (مقطع ثانی) پیغام گلشن سات/ روز ثوابن
تنہ گوم گوشن دیدن چھُ یار پوری غزل اس کلام کے پہلے صفحے پر موجود ہے اور میں یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی نو آموز شاعر کے لئے اپنی پہلی غزل اس رنگ میں اتنی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ، یہ غزل سوچھ کرال کے شائع شدہ کلام میں نہیں ہے اور اگر ہوتی تو گلشن کا دعویٰ ایک فریب اور جھوٹ کا پلندہ مانا جاتا ۔اس کے بعد محی الدین نے گلشن کے نام سے اپنی شاعری کی شروعات کی ہے، جیسا کہ اس کے انٹرویوز اور تحریروں سے ظاہر ہے ،وہ اسی حد تک پڑھے لکھے تھے کہ اردو اخبارا ت پڑھا کرتے تھے۔ سکولی تعلیم دو تین جماعتوں تک محدود تھی ، شروع سے ہی رہبروں کی تلاش میں رہے اور اپنی ساری زندگی میں کئی معروف مرشدوں سے فیض حاصل کیا اور عمر کے آخری حصوں میں اس کے بھی اپنے دور و نزدیک مرید تھے ، جن میں کئی حال میں شعر بھی کہتے ہیں ، گلشن کی صوفی شاعری میں یقینی طور پر بہت سارے مقامات ہمیں ملتے ہیں۔
عبدالا احد فرہاد نے ان پر ایک ڈاکو مینٹری فلم بھی بنائی ہے ، ان کے کلام کو سراہتے ہی نہیں بلکہ ان کے بارے میں اپنا ایک منفرد نقطہ نگاہ رکھتے تھے اور رنجور تلگامی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ کلام احد زرگر کے بعد کلام گلشن ہی صوفیت کا علمبردار ہے یا کہیں میری نظروں سے گذرا ہے کہ وہی ان کے بعد شعری لحاظ سے علمبردار ہیں۔ اپنے بارے میں وہ کیا احساس یا خیال رکھتے تھے اور یہ کوئی انہونی نہیں کیونکہ دنیا کے ہر بڑے شاعر نے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح پردوں میں مستور رہنے کے باوجود اپنا مقام واضح کردیا ہے جن میں غالب، اقبال، میر، اور کشمیری صوفی شعرا کی ایک بڑی تعداد ہے جو شاعرانہ تعلی کے زمرے میں نہیں آتے۔ گلشن کے کلام میں ایسے درجنوں اشعار بکھرے پڑے ہیں لیکن میں آپ اور محققین کی توجہ اس شعر کی توجہ ضرور مبذول کراو¿ں گاجو انہوں نے اپنی ایک اور تصنیف ”عالمِ حارت “ کے سر ورق کی زینت بنادیا ہے ۔ رحیم ،شمس ،وازہ محمودتابہ وہاب کھار
یمہ چھِ میآن/ ہم سفر ت.ہ/ ما سہ خبر چھیو
یہ اپنی جگہ پر قابل توجہ بھی ہے اور حیران کن بھی اور یہ ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شعرا ان کے ہمسفر کس لحاظ سے ہیں ۔ کلام کے لحاظ سے، مقامات کے لحاظ سے یا مشاہدات کے لحاظ سے یا کسی اور طرف اشارہ ہے، کیونکہ لگ بھگ سبھی صوفی اس بات کے قائل ہیں کہ موت فنا نہیں اور ناداں جس سے اختتام زندگی سمجھتا ہے وہاں سے دائمی زندگی کی ابتداہوجاتی ہے۔ کوئی اور ماجرا ہے اور یہ کلام ہی پر دلالت ہے تو بہت بڑا دعویٰ ہے جس کے حق میں چند دلائل لازمی بن جاتے ہیں۔
مختصر چند اشعار پیش کرنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ تیسری صدی ہجری میں ” تصوف “ کی تدوین ہوئی اور تصوف کے کئی سلسلے وجود پاگئے۔ حضرت داتا گنج بخش نے بارہ سلسلوں کی نشاندہی کی ہے اور چوتھی صدی ہجری میں حسین بن منصور نے جس شدو مد کے ساتھ وحدت الوجود “کے پر چار اور غلبگی میں ”انالحق “ کا نعرہ دیا ،اس نے شام عراق ایران اور دوسرے مسلم ممالک تک صدائے باز گشت پیدا کی۔ ہندوستان میں تو پہلے ہی سے اس فلسفے کے لئے زمین ہموار تھی کیونکہ یہ فلسفہ اپنشدوں کے ساتھ انتہائی مشابہت کا حامل تھا۔ وضاحت کی میرے پاس گنجائش کسی طرح نہیں کیونکہ تصوف پر اس وقت علمی طور سمندر موجود ہیںلیکن منصور کی زندگی سے متعلق دوچار جملے لازمی بنتے ہیں کیونکہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ جس فلاسفی اور اس فلسفے کے بانی کو کشمیری صوفی شعرا نے اپنا رہبر و رہنما قرار دیا اس کے بارے میں وہ کیا جانتے تھے ، ”منصور صوفی ابن عبداللہ کی صحبت میں دو سال رہا ،بغداد میں جنید کا شاگرد ہوا ، ہندوستان کا سفر کیا ، طلسمات، جادو بھی جانتا تھا ، ا س پر کتابیں لکھیں ،اپنی تعلیمات کی وجہ سے فقیہ ابن داو¿د اصفہانی نے پہلی مرتبہ اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور اس فتویٰ کی وجہ سے بھاگ گیا ،۳۱۹ءمیں پھر گرفتار ہوا ، آٹھ سال کی سزا ہوئی ، قاضی ابو عمر ابن یوسف اور ابو الحسن کے فتوے پر بغداد میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔ خود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور اپنے چیلوں کو پیغمبروں کے ناموں سے موسوم کرتا تھا، اس کے علاوہ منصور کا دعویٰ تھا کہ وہ قر آن جیسی عبارتیں لکھ سکتا ہے ،، (پروفیسر برون ) بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ منصور حلاج کا معاملہ ہمیشہ سے ہی عجیب رہا کیونکہ علماءاور صوفیا کے نظریات میں اس سے متعلق واضح اختلاف ابھر کر سامنے آتا ہے ان میں ایک طبقہ اس سے شہید اور دوسرا سزا کا مستحق سمجھتا ہے ،لیکن یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ علماءاور صوفیا کا ایک بڑا طبقہ اس کی حمائت میں ہے جن میںشیخ ابو بکر شبلی ، داتا گنج بخش ، عطار ،امام غزالی اور ابو القاسم نصر آبادی جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں ۔
(جاری)