نوجوان نسل کی بے راہ روی
ساحل ڈار
آثارِ شریف جناب صاحب آنچار
ماں باپ اپنی اولاد کی پرورش بہت اچھے سے کرتے ہیں۔ اپنی پوری کوشش کے ساتھ ،اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی اولاد پر لگا دیتے ہیں۔ تاکہ وہ معاشرے کا کار آمد فرد بن سکے۔ ایک ایسا معزز اور شریف انسان جس کو یہ معاشرہ قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ لیکن آج کل اس سوشل میڈیا کے بے پناہ استعمال اور حد سے زیادہ استعمال جو کہ صحیح چیزوں کے بجائے اب غلط کاموں میں زیادہ ہورہا ہے، اس نے ہمارے معاشرے کو بے راہ روی کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی اور قابل نوجوان نسل کو بھی اپنا اس قدر اسیر بنا رکھا ہے کہ وہ اس برائی کو بھی برائی نہیں سمجھتی۔ سچ ہے جب انسان برائی کا عادی ہوجاتا ہے تو اسے برائی برائی نہیں لگتی۔ لڑکوں کا لڑکیوں سے دوستیاں کرنا ان سے مزے کرنا، باتیں کرنا اور وہ حرکتیں کرنا جو بالخصوص فلموں میں دکھائی جاتیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب فن بھی صرف فن نہیں رہا ہم اسے اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کو کسی مووی یا ڈرامہ کا تصور کر کے گزارتے ہیں۔ اس عیاشی میں ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل سب سے آگے ہے۔
یہ سوشل میڈیا ،مختلف قسم کی ایپس- فس بک ، انسٹا،سنیپ چیٹ،ٹویٹر یہ سب اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ ماں باپ بھی کس حد تک اپنی اولاد کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ اب موبائل کی صورت میں سب کچھ لوگوں کو ایک ہی جگہ مہیا رکھا گیا ہے۔ اب جہاں اس جدید ٹیکنالوجی کے فائدے ہیں، وہیں اس کے باعث ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کی طرف بہت تیزی سے گامزن ہورہی ہے۔ اب لڑکے لڑکیاں گھر بیٹھے ہی مسیجز کے ذریعے کسی کو ریلشن شپ میں رکھ سکتا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہونے والی ایسی مسیجنگ نے آج کل سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنائی ہوئی ہے۔ وہ معاملات جو بڑی خاموشی سے ہمارے معاشرے کو ڈس رہے تھے، اب وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
آخر ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں ،جو ہمارے نوجوان ایسی راہ اختیار کر رہے ہیں اور ان رستوں پر جارہے ہیں۔ ایسی کیا کمی ہے جو وہ اپنی نفسی ضروریات پورا کرنے کیلے ایک غلط اور ناگزیر راہ اپنا رہے ہیں۔ اعلٰی تعلیم اور علم حاصل کرنے کے باوجود وہ صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر پارہے اور نہ ہی خود کو اس برائی سے روک پاتے ہیں جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کوچاٹ رہی ہے۔
کیا یہ غلطی ہمارے بڑے کر رہے ہیں یا یہ کمی ہمارے والدین کی تربیت میں ہے۔ جو اولاد کی اور خاص طور پر بیٹے کی ان حرکتوں کو جوانی کا نشہ یا مزہ اور صرف ایک فعل سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ سبھی لڑکے تو یہ سب کرتے ہیں۔ یہی وہ الفاظ ہوتے ہیں جس سے ان غلط حرکتوں کو پزیرئی ملتی ہے۔اگر والدین اولاد کی کسی بھی غلطی کو معمولی اور عام سمجھتے ہوئے اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ اسے غلط سمجھا اور کہا جائے اور اس پر اولاد کو روکا جائے، تو کافی حد تک انھیں اس برائی سے روکا جاسکتا ہے۔ دوسری اہم بات تعلیم کے بہانے یا اچھے رشتوں کی تلاش میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی بہت بڑی عمر میں کی جانے لگی ہے جس کے باعث بھی وہ بے راہ روی کی طرف جارہے ہیں۔ تیسری وجہ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو تعلم یا نوکری کی غرض سے اپنی فیملی سے علیحدہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں وہ بھی ان چیزوں کو بہت آسانی سے ایڈاپٹ کر رہے ہیں۔ دنیاوی تعلیم دلانے کے لئے تو والدین اولاد پر بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن انھیں دین کی سمجھ نہیں دیتے،ان کے دل میں خوف خدا نہیں ڈالتے کہ وہ برائی سے بچ سکے۔ دین کی سمجھ اور خوف خدا ہی واحد چیز ہے جو انسان کو غلط کاموں کی طرف جانے سے روک سکتا ہے۔ خیر اور شر ہر چیز میں ہوتا ہے، یہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس چیز کو کس لئے استعمال کرتا ہے۔ خیر حاصل کرنے اور پھیلانے کیلئے یا شر کیلئے۔۔۔