181

مرحوم عمر مجیدؔ…..گم شدہ جنت کا بے باک کہانی کار

سہیل سالم

سرسید رقم طراز ہے کہ ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے‘‘۔اس دور کا شاید یہ المیہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات نے زندگی کے گونا گوںمسائل اور مصروفیات میں مبتلا انساں کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ یادوں کے چراغ جلا کر اپنے حال کوروشن کرے اور اپنے ان مخلص بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرے جنھوں نے شعر وسخن کی شادابی کو برقرار رکھا، تہذیب وثقافت اورزبان و ادب کے لیے اپنی زندگیاںوقف کردی۔ ایسی ہی ایک فرشتہ شخصیت عمر مجید کی ہے۔انھوں نے پوری زندگی اردو زبان و ادب کے فروغ میں لگا دی۔ ایسی شخصیت پر بطور خراج عقیدت کچھ لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
عمر مجید ۱۸ ستمبر ۱۹۴۰ کو سونہ وار باغ سرینگر میں تولد ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام غلام قادر میر تھا۔ان کا پورا نام عبدل مجید میر تھالیکن ادبی دنیا میں عمر مجید کے نام سے مقبول و معروف ہوئے۔انھوں نے ۱۹۵۸ میں کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ اس کے بعد ٹینڈل بسکو میں بحثیت مدرس اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔عمر مجیدنے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز ۲۵سال کی عمرمیں کیا جب ان کا پہلا افسانہ ’’ایک بو ڑھا ولر کے کنارے ‘‘ عنوان کے تحت روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے افسانے برصغیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں شمع، نگار، آجکل، بیسویں صدی، شیرازہ، تعمیر، شاعر لفظ لفظ اور کشمیر اعظمی قابل ذکر ہیں۔ آپ ریاست کے معتبر اور معروف افسانہ نگارکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ نے موجودہ مذہبی، سیاسی اور سماجی مسائل کو کہانیوں کا روپ دے کر دبستان کشمیر کے فکشن نگاروں میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ عمر مجید ؔاپنے افسانوں میں زندگی کی وحشتوں، قدروں کی پامالی، انسان سے اخوت کا رشتہ، تہذیبی، تمدنی اور معاشرتی کشمکش کو بھر پور انداز میں پیش کرتے ہیں۔ نیز اپنے افسانوںکے پلاٹ اپنی دھرتی کے پست طبقوںکی مردہ زندگیوں سے چنتے ہیں ۔ اس وقت تک عمر مجیدؔ ؔکے دو ناول اور ایک افسانوی مجموعہ شائع ہو کر داد تحسین حاصل کرچکا ہیں۔ ان کے عنوانات اجالوں کے گھائو‘‘، ’’یہ بستی یہ لوگ‘‘، اور ’’درد کا دریا‘‘ ہیں۔ عمر مجیدؔ ؔنے سماج کا مطالعہ ایک معالج کی نظر سے کیا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوںکے لئے ایسے نادر موضوعات کا انتخاب کیا ہے جس کا انھیں فہم و ادراک حاصل تھا۔ عمرنے روزمرہ کی پر آشوب زندگی کو کہانی کے قفس میں قید کر کے رکھا ہے چونکہ ان کے پاس زندگی کے مختلف تحربات اور مشاہدات کی کمی نہیں ہے۔ کشمیر کے منظر اور پس منظر میں انھوں نے ناول اور افسانے لکھے۔ ظاہر سی بات کوئی بھی کہانی کار تبھی ان موضوعات ومسائل پر خامہ فرسائی کرتا ہے یا کسی علاقے کے ماحول یا تہذیب وثقافت، کلچر، سوسائٹی اور طرز زندگی پر لب کشائی کرتا ہے جب کہ وہ خود اس ماحول کا حصہ ہویا فرد رہا ہو نیز وہ منظر و مسائل اس نے خو د اپنی آنکھوں سے دیکھے ہو۔ اور پھر عمر صاحب کے فن کا تعلق ہوتو وہ ہمیشہ ادب برائے ادب نہ ہو کر ادب برائے زندگی کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ ان کا ایسا کوئی افسانہ یا تخلیق نہ ہوگی جس میں مقصدیت یا پیغام نہ ہو وہ رومانیت یا خواب خیال کی دنیا سے بہت دور تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمر مجیدمختلف کرداروںکی پرچھائیوں کے توسل سے اپنی کہانیوں میں خو د چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح ان کی کردارنگاری کے حوالے سے بھی عمر مجید کی شخصیت کو پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ افسانہ( ماتم کے بعد )میں عمر مجید لکھتے ہیں: ’’ انسان زندگی بھر منزلوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن ہر منزل پر پہنچ کر اسے کسی دوسری منزل کی تلاش میں سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ تلاش درتلاش۔ منزل در منزل۔ سفردر سفر۔ منزل کہاں ہے؟ سفر کا انتھ کہاں ہوگا؟ کب ہوگا؟ سب کو معلوم ہوتے ہوئے بھی کسی کو نہیں معلوم ۔۔‘‘
عمر مجیدکے بیشتر افسانے انسانی واردات،ظلم،قتل وغارت،بے چینی،افراتفری،انتشار،جنگ و جدل اور غیر یقینی صورت حال کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔چناچہ عمر مجید کشمیر اعظمی کے ایڈیٹر جناب جاوید آذر کو لکھتے ہیں :’’ٹھیک دس سال بعد آپ کے دل کے دروازے پر دستک دے رہا ہوں یا شاید دس جنموں کے بعد کچھ ٹھیک یاد نہیں۔یادوں کے الائو سے اٹھنے والا ملگجی دھواں، جہلم کے سینے پر دھند کی دبیز تہہ ،ڈل کے پیلے ذرد آئینے، شالیمار کے زہریلے آبگینے، زبزون پہاڑی کے بھیانک سایے، ننگا پربت کی بے رحم سنگلاخ عمودی چٹانیں۔گلمرگ کی اداس وادیاں، سونہ مرگ کی سیاہ کالی برف، جہنم کی آگ، یہ دس جنم کیسے بیتے مجھے کچھ نہیں معلوم، ٹھیک دس برس پہلے دسویں جماعت کے طلبہ کو اقبال کا تصور انسانیت پڑھا رہا تھا۔مرد مومن کے اوصاف حمیدہ بیان کر رہا تھا ،بچے انہماک سے سن رہے تھے کہ اچانک لالچوک میں گھنٹہ گھر کے قریب ایک زبردست دھماکہ ہوا اور پھر گولیوں کی گھن گرج میں سبق کو ادھورا چھوڑ کر باہر آیا ،سکول کا داخلی دروازہ بند کیا جاچکا تھا۔ایک زخمی شخص جس کے سر سے خون کا فورہ چھوٹ رہا تھا دروازے کے پاس لیٹا کراہ رہا تھا ۔میں نے دروازہ کھولا اور اس ادھیڑ عمر کے زخمی شخص کو قریب گھیسٹ کر اندر لے آیا ۔ وہ زندہ تھا لیکن خون کی سرخ لکیریں اس کی داڑھی کے بالوں کو رنگین کرتی جارہی تھیں اور پھر ۔۔۔ اس شخص نے میرے گود میں دم توڑ دیا ۔ میں اس سے پہچان چکا تھا۔۔ وہ عبد الخالق تھا۔۔۔ ہمارے سونہ وار کا خالق حجام عبد الخالق۔۔۔‘‘ (کشمیر اعظمی ۲۰ دسمبر ۲۰۰۴) ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ لفظوں کی شطرنج کا استعمال کر کے قاری کوپریشانی میں مبتلا نہیں کرتے ہیں۔ عمرمجیدکی نظریں آس پاس کے کرداروں وموضوعات پر ٹکتی ہیں جو مخلص، سیدھے سادے، میلے کچلے، غربت زدہ خست حال اور زمانے کے منافقانہ نظام کے ستائے ہوئے ہیں۔ عمرؔ ان ہی لوگوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوںمیںموجودہ زندگی اور معاشرے کی مکرو فریبیت کو منظر عام پر لایا ہیں۔ وہ زندگی کے اس بہروپیا نظام پر تشوش و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بقول عمر مجید : ’’میم صاحب کے ہونٹوں پر ایک حسین سی مسکراہٹ معنی خیز انداز سے پھیل گئی اور گل محمد نے اک چھوٹی سی بات سوچ لی ۔۔۔ ہر بڑا آدمی میرے صاحب کی طرح برا ہوتا ہے۔۔۔ تمہاری بیوی کا نام کیاہے ۔ خوبصورت سا نام ہوگا اور خود بھی خوبصورت ہوگی، تم لوگ جتنے خوبصورت ہوتے ہو اسی قدر تمہارے نام بھی خوبصورت ہوتے ہیں۔۔کیا نام ہے تمہاری بیوی کا۔۔۔؟
’’شہناز ‘‘
شہناز ۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ خوبصورت نام ہوگا اور یقیناً خوبصورت ہوگی لیکن کتنی بدنصیب ہوگی۔۔ اس حسین رات میں اکیلی ہوگی۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ تمہارے صاحب۔۔۔(افسانہ چھوٹا آدمی)
عمر مجیدکے چند افسانے ایسے ہیں جن میں زندگی کی معنویت، زندگی کی مقصدیت ا ور زندگی کے نشیب وفراز کو اس طرح پیش کیا گیا ہیں کہ قاری کے کلیجے پر چوٹ پڑتی ہے۔ علاوہ ازیںعمر صاحبؔ لگ بھگ ایک سوکے قریب افسانے لکھ چکے ہیں۔’’میری گلی کاغم‘‘، ’’برف کے پھول ‘‘،’’لاپتہ‘‘، ’’یہ شام بھی کہاں ہوئی ‘‘ ، ’’خزاں کا آخری دن‘‘ ،’’درد کا مارا‘‘، ’’گزرے مو سم کا درد‘‘ ،’’سب سے بڑا غم‘، ’’گمشدہ جنت‘‘، ’’کھیل‘‘ اور سفر مسافرمنزل جیسے مشہور افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بھر پور ہیں۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے افسانہ نگار نے سماج کے وجود میں اتر کر سماجی بیماریوںکوایک مثبت طریقے سے علاج کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان وبیان اور فنی اعتبار سے عمر مجیدؔکے افسانے ایک منجھے ہوئے اور ایک بے باک افسانہ نگارکے شہ پارے ہیں۔ انھوں نے خود اپنا ایک اسلوب قائم کیا ہے جس پر انھیں عبورحاصل ہے۔ بقول نور شاہ:’’جہاں تک ان کے تحریر کردہ افسانوں کا تعلق ہے کشمیر ،کشمیری اور کشمیریت ان کے افسانوں کے محبوب ترین موضوعات ہوتے تھے۔ مرحوم کے افسانے ہوں، افسانچے ہوں، مضامیں ہوں یا اخباری کالم ۔ ان کی ہر تحریر میں زبان و بیان کی سادگی اور تازگی ایک منفرد اسلوب میں نظر آتی ہے۔ چونکہ ان کی ادبی زندگی کا فلسفہ ذہن و زبان کی آزادی پر مبنی تھی اس لئے ان کی سوچیں اور ان کا قلم بھی بندشوں اور پابندیوں سے آزاد تھا۔جہاں بھی اور کہیں بھی کشمیرکے افسانہ نگاروں کے تعلق سے گفتگو ہوگی تو یہ گفتگو مرحوم عمر مجید کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ آخر کار 23 دسمبر 2008 کودبستان کشمیر کا یہ بے باک کہانی کار اپنے گم شدہ جنت پے پرواز کر کے اصلی جنت کی طرف روانہ ہوئے ۔بقول حفیظ میرٹھیؔ
اک جا بر کا مجبوروں نے کچھ ایسے استقبال کیا
آنکلا ہو جیسے مسیحا کوئی درد کے ماروں میں
ہر ظالم سے ٹکر لی ہے سچے فن کاروں نے حفیظ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ د یں ہم ہیں تابع داروں میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں