رشید پروینؔ سوپور
۲ اگست۲۰۲۳ کو سپریم کورٹ نے اچانک درخواست گزاروں کے دلائل کی کشمیر آئین ہند کی دفعہ ۳۷۰ پر سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھااور اس تاریخی سماعت کو گیارہ دسمبر کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ یاد رہے کہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد جب دفعہ ۳۷۰ کو ایبارگیٹ کیا گیا تھا یا جب اس سے ایک عارضی دفعہ قرار دیتے ہوئے ختم کیا گیا تھا تو سپریم کورٹ میں اس عمل کے خلاف رٹ پٹٹشنیں دائر کی گئیں تھیں لیکن ۲اگست تک جس سے ایک لمبے عرصے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی، ۲ اگست سے اس کیس پر اچانک سماعتیں ہوئیں اور اس بیچ اس سے سر د خانے کی نذر کیوں رکھا گیا اس کی کوئی توسیع کہیں سے نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ، ہر بات اور اس طرح کے ملکی معاملات اور تقدیروں کے فیصلے آسمانوں میں ہی ہوتے ہیں۔
اب گیارہ دسمبر ۲۰۲۳ پانچ رکنی بینچ نے جو متفق طور پر فیصلہ صادر کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور اس فیصلے نے جموں و کشمیر کے مستقبل کا تعین کرکے ان ڈراکیولائی اجسام کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے جو کشمیری عوام کا لہو چوستے رہے ہیں یہ بات اس لحاظ سے لکھ رہا ہوں کہ لگ بھگ تمام مینسٹریم پارٹیا ں ۳۷۰ اور ۳۵ اے کو کشمیر ی عوام کا لہو پلا پلاکر زندہ رکھنے میں کامیاب تھیں لیکن دیکھا جائے تو جموں و کشمیر کے اس خصو صی درجے کو ان ہی لوگوں نے پورے ۷۵ برس آہستہ آہستہ اندر ہی اندر کھو کھلا کر کے بے جان لاشہ بناکر طبعی موت مرنے کے لئے چھوڑا تھا ،جو آج ہمیشہ کے لئے بظاہر زمین کی تہوں اور ماضی کے اندھیروں میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو چکا ہے۔
اصل میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی کشمیری عوام کے کسی طرح خلاف توقع نہیںآیا ہے کیونکہ’’ جو چاہئے سو آپ کی نگاہِ کرشمہ ساز کرے‘‘ اور اقتداری سیاست کا ر تو پہلے ہی سے اس بات کا اقرار بر ملا کر چکے تھے اور اس بات کو تسلیم کر چکے تھے کہ یہ دفعہ اور خصو صی درجہ قصۂ پارینہ اور ایک افسانے سے زیادہ اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا، شاید اسی لئے امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں ۵ اگست ۲۰۱۹ کو اس کی منسوخی کے موقعے پر کہا تھا کہ اس دفعہ میں اب رکھا ہی کیاتھا۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ عمارت تو پہلے ہی مسمار ہوچکی تھی ہم نے تو اس ملبے کو صاف کیا ہے۔
اس سے پہلے کہ اس تاریخی فیصلے کا مختصر سا تجزیہ کیا جا ئے میں کشمیر کی ایک فوک کہانی کو بہت ہی مختصر آپ کے گوش گذار کردوں گا کیونکہ الحاق ہند سے اب تک ہزاروں صفحات پڑھنے کے بجائے یہ کہانی ہی آپ کو کشمیر کے سیاسی پسِ منظر اور پیشِ منظر سے آشنا کرا تے ہوئے اس بات کو ذہن نشین کرائے گی کہ اس دیوارِ کشمیر میں کن لوگوں نے سرنگیں لگائی اور کن لوگوں نے اقتدار کی ہوس کے لئے اس جسم کو نوچ نوچ کر کھایا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ’ چند چرسیوں نے ایک بار سری، پا، پکانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے کچھ پیسے جمع کئے، جب سری پا پکنے کے قریب تھے تو کسی شودے یعنی چرسی کو یاد آیا کہ ہم نے اس دیگ میں مرچ ڈالا ہی نہیں اور نہ بازار سے خریدا ہے، سارے شودے چلم پی کر مستی کے عالم میں پہنچ چکے تھے اس لئے کسی نے مرچ لانے کی حامی نہیں بھری ، سب چرسی دیگ کے ارد گرد دھونی رما کے بیٹھ گئے، فیصلہ ہوا کہ خاموش رہا جائے، جو کچھ بھی ہو اور جو زباں کھولے گا تو مرچ اس پر واجب ہوگی۔ بس سب دیگ کے ارد گرد بیٹھے، کتے بھی کہیں ادھر اُدھر سے آگئے، دیگ الٹ دی، سری پا کھاگئے لیکن مجال ہے کہ کسی نے زباں کھولی ہو، بادشاہ کے ہاں اسی رات ڈاکہ پڑا ، کوتوالی نے اس منڈلی کو خاموش پاکر چور ہی سمجھ لیا اور آخر بادشاہ کے حضور انہیں سزائے موت بھی ہوئی، لیکن زباںنہیں کھولی اور جب ایک چرسی کے گلے میں پھانسی کا پھندا بھی ڈالاگیا تو چرسی جاگ اٹھا اور اس سے خیال آیا کہ اب تو جان بھی جائے گی، ایک بار چیخ اٹھا کہ’ میں چور نہیں‘ تو سب شودے (چرسی) چلا اٹھے، مرچ لاؤ، مرچ لاؤ ، سب حیران ،صم بکم اور متحیر کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور اچانک سب نے زباں کیسے کھولی ہے، سارا ماجرا چرسی نے سنادیا، تو بادشاہ نے سوال پوچھا کہ بھائی یہ سری، پا ہے کدھر جس کی مرچ کے لئے تم لوگوں نے زباں ہی بند کی تھی یہاں تک کہ پھانسی بھی چڑھنے ہی والے تھے۔ شودوں یعنی چرسیوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ جناب سر ی پا تو کتے پہلے ہی چٹ کر گئے تھے۔ یہ کہانی آئین ہند میں درج ہماری خصوصی پوزیشن اور ۳۷۰ وغیرہ سے کمال مشابہت رکھتی ہے ۔۔ یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ ان ہی شودوں نے تو ۷۵ برس زباں نہیں کھولی اور اس دیگ کے ارد گرد بیٹھے رہے جو دہائیوں پہلے الٹ چکی تھی۔
بہر حال سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بڑی و ضاحت کے ساتھ چند باتوں کا تذکرہ کیا ہے،جن پر اب تبصرہ اور تجزیہ کرنا یا کوئی رائے دینا کوئی مطلب اور معنی ہی نہیں رکھتا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو کچھ فیصلے سپریم کورٹ سے اس نوعیت کے بھی آتے رہے ہیں جن میں عوام کی رائے اور تسکین کا خیال رکھا گیا تھا۔ بہر حال سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ یہ آرٹیکل ۳۷۰ عارضی شق تھی۔ دوئم یہ کہ عرضی میں صدارتی اعلان کوچیلنج نہیں کیا گیا تھا ، اور تیسری یہ کہ فیصلے میں کوئی بد نیتی نظر نہیں آتی یعنی پارلیمنٹ کے لئے بھی کلین چٹ مہیا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کی ہدایت دی ہے اور اس کے ساتھ ہی ۳۰ ستمبر ۲۰۲۴ تک انتخابات کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ یہ بعینہ وہی بات ہے جو پارلیمنٹ میں دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ کے لمحات میں کہی گئی تھی کہ مناسب وقت پر ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا اور انتخابات بھی کرائے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ ان بیانات سے ہم آہنگ رکھا ہے جو پارلیمنٹ میں اس وقت دئے گئے تھے بلکہ اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اس فیصلے کی نیت کو بھی بلکل درست قرار دے کر اس سے مکمل آئینی اور حق و انصاف پر مبنی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے سلسلے میں کچھ قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا ہے کہ ۳۷۰ خصوصی حالات کے لئے التزام کی حیثیت رکھتا تھا ااور یہ کہ آرٹیکل، ایک اور ۳۷۰ میں واضح طور کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کی کوئی داخلی خود مختاری ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے الگ نہیں۔اس پر کیا رائے اور کس نوعیت کی رائے کا اظہار کیا جاسکتا ہے ؟ آئینی بینچ نے مزید کہا ہے کہ صدر جمہوریہ کی طرف آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (ڈی) کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئےآئین ہند کی تمام دفعات کو ریا ست جموں و کشمیر پر لاگو کرنے کے لئے جاری حکم درست ہے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے اورعدالت نے مزید اس بات میں دم اور اس فیصلے کو تقویت دینے کے لئے یہ بھی لکھا ہے کہ صدر جمہوریہ کے پاس آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے بغیر بھی آرٹیکل ۳۷۰ (۳) کی دفعات پر پابندی لگانے کا اختیار ہے ، اور یہ کہ ہندوستان کا آئین قانونی حکمرانی کے لئے مکمل ضابطہ ہے اور اس کی رو سے بینچ نے کہا ہے آرڈر نمبر ۲۷۳ کے ذریعہ ریاست جموں و کشمیر پر ہندوستان کے آئین کے مکمل اطلاق کے بعد ریاست جموں و کشمیر کا آئین غیر فعال اور کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
پانچ اگست کو اگرچہ طویل کرفیو اور دوسری شدید پابندیاں کشمیری عوام نے سہی ہیں ، یہاں تک کہ وہ پارٹیاں جو ہر حال میں کہانی کے شودوں کی طرح ہر نئے اقدام پر خوش و خرم رہا کرتی تھیں، انہیں بھی یا تو نظر بند رکھا گیا یا جیل کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تب سے اب تک کشمیر میں عجیب طرح کی خاموشی ہے، یہ خاموشی مجھے بلکل عجیب و غریب اس لئے لگتی ہے کہ عوام کوئی بھی رد، عمل کسی بات پر دینے کے حق میں نہیں ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چند افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وقت کے حکمرانوں کے ساتھ آقا سے بھی زیادہ وفادری کا رول نبھاتے ہیں اور یہ ہر دور میں ایسا ہوتا رہا ہے اور اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے اس تابوت میں آخری کیلیں ٹھونک کر اس کا ڈھکن بند کردیا ہے ،عوامی سطح پر کسی بھی ردِ عمل آنے کی کوئی شہادت نہیں ملتی، ما سوائے مینسٹریم یا ان لیڈروں کے چند بیانات جو کئی مہینوں سے انتخابات کی تیاری کرتے رہے ہیں اور آج ان کی آنکھوں میں ٹھنڈک ضرور پڑی ہوگی کہ اب جموں و کشمیر کے انتخابات یقینی ہیں ،لیکن اب ان کی دکانوں میں ۳۷۰ کا مال نہیں ہوگا، یہ دفعہ الحاق ہند و جموں و کشمیر کے ساتھ منسلک تھی ا وریقینی طور پر کسی مجبوری کی وجہ سے آئین ہند میں ڈالی گئی تھی ، تاکہ جموں و کشمیر کی ریاست بھارت کی دوسری ریاستوں سے کچھ منفرد اور الگ ہو [5] Jammu and Kashmir was administered by India as a state from 17 November 1952 to 31 October 2019, and Article 370 conferred on it the power to have a separate constitution, a state flag, and autonomy of internal administration. [6][7]
Article 370 was drafted in Part XXI of the Indian constitution titled "Temporary, Transitional and Special Provisions”.[8] It stated that the Constituent Assembly of Jammu and Kashmir would be empowered to recommend the extent to which the Indian constitution would apply to the state. The state assembly could also abrogate the Article 370 altogether, in which case all of Indian Constitution would have applied to the state. ۔۔ماہر قانون ہی اس آرٹیکل کی وضاحت کرسکتے ہیں اور سپریم کورٹ آف انڈیا سے جو وضاحت اور فیصلہ صادر ہوا ہے اس سے بہتر اور کیا وضاحت ہوسکتی ہے ؟۔