159

یقیناََ ہیں بابائے قوم آ پ’’ گاندھی‘‘

احمد وکیل علیمی،
دوردرشن اردو خبریں کولکاتا ، کانکی نارہ

دنیاکی عظیم ہستیوں میں وہی ہستیاں قیامت تک زندہ رہیں گی اور لوگ ’’دِل‘‘ سے ان کو یاد کریں گے جنہوں نے ملک پر نہیں ’’ دلوں ‘‘ پر حکومت کی ہے، اور دلوں پر وہی لوگ حکمرانی کرتے ہیں جو ’’ بھائی چارگی، اخوت، انسانیت اور اتحاد ‘‘ کے علمبردار بن کر قوم کے سردار بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ کے اس قول سے بھی اس سچائی کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
’’ یاد رکھو انسان کی بقا کا راز ’ انسانیت ‘ کے احترام میں ہے۔‘‘
اور اسی لیے علم ِ دین اور حجت ا لا سلام مفکّر امام غزالی ؒ بھی فرماتے ہیں
’’خباثت ِ قلب کو ظاہر کرنے والی تین چیزیں ہیں (۱) حسد (۲) ریا (۳) عُجب ( خود کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا عُجب ہے)
انسانیت نسل، ذات، مذہب اور زبان کے حصار سے آزاد ہوتی ہے۔ بڑا لیڈر یا بڑا آدمی بننے کے لیے تعصب، حسد اور جلن سے پاک ہونا پڑتاہے۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ گاندھی کو’’ مہاتما‘‘ بنانے میں درج بالا خصوصیات اور اوصاف کی کارفرمائی شامل ہیں۔ ہمارا دیش دنیا کے عظیم ملک میں شمار کیا جا تا ہے۔ بھارت جیسے عظیم ملک کا ’’ ہیرو‘‘ بننا ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے متراف ہے۔ لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ گاندھی جی ملک کے ایک ایسے لیڈر ثابت ہوئے جن کو ہر زبان و مذہب کے لوگ یکساں طور پر محبوب اور عزیز تھے۔اسی لیے گاندھی جی ’’ مہاتما گاندھی‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے۔ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے میر تقی میر کا یہ شعر پڑھا جا سکتا ہے۔
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
یہی سبب ہے کہ دیش میں ہستیاں اور لیڈران بہت پیدا ہوئے لیکن ’’دوسرا گاندھی پیدا نہیں ہوسکا۔‘‘
بڑا بننے کے لیے سبھی کو گلے لگانا ہوگا۔ اللہ اسی لیے ’’ اللہ ‘‘ ہے کہ وہ ہر نسل، ذات ، مذہب کو ایک نگاہ سے دیکھ کر اللہ ہونے اور سب سے بڑا ہونے کا افتخار اور اعزازاس کو حاصل ہے۔ انسان کبھی اللہ نہیں ہوسکتا لیکن اللہ کی بتائی ہوئی باتوں پر چل کر انسانیت کا مبلغ بن سکتا ہے ۔ گاندھی جی نے بھی اللہ کی تعلیم کو مقدم سمجھا اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں’’ بابائے قوم ‘‘ ہونے کے اعزاز سے سرفراز کیے گئے۔
گاندھی جی کی سب سے اہم اور لازمی تعلیم یہی تھی کہ قوم کے اندر ’’اتحاد‘‘ پیدا ہوجائے۔ اس لیے کہ ’ اتحاد ‘ تمام خامیوں اور کمی کی کاٹ ہے۔ اتحاد قائم کر نے کے لیے کئی باتوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اتحاد میں ایک عظیم طاقت پوشیدہ ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ روزانہ کی زندگی میں ہونے والے اختلافات اور افتراق پر قابو پانے کے لیے اتحاد کا ہی سبق یاد کرنا پرتا ہے۔گاندھی کے عدم تشدد کا سبق آج بھی پوری دنیا میں احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
گاندھی کا اصل نام موہن داس کرم چندگاندھی تھا۔ امن کے اس پجاری کی پیدائش ۲ اکتوبر ۱۸۶۹ میں شمال مغربی بھارت کی ریاست پور بندر میں ہوئی تھی۔ان کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔ وہ نوجوانی کی عمر سے ہی باغیانہ فکر کے ساتھ پروان چڑھ رہے تھے۔ ان کا خاندان ایک مالدار گھرانے سے متعلق تھا۔آپ کے والد محترم کرم چند اتم چند گاندھی پوربند ر کے راجہ کے دیوان اور ریاست کی ایک مشہور شخصیت تھے۔موہن داس کی والدہ محترمہ ایک مذہبی خاتون تھیںجو اکثر پوجا پاٹھ کے لیے مندر جاتیں اوراپواس (ایک قسم کا روزہ) رکھتی تھیں۔ماں نے موہن کو ہندو روایات اور اخلاقیات کا سبق پڑھایا اور انہوں نے ہی عدم تشدد کی تعلیم دی۔ انہوں گاندھی جی کو ہمیشہ سبزی خوری کی عادت دلائی۔اپنی والدہ سے نوجوان کرم چند گاندھی کو مذہبی رواداری ، صاف ستھری زندگی اور عدم تشدد کی تعلیم بھی ملی۔کرم چند ابھی ’’ مہاتما گاندھی ‘‘ بننے کی سعادت سے بہت دور تھے۔اچھی تعلیم و تربیّت کے ارادے سے موہن داس کے والد اپنے کنبے کو پوربندر سے راجکوٹ لے آئے جہاں معیاری تعلیم کا انتظام تھا۔کرم چند کو انگریزی کی تعلیم بھی دلائی گئی۔
موہن داس کی شادی ۱۳ سال کی عمر میں کستوریانامی دوشیزہ سے کر دی گئی جو راجکوٹ کی رہائشی تھیںاورشادی کے وقت کرم چند جی سے ایک سال کی بڑی ۱۴ برس کی تھیں۔باغیانہ اذہان کے ساتھ پرورش پانے والے کرم چندخاندانی روایات کے خلاف انہوں نے شراب نوشی اور گوشت خوری جیسی ممنوعہ چیزوں کو مرغوب رکھا۔لیکن اپنی شروع کی عمر میں بھی کرم چند کونیک اور بہتر بنانے کی بھی اپنی خواہش رہتی تھی۔ جس کام کو کرنے کے بعد ان کو غلط ہونے کا احساس ہوتا تو وہ اس کا کفارہ بھی کرتے تھے۔انہوں نے اپنی کتاب ’’ سچائی کا پریوگ‘‘ یعنی سچائی کے تجربات میں ان باتوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ جب ان کے والد بسترِ علالت پر تھے تو موہن داس اپنے والد کو چھوڑ کر اپنی بیگم کے پاس چلے گئے ۔ ان ہی دنوں ان کے والد محترم کا انتقال ہو گیا تھا۔ والدبزرگوار کی رحلت کے بعد کرم چند کو اپنے اس طرز عمل کااحساس ہوا اور اندر ہی اندر بہت ملول رہتے تھے۔ موت کے وقت والد کے پاس نہیں رہنے کے احساسات کو کرم چند نے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے’’ میں بہت شرمندہ تھا اور خود کو بد قسمت سمجھتا تھا۔ میں اپنے والد کے کمرے کی طرف بھاگا ۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو سوچا کہ اگر مجھ پر جنسی ہوس حاوی نہ ہوئی ہوتی تو وہ میرے بازوؤں میں دم توڑتے۔‘‘
اپنی پہلی اولاد کی پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد والد کی موت کو کرم چند داس اسے اپنے گناہوں کی سزا سمجھنے لگے تھے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے زندگی میںکسی نہ کسی سبب انسان والدہ اور والد کی قدر کر نے سے غافل رہتا ہے جب قیمتی اثاثہ کھوجاتا ہے تو ہم کف ِ افسوس مَلتے ہیں۔والدین کی خدمت اور ان کو خوش رکھنے کی سعادت سے اکثر اولاد محروم رہی ہے۔اس لیے ماں ۔ باپ کی خوشی کا خیال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔کیوںکہ ماں، باپ ہمیں دنیا میں لا نے اورجنّت میں لے جانے کا ذریعہ ہیں۔
موہن داس گاندھی بمبئی کے بھاؤ نگر کالج میں زیر تعلیم تھے ۔ اسی زمانے میں انہیں مشہور انٹر ٹیمپل میں قانون کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے لندن جانے کی پیش کش ہوئی تھی۔اہل ِ خانہ کے عمائدین نے موہن داس کو سمجھایا کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے پر انہیں برادری سے خارج کردیا جائے گا۔لیکن بزرگوں کے اعتراض کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گاندھی تعلیم کے حصول کے لیے لندن چلے گئے۔ نوجوانی میں انسان جہاں رہتا ہے، وہاں کے ماحول کا اثرقبول کرنا فطری امر ہے۔ لندن میں گاندھی مکمل طور پر مغربی رنگوں میں رنگ گئے تھے۔ تاہم اس وقت لندن میں جاری سبزی خور تحریک میں انہیں اپنے لیے بھائی چارہ نظر آیا تو وہ اس میں شامل ہوگئے۔ اس کے ساتھ لندن کی تھیو سو فیکل سوسائٹی سے انہیں اپنے بچپن کے ہندو عقائد کی جانب واپسی کی ترغیب ملی جو انہیں ان کی والدہ سے تربیّت ملی تھی۔سبزی خوری ، شراب سے توبہ اور جنسی تعلقات سے دوری کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے لگے۔
قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موہن داس گاندھی بھارت واپس آئے اور وکالت شروع کردی۔وہ اپنا پہلا کیس ہار گئے۔ اس دوران انہیں ایک انگریزی افسر کے گھر سے باہر نکال دیا گیا۔اس واقعے سے بہت ذلّت محسوس کرنے والے گاندھی کو جنوبی افریقہ میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے بلا تاخیر قبول کرلیا۔جنوبی افریقہ میں جب وہ ٹرین کے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے تو گاندھی کو ایک انگریز نے ان کے سامان کے ساتھ ڈبّے سے باہر پھینکوا دیا۔ جنوبی افریقہ میں مقیم بھارتیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف انہوں نے انڈین کانگریس قائم کی اور نٹال میں بھارتیوں کو معاشرے سے علیٰحدہ رکھنے کے خلاف جد و جہد شروع کردی۔جنوبی افریقہ میں بھارتیوں کے حقوق کی اس جد و جہد کے دوران ہی گاندھی نے تزکیہ ذات اور ستیہ گرہ جیسے اصولوں کے ساتھ تجربہ کرنا شروع کیا تھا جو ان کے عدم تشدد کے وسیع تر خیال کا حصّہ تھے۔ اس دوران گاندھی نے برہم چاریہ یعنی پاک صاف اور جنسی عمل سے دُور رہنے کا عہد کیا اور سفید دھوتی پہننا شروع کی جسے ہندو روایت میں غم کا لباس کہا جاتا ہے۔
سنہ ۱۹۱۳ میں گاندھی نے جنوبی افریقہ میں مقیم بھارتیوں پر عائد تین پاؤنڈ ٹیکس کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے دوران پہلی بار گاندھی نے جنوبی افریقہ میں کام کرنے والے بھارتی مزدوروں، کان کنوں اور زرعی مزدوروں کو متحد کیا اور ان کے رہنما بن گئے۔ گزشتہ کئی برسوں کی اپنی جد جہد کے طفیل میں ۲۲۲ افراد کے ساتھ نٹال سے ٹرانسوال تک احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا۔ اسے انہوں نے سول نافرمانی کا نام دیا ۔ اس سفر کے دوران گاندھی کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں ۹ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم ان کی شروع کردہ ہڑتال نے مزیدمقبولیت اور محبوبیت حاصل کر لی۔جس کے بعد جنوبی افریقہ کی برطانوی حکومت کو بھارتیوں پر عائد ٹیکس واپس لینا پڑا اور گاندھی کو جیل سے رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی حکومت کے خلاف گاندھی کی اس فتح کی انگلینڈ کے اخبارات نے زبردست تشہیر کی۔ اس کامیابی کے بعد گاندھی بین ا لاقوامی سطح پر مشہور ہوئے۔جنوبی افریقہ میں اپنی تحریک کی کامیابی کے بعد گاندھی ایک فاتح کے طور پروطن واپس آئے۔بھارت آنے کے بعد گاندھی اور کستوریا نے فیصلہ کیا کہ وہ ریل کے تیسرے درجے میں پورے بھارت کا سفر کریں گے۔
بھارت کے اس دورے کے دوران گاندھی کو شدید صدمہ اس وقت پہنچا جب انہوں نے اپنے ملک کی غربت اور آبادی کو دیکھا ۔ اس دوران گاندھی نے برطانوی حکومت کے نئے جابرانہ قانون ’’رولٹ ایکٹ ‘‘ کی مخالفت کا اعلان کیا ۔اس قانون کے تحت حکومت کو یہ طاقت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی شہری کو شدت پسندی کے شبہے میں گرفتار اور قید کر سکتی ہے۔ گاندھی کے کہنے پر ملک گیر سطح پر ہزاروں افراد اس قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ۔ تمام شہروں میں احتجاج کیا گیا ۔لیکن اس دوران متعدد مقامات پر پُرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ امرتسر میں جنرل ڈائر نے ۲۰ ہزار افراد کے ہجوم پر فائرنگ کردی جس میں ۴۰۰ سے زیادہ افراد ہلاک اور ۳۰۰ سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔اس قتل عام کے بعد گاندھی کو یقین ہوگیا کہ انہیں بھارت کی آزادی کی تحریک کا آغاز کرنا چاہیے۔گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کو عوام میں ایک مقبول پارٹی بنا دیا ۔ اس سے پہلے کانگریس امیر ہندوستانیوں کا ایک گروہ ہوا کرتی تھی۔ گاندھی جی نے مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کی آزادی کی بنیاد پر بھارت کی آزادی کا مطالبہ کیا ۔ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کی اپیل پر بھارتی معاشرے کے تمام تر طبقات اور مذاہب کی حمایت ملنا شروع ہو گئی۔انہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کا آغاز کیا ۔ گاندھی کی اپیل پر بھارت کے لوگوں نے برطانوی سامانوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا۔اس کے جواب میں برطانوی حکومت نے گاندھی کو غدّاری کے الزام میں گرفتار کیا اور انہیں دو سال تک جیل میں رکھا ۔جب ایک اخبار نے گاندھی پر ڈھکوسلے کا الزام لگایا تو انہوں نے کہا کہ ’’ میں بھارت کا دیسی لباس پہنتا ہوں کیوں کہ یہ بھارتی ہونے کا سب سے آسان اور فطری طریقہ ہے۔گاندھی کی تحریک اور ان کے مطالبات کو نظر انداز کرنا اب برطانوی حکومت کے لیے مشکل ہوچکا تھا ۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے بھارت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات چیت کے لیے لندن میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا ۔تاہم انگریزوں نے تمام بھارتیوں کو اس بحث سے دُور رکھا ۔اس سے گاندھی بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے نمک قانون کے خلاف مہم کا آغاز کیا ۔اس وقت برطانوی قانون کے مطابق بھارتی شہری نہ تو نمک جمع کر سکتے تھے اور نہ ہی اسے بیچ سکتے تھے۔اسی سبب بھارتیوں کو انگریزوں سے اونچی قیمتوں پر نمک خریدنا پڑتا تھا۔ گاندھی نے ہزاروں لوگوں کے مجمعے کے ساتھ ڈانڈی یاترا (ریلی) نکالی اور برطانوی حکمرانی کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر نمک بنا کر قانون توڑا۔ اسی جرم میں انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ گاندھی کی تحریک بڑے پیمانے پر پھیل گئی ۔ ہزاروں لوگوں نے برطانوی حکومت کو ٹیکس اور محصول دینے سے انکار کردیا ۔ آخر کار برطانوی حکومت کو سر جھکانا پڑا ۔ اس کے بعد گاندھی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔نمک ستیہ گرہ کے بعد ایک مٹھی نمک بنانے کے بعد گاندھی نے کہا کہ ’’ اس ایک مٹھی نمک سے میں برطانوی سلطنت کی جڑیں ہلا رہا ہوں۔‘‘ گول میز کانفرنس گاندھی کے لیے ناکام رہی۔ سلطنت برطانیہ بھارت کو آزاد کرنے پر راضی نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ مسلمان ، سکھ اور دوسرے بھارتی نمائندے گاندھی کے ساتھ نہیں تھے کیوں کہ ان کا یہ خیال تھا کہ گاندھی تمام بھارتیوں کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ اگرچہ گاندھی کو برطانوی بادشاہ جارج پنجم سے ملنے کا موقع ملا لیکن انہوں نے اس کے ساتھ ہی لنکا شائر میں عام کارکنوں سے بھی ملاقات کی۔گاندھی نے حکومت برطانیہ کے خلاف ایک نئی غیر متشدد بھارت چھوڑو تحریک شروع کی ۔ اس تحریک کے آغاز میں گاندھی اور ان کی اہلیہ کستوریا کو جیل بھیج دیا گیا۔۔ اس کے بعد گاندھی کو جیل سے رہا کرنے کے مطالبے پر پورے ملک میں پُرتشدد تحریکیں شروع ہوگئیں۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اس معاملے پر جھکنے کو تیار نہیں تھے۔گاندھی کی اہلیہ کستوریہ گاندھی جیل میں ہی دم توڑ گئیں اور کئی مہینوں کے بعد گاندھی کو ۱۹۴۴ میں رہائی ملی۔’’ بھارت چھوڑو تحریک‘‘ سے پہلے گاندھی نے کہا تھا ’’ یا تو ہمیں بھارت کو آزاد کرنا چاہیے یا اس کوشش میں خود کو قربان کردینا چاہیے لیکن ہم کسی بھی قیمت پر تا عمر غلامی کی زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
بھارتیوں میں آزادی کا مطالبہ روز بہ روز تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔بالآخر برطانوی حکومت بھارت کی آزادی کے لیے بات چیت شروع کرنے پر مجبور ہوگئی۔
لیکن اس کا وہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوا جس کے لیے گاندھی اتنے دنوں سے جد و جہد کر رہے تھے۔ مؤنٹ بیٹن پلان کے تحت بھارت کو تقسیم کرکے دو آزاد ممالک یعنی انڈیا اور پاکستان بنا دیا گیا۔یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہوئی ۔ اس وقت جب دا رالحکومت دہلی میں قوم آزادی کا جشن منا رہی تھی مگر گاندھی کا متحدہ ملک کا خواب بکھر چکا تھا۔ تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی۔ تقریباََ ایک کروڑ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ نا پڑا۔مایوس گاندھی دہلی چھوڑ کر کلکتے روانہ ہو گئے تاکہ تشدد کی روک تھام کی جائے اور وہاں امن قائم ہو سکے۔ملک کی تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔ گاندھی کلکتے سے دہلی لوٹ آئے تاکہ وہاں مقیم مسلمانوں کی حفاظت کر سکیں جنہوں نے پاکستان جانے کی بجائے بھارت میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گاندھی نے ان مسلمانوں کے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کردی۔ ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو ایک دن جب وہ دہلی کے برلا ہاؤس ( موجودہ گاندھی سمرتی) میں ایک دعائیہ مجلس کے لیے جا رہے تھے تو ہندو مہا سبھا سے تعلق رکھنے والاایک انتہا پسنداور ہندو بنیاد پرست نتھو رام گوڈسے نے ان پر گولی چلائی۔ حادثہ کے فوراََ بعدا ن کو برلا ہاؤس لے جایا گیا مگر تب تک وہ دم توڑ چکے تھے۔ اس حملے سے پہلے ان پر پانچ مزید حملے ہوئے تھے ۔مگر ان سب میں قاتل ناکام رہے ۔ ان میں سب سے پہلی ناکام کوشش ۱۹۳۴ میں کی گئی تھی۔ سخت گیر ہندو حلقوں میں گاندھی کی موت پر جشن منایا گیا لیکن زیادہ تر بھارتیوں کے لیے مہاتما گاندھی کا قتل قومی صدمہ تھا۔ دہلی میں جب گاندھی کی آخری رسومات کا وقت آیا تو انہیں خِراج ِ عقیدت پیش کرنے کے لیے دس لاکھ افراد کی بھیڑ امڈ آئی۔دہلی میں بہنے والا دریا جمنا کے کنارے ان کی آخری رسومات کی گئیںاور عدم تشدد اور امن کے اس پجاری کی موت پر پوری دنیا کے لوگوں نے سوگ منایا۔ گاندھی اپنی زندگی میں ایک متحدہ بھارت کے خواب کو پورا ہوتے نہیں دیکھ سکے۔
اتحاد پارہ پارہ ہوتے ہی ملک بکھر گیا ۔ ورنہ یہی اتحاد ملک کو آزادی دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں