ڈاکٹر محی الدین زور ؔکشمیر
When the education system itself is corrupted, I wonder who will teach to fight corruption! (Adimonk)
رشوت بدعنوانیاں جیسے موذی امراض پر بات ہو رہی تھی کہ ایک صاحب بولے:
’’یہ ماسٹر بے چارے کیا رشوت لیں گے، جب انہیں دینے والا کوئی ملتا ہی نہیں۔۔۔‘‘
پتہ نہیں اس صاحب بے چارے نے ہم ماسٹروں پر طنز کیا ہے یا وہ اپنی معصومیت میں یہ الفاظ بول گئے۔!
ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں کہا ’’ماسٹر اگر پڑھائے گا نہیں یا طلبہ کو کوئی غلط راہ دکھائے گا، تو وہ مارل کرپشن ہوا‘‘۔ یہ بھی ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کی سادگی ہوئی، کیونکہ میرے نزدیک آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے اردو کے ایک معروف رائٹر مرزا محمد ہادی رسواؔ (مصنف ناول امراؤ جان ادا) نے اپنے ایک ڈرامے ’’مرقع لیلائے مجنوں‘‘ میں ایک استاد کا کردار ایسا پیش کیا جو اس وقت استاد ہوتا تھا، میرے زمانے میں تھا اور آج بھی ہمارا استاد ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی فرق نہیں البتہ۔۔۔!
یہ بیشتر لوگوں کی غلط فہمی ہے یا کم علمی یا ناتجربہ کاری جو وہ لوگ اکثر کہتے ہیں ہم سے پہلے کا زمانہ بہتر تھا۔ اس دور میں انسان ایسا نہیں تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔تعجب ہے کہ یہاں ۱۹۹۰ ء کے بعد کے پیدا ہوئے بچے کہیں، جوان کہیں یا طالب علم کہیں، اسکالر کہیں یا پھر ہمارے ساتھی وہ دور کتنا اچھا تھا۔ آج کل ٹکنالوجی اور اس بھاگم بھاگ نے ہمیںکسی کام کا نہیں رکھا۔۔۔‘‘
ارے بیٹا آپ تو گولیوں کے گن گرج میں پیدا ہوئے ہو اور آپ کی پرورش تو بارود کی بو باس میں ہوئی۔ تمہاری آنکھوں نے کون سے صاف و شفاف ندی نالوں میں تیرتی مچھلیاں دیکھیں، تمہاری آنکھوں میں سرمے کی جگہ پاواشل لگے اور تمہارا بچپن کھلے میدانوں میں کھیلتے کودتے نہیں بلکہ مسلسل ہڑتالوں کی وجہ سے بند کمروں میں گزرا۔۔۔۔!
تو جناب ہم بات کر رہے تھے کہ ہمارا ماسٹر جی رشوت لے سکتا ہے یا نہیں اور پرانے زمانے میں لوگ بشمول ماسٹر اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس بات کا جواب میں نے اپنے انداز میں دے دیا اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مختلف مسائل اور معاملات کو سمجھیں گے۔ میرے نزدیک ایسے پیچیدہ مسائل کا جواب نئے پرانے جھگڑے کو بیچ میں لانے سے رفع دفع نہیں ہو سکتا ہے، بلکہ جہالت اور زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اب اگر نئی نئی معلومات کو چھوڑ کر پرانی روایتوں کو ہی آپ گلے کا تعویز بنانا چاہتے ہو، تو ہمارے کلاسک لٹریچر میں بھی ان باتوں کا جواب ہمیں خوب ملتا ہے۔ جیسے مذہبی کتابوں میں ان تمام باتوں کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسری طرف لٹریچر میں الف لیلیٰ کی داستانوں اور سوم دیو کی کتھا سرت ساگر کو پڑھئے۔ وہاں آپ کو ہزاروں سالوں پہلے حضرت انسان کی لالچ کا خوب پتہ چلے گا۔ بقول فلم اسٹار امجد خان (مرحوم) ’’ہابیل اور قابیل نے میری فلم ’شعلے‘ دیکھ کر قتل نہیں کیا، بلکہ یہ ایک انسان کی فطرت ہے‘‘۔ کوئی دودھ کا دھلا نہیں اسی طرح ہمارا ماسٹر بھی وہ سب کچھ اچھا برا کر سکتا ہے جو ہمارے سماج کے دوسرے لوگ کرتے ہیں، مگر بقول سلمان خان ’’یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے‘‘۔
پہلے نقد اور جنس کی بات کرتے ہیں۔ ایک بار ہائی اسکول میں ماسٹروں کے آپس میں لڑائی ہوگئی، تو ایک ماسٹر جی کھل کر بولے۔ ’’میں وہ بلا ہوں کہ جس نے پورے مڈل اسکول کو لوٹ لے لیا ہے۔ مڑڈے میل، وردی اور کتابیں بھی‘‘ یعنی ایسا ڈائیلاگ مارا جیسے پریم چوپڑا کہتے تھے’’ میں وہ بلا ہوں جو شیشے سے پتھر کو توڑتا ہے‘‘۔ ایسے ہی ماسٹر جب ZEO بن جاتے ہیں، تو۔۔۔۔
اسی طرح ہائیر اسکنڈری اور چیف ایجوکیشن آفیسر اور ان کے دفاتر میں بھی طرح طرح کے لین دین ہوتے رہتے ہیں، جس پر تفصیلاً روشنی یہاں نہیں ڈالی جا سکتی ہے۔۔۔۔اب رہے ہمارے کالجز آج سے پورے پندرہ برس پہلے میں لالچوک کے ایک جانے مانے شوروم میں کچھ خرید رہا تھا کہ اس کے منیجر سے میری تھوڑی سی جان پہچان ہو گئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک پرنسپل صاحبہ کا نام لے کر مجھے کہا وہ وہ صاحبہ مجھے کہتی تھی کہ مجھے تو دو دو چیزیں چاہئے۔ ایک میرے کالج کے لئے اور ایک میرے اپنے گھر کے لئے، مگر بل تو آپ کالج کے نام کا ہی دیں گے، صرف ایک۔۔۔ ہوں ہاں۔۔۔ ہوں ہاں۔۔۔ دونوں ایک ساتھ ایڈجسٹ۔۔۔ میڈم یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کیونکہ ہماری کمپنی انٹرنیشنل ہے اور یہاں نیشنل لیول پر ایک ہی ریٹ پر مال بک جاتا ہے۔ آپ کسی اور دکان پر جایئے۔۔۔ہمارے پرنسپلز رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے، پھر بھی آج کل سرکار نے پرچیزنگ کے ایسے رولز بنائے ہیں کہ جہاں شفافیت کے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اگر سربراہ کی تعلیمی لیاقت اچھی ہے اور گھر بار سٹل ہے تو وہ کیوں غلط کام کرے گا۔ یونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے، مگر یہ لوگ اپنی خودمختاری کا بھرپور ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ اور وہاں کے منتظمین کا نفسیاتی تجزیہ کر لینے کے بعد مجھے وہ فلمی گانا یاد آتا ہے ’’میں چاہے وہ کروں میں چاہے یہ کروں میری مر۔۔۔ضی‘‘
آج کل کچھ مرکزی یونیورسٹیوں کی خود مختاری خطرے میں ہے، یہ سب کچھ کیا ہے، صرف ان کے کالے کرتوت۔ اب اگر ہم کشمیر میں یونیورسٹیوں کا حال جانیں گے، تو یہاں بھی ان سے ایک ایک چیز مرحلہ وار چھینی جاتی ہے اور چور کی داڑھی میں تنکا یہاں خوب نظر آجاتا ہے، اسی لئے بہت سارے لوگوں کی پینٹ گیلی نظر آرہی ہے۔۔۔ باقی فی الحال پردے میں رہنے دو پردہ نہ ہٹاؤ۔۔۔۔‘‘
اب یہاں مارل کرپشن پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک وسیع تر موضوع ہے، جس کے لئے الگ ایک دفتر چاہئے، فی الحال یہاں میرا صفحہ قرطاس بہت کم ہے، اسی لئے کبھی کھل کر بات کرتے ہیں۔کشمیر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں کے بڑے بڑے لوگ ابھی بھی جواہر ٹنل سے باہر کی دنیا سے ناواقف ہیں اور گھر میں بیٹھ کر سکندر اعظم کو گرانے کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں پرائمری اسکولوں سے لے کر اعلا تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ نے ایسے گناؤنے کام کئے کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈھندے مار مار کر دھکیلا گیا اور جو پردے کے پیچھے ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں۔ دلاور ڈار نے کہا ہے جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا، تو ان کے ہاں ایک ماسٹر جی نے کلاس کے بچوں کا ایک اسکارڈ ترتیب دے دیا تھا، جس کا کام یہ ہوتا تھا کہ ہر دن سبھی بچوں کے بستوں کی تلاشی لے لینا اور جس بچے کے بیگ میں جو چیز ہوتی تھی، اس کو نکال کر ماسٹر جی کے ٹیبل پر رکھا جاتا تھا۔ ماسٹر پیٹ بھر کر کھالیتے تھے اور ڈھکار پہ ڈھکار مار کر کلاس میں ہی خراٹے مارنا شروع کرتے تھے۔ اب جو کچھ بچتا تھا اسے اپنے بڑے بیگ میں رکھ کر اپنے گھر لیتے تھے۔ یہ بیسویں صدی کی اَسی دھائی کی بات ہے، جب گاؤں کے اسکول میں بچوں کے پاس ٹفن وغیرہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ گھر کی بنی ہوئی روٹی، چاول شکر ملاکر ، کھیرا، کوئی میوہ، شیرینی، گاجر، مکی کے بھٹے، اپریل کے مہینے میں بیج والا چاول وغیرہ وغیرہ۔ ماسٹر اس دور میں ہٹلر ہوتا تھا، جس کے رعب سے پیشاب چھوٹتا تھا۔ اس لئے بچے ماسٹر کے اسکارڈ کو دیکھ کر ہی اپنا اپنا مال نذر کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں کیا مجال بچے کے والدین اس معاملے میں کوئی مداخلت کرتے تھے، بلکہ وہ کبھی کبھار اپنے بچے کے دو جیبوں میں کھانے کی کچھ چیزیں رکھ لیتے تھے۔ ایک جیب بچے کے لئے اور ایک ماسٹر جی کے لئے۔۔۔ مزا آیا نا اس لئے باقی آئندہ۔