202

مال مسرُوقہ اور قرض داری کی عادت

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری

For money you would sell your soul (Sophocles Antigone)

پڑھ لکھ کر کسی کو نوکری مل جاتی ہے اور کسی کے نصیب میں نوکری کی بہار نہیںہوتی ہے لیکن میں نے اکثر دونوں طبقوں کے لوگوں کو خوشحال زندگی گذارتے ہوتے نہیں دیکھا کیونکہ امیروں کو چھوڑو جب عام یا متوسط طبقےکے لوگوں کی زندگی کا جائزہ لیں گے، جوں ہی انہیں چھوٹی بڑی نوکری مل جاتی ہے تو وہ یکدم اپنا لائف اسٹائل ہی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب آپ کی تنخواہ محدود ہے اور اس حساب سے آپ کا خرچہ ہے تو چند دنوں میں آپ رائیل کیسے بن سکتے ہیں۔ اس لئے یا تو لوگ رشوت لیتے ہیں، بےایمانی کرتے ہیں یا پھر بینک سے قرضہ لیتے ہیں، ممکن ہو سکے تو کسی یار دوست یا رشتہ دار کو بھی پٹا لیتے ہیں۔ انتہا کی منزل یہ ہے کہ لوگ اپنی عورتوں کے نام پر بھی قرضہ لیتے ہیں یا مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی خود اس کام میں برابر شریک ہوتی ہیں۔ بقول میرے دوست دلاور ڈار آج کل لوگ اپنی بیوی بہن کو بھی گروی رکھتے ہیں ۔ اب اگر قرضہ دار نے اس کو پکڑ لیا۔۔۔!
اس بات پر مجھے یاد آگیا اکثر لوگوں کو مفت کا ہی مال چاہئے۔ محنت کرنے کے عادی نہیں ہوتے یا لوگ ایمانداری سے کام نہیں کرنا چاہتے ہیں، بلکہ پیسہ بہت ہو، چاہے کوئی بھی غلط طریقہ بھی اختیار کر لینا پڑے جس کی مثال آج کل ڈریم 11 ہے۔ یہاں بھی ایک دو کوچھوڑ کر باقی لوگ کنگال ہو گئے ہیں۔
ڈرس، چرس اور دوسرے مختلف نشیلی چیزوں کا کاروبار ان کا استعمال ہمارے کشمیر میں اب عام ہو گیا ہے۔ شراب کے لئے اب سرکار بھی اجازت دیتی ہے اور سرکار ہی "نشے سے پاک کشمیر” جانکاری پروگراموں پر کروڑوں خرچ کرتی ہے۔ پتہ نہیں پھر یہ تماشا کس کے لئے ہوتا ہے؟۔
اچھا ہم بات کر رہے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو مفت کے یا دوسروں کے پیسے خرچ کرنے میں بہت مزہ آجاتا ہے۔ ادھر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں کے لوگوں کے پاس سب سے زیادہ موٹر گاڑیاںاور دیگر لکزری سامان ہے۔ پھر بھی ہم خود کو غریب کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ خود کو بے روزگار مانتے ہیں مگر بہاری مزدور یہاں اچھی کمائی کرکے کشمیر کو دوبئی سمجھتے ہیں ۔ میں کوئی ماہر اقتصادیات نہیں ہوں، اس لئے آپ ان سوالوں کا جواب خود سوچئے۔!
حال ہی کچھ ویڈیوز ایسے سامنے آگئے، جہاں جموں کشمیر بینک نے کئی لوگوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا۔ اسی طرح ایسے بھی ویڈیوز سامنے آگئے جہاں بیٹے کو ان کی بیوی بچوں سمیت گھر سے نکالا جاتا ہے۔
ایسے مسائل چینل والے اور یوٹیوبرس خوب وائرل کرتے ہیں اور یہاں کے بے کار دماغ گالیاں بک بک کر اپنے دل کے بھڑاس نکالتے ہیں۔ ویسے ہم نے 1947ء سے ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان کرکے صرف گالیاں ہی نکالی ہیں اور مسئلے کی تہہ تک جانے کی یا اسے حل کرنے کی کبھی سوچا بھی نہیں۔ دراصل ہر کہانی کے پیچھے ایک الگ حقیقی کہانی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص نے بینک سے کافی قرضہ لیا اور اپنے مکان کو یا اپنے والدین کے مکان کو بینک کے پاس گروی رکھا۔ بینک لون کو اپنی عیاشی یا اپنی نادانی میں اُڑا لیا اور خود روپوش ہو گیا۔ اب بینک والے ان کے بزرگ والدین کو ٹھٹھرتی سردی میں گھر سے نکالیں گے اور اس کی جائیداد ضبط کرلیں گے۔ یہ قانون ہے اس پر ہا ہا کار مچانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ اسی طرح ایک بھائی کو جائیداد میں اپنا حصہ والدین نے ادا کیا اور وہ موج مستی کرنے لگا۔ اس بیچ میں کسی لڑکی کو بھی بھگالے گیا۔ کبھی یہ بزنس کیا اور کبھی وہ۔ آخر میں اس کا حاصل زیرو آگیا۔ پھر وہ اپنی بیوی بچوںکو لے کر اپنے باپ اور دوسرے بھائیوں کے پاس جائے پناہ مانگنے کے لئے جائے گا۔ اس کا باپ بوڑھاپے میں بھی محنت کرتا ہے اور اس کے بھائی بھی جفاکشی کرکے آدھی روٹی کھاتے ہیں، معمولی کپڑا پہنتے ییں۔ تو ان حالات میں انصاف یہی ہے کہ خونی رشتے سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے کیونکہ زندگی میں جس کسی بھی شخص نے نہ خود کی بھلائی کے لئے سوچا اور نہ اپنے بیوی بچوں کے لئے ۔۔ اس منحوس پر رحم کھانا ایک سپولے کوپالنے کے مترادف ہے۔۔۔!
اسی طرح انشورنس کمپنیوں کامعاملہ بھی بہت گڑ بڑ گوٹالہ ہے۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ کوئی اپنے مکان دوکان گاڑی وغیرہ کا انشورنس کراتا ہے پھر اپنے گھر یا دوکان سے سامان نکال کر خود ہی اس کو آگ لگاتا ہے اور انشورنس کمپنی کے ایجنٹ یا ایسے واردات سےمتعلق ان کے ملازم کو رشوت دیکر اپنے حق میں ان سے رپورٹ لکھواتا ہے اور مفت کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے۔ اسکوٹر گاڑی میں معمولی سی چوٹ لگ گئی اور پھر اس کو پتھر ہتھوڑے سے پوری طرح توڑتے ہیں تاکہ انشورنس کلیم پوری ہو جائے گی۔ حد یہ ہے کہ ایک بڑے تاجر نے اپنے باپ کا انشورنس کروایا اور وہ دوسروں کا قرضہ اٹھاتا رہا۔ پھر اس کو اپنے گھر کے ورنڈا پر سردی گرمی میںرکھتا تھا۔ جو بھی قرض خواہ قرض واپس لینے کے لئے اس کے پاس آتاتھا تو وہ شخص اپنے گھر آنگن میں اس کے لڑائی جھگڑا کرتاتھا ۔ان کے کسی نیک پڑوسی نے ایک قرض خواہ کو بتایا کہ یہ شخص اپنے باپ کو کسی بھی طرح مارنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے تاکہ وہ انشورنس کمپنی سے بھی مال لے لے گا اور جس کسی شریف کےسر اس کے بزرگ باپ کا قتل چڑھے گا، اس سے بھی مال بٹور لے گا۔ اس لئے اس کے پاس ہی مت جاؤ۔!
ایک دن ایسا بھی ہوا یا ہماری سوسائٹی میں بھی ہو رہا ہے کہ ایک بزا ر نے اپنی دکان سے مہنگا والا کپڑا نکال کر اپنےگھرمیںرکھا اور رات کے وقت دکان کا تالا توڑ کل صبح پولیس اسٹیشن میں ڈکیٹی کی رپورٹ لکھوائی۔ چونکہ پولیس کے پاس سونگھنے والے کتے ہوتے ہیں، انہوں نے کاروائی /تفتیش شروع کردی تو سونگھتے سونگھتے کتے سیدھے ان کے گھر آگئے اور اس طرح کپڑا ان کے اپنے گھر سے برآمد ہوا۔ پھر انہیں چوری کا کیس اُلٹا اپنے گلے میں پڑ گیا۔ الغرض کشمیری زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ آپ کے پاس جتنی لمبی چادر ہے اتنے ہی لمبے آپ اپنے پیروں کو پھیلا دو۔ آپ کہیں گے کہ یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ انسان کبھی کبھار سوسائٹی کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی اپنی فیملی کے ہاتھوں میں بھی۔ جیسے ایک قناعت پسند اور ایماندار شخص کو سماج طعنے دے دیتا ہے کہ آپ پیسہ کیوں نہیں خرچ کرتے ہو یا کبھی کبھار اس کے اپنے بیوی بچے یا والدین بھی انہیں کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا اور پڑوس کے فلاں فلاں کو دیکھو!۔
ان حالات میں ایمانداری اور سچائی کے ٹریک پر چلنا یوں تو بڑا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، جس کے لئے ہمیں اپنے دل اور دماغ کا توازن ہمیشہ برقرار رکھنا چاہئے اور صرف اپنے لئے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جینا چاہئے نہ کہ دوسروں کے لئے کیوں کہ سماج کبھی بھی کسی سے خوش نہیں رہتا ہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں