42

انتخابات کا پہلا راونڈ،اور رحجانات

رشید پروین ؔ سوپور

۷ اضلا ع کی ۲۴ سیٹوں کے لئے ووٹنگ اختتام تک پہنچ چکی ہے اور مجموعی طور پر اُمیداواروں کی قسمت کے فیصلے مشینوں میں بند ہوچکے ہیں جن کی تعداد ریکارڈ ۲۱۹ ہے۔ وؤٹنگ کی شرح نے بھی ریکارڑ ہی بنایا ہے یعنی لگ بھگ ۶۱فیصد جو اپنے آپ میں یہاں ایک ریکارڈ ہے اور اسی لئے لیفٹننٹ گورنر صاحب نے کشمیر ی عوام کو مبارکباد دی ہے اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ اس مبارک بادی کے مستحق بھی ہیںکیونکہ جمہوری جشن میں اس تعداد میں شامل رہنا جمہوریت پر یقین کی بھی ایک شکل شاید ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ دوئم یہ کہ ان اضلاع میں بڑی مدت کے بعد پُر امن ووٹنگ ہوئی ہے اور اکا دکا چھوٹے چھوٹے واقعات کے سوا کوئی لا اینڈ آرڈر والا معاملہ نہیں بنا ہے۔
اس بار ان انتخابات میں بہت کچھ نیا بھی سامنے آیا ہے جس نے ان انتخابات کو اہم اور انفرادی حیثیت اور مقام عطا کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ جماعت اسلامی نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا ہے، اس سے پہلے اگلے وقتوں میں اگر چہ وہ الیکشنوں میں حصہ لیتے رہے ہیں لیکن اس کے بعد انہوں نے بار بار بائیکاٹ کال دے کر انتخابات کو بے معنی ہی کر دیا تھا کیونکہ اس پورے پیریڈ میں ان کی کال کا بہت زیادہ اثر شہر و گام میں رہا کرتا تھا اور این سی یا کانگریس کے امیدوار جو سڑکوں پر کبھی نظر نہیں آیا کرتے تھے اور جنہیں کوئی کمپین نہیں چلانی پڑتی تھی محظ ایک مختصر سی وؤٹوں کی تعداد سے اسمبلیوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ پچھلے الیکشن میں جماعت نے پی ڈی پی کو حمایت اور ووٹ دے کر ۲۸ کے ہندسوں پر فائض کیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ جنوبی کشمیر میں این سی کا مکمل صفا یا ہوچکا ہے اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی کیونکہ شمال و جنوب کے عوام یکساں طور این سی سے اوب چکے تھے اور متبادل کی تلاش میں انہوں نے پی ڈی پی کا ساتھ دیا تھا، لیکن پی ڈی پی نے بی جے کے ساتھ تعاون کرکے اپنی گاڑی کو ریورس گئیر میں ڈال دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ این سی اور پی ڈی پی دونوں نے جماعت اسلامی سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے جن کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ ان سوالات کے جواب میں جماعت نے اپنا یہ موقف اپنایا کہ ہم نے کبھی الیکشنوں کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس لئے الیکشنوں سے دور رہے تھے کہ ۸۷ ۱۹ میں جس طرح سے یہاں جمہوری دلہن کی عصمت دری ہوئی تھی وہ کسی سے چھپی نہیں اور اس مایوسی کی وجہ سے ہم بھی دور ہی رہے، شاید متن یہی ہے۔این سی کا صفایا تو جنوبی کشمیر میں بہت قریب تھا لیکن اس ایک غلطی نے پی ڈی پی کو کہیں کا نہیں رکھا اور دوسری اہم بات یہ کہ این سی کو پھر ایک بار یہاں آکسیجن مل چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ نئے سرے سے یہاں سروایو کرنے کے قریب ہے کیونکہ اب عوام کا مسئلہ ہے کہ ووٹ کس سے دیں ؟ کون ہے جو ان کے درد کا درماں بن سکتا ہے؟ اس سے آپ یوں سمجھ لیجئے کہ کسی پیر بابا نے اپنے عقیدت مند کو یہ تعویز دیا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’’ اے لوگو چرس پینا حرام ہے لیکن اگر پینا ہی چاہو تو اسی دکان سے پینا‘‘، سو جب ووٹ ہی دینا ہے تو کشمیر کی پہلی اور پرانی پارٹی کو کیوں نہیں ؟
ان انتخابات کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ جہاں یہ انتخابات کشمیر کی پوری سیاست کا رخ تعین کر یں گے وہاں جنوبی کشمیر میں این سی پی ڈی پی کی سمت کا تعین بھی ہوگا کہ کون اب کتنے پانی میں رہ چکا ہے۔ ان انتخابات کی ایک اور بات جو اہم ہے وہ انجینئر رشید سے متعلق ہے، رحجانات اگر چہ واضح نہیں اور نہیں کہا جاسکتا کہ اندر جا کر کس نے کس پارٹی کو ووٹ کیالیکن ایسا اندازہ ہورہا ہے کہ دونوں این سی اور پی ڈی پی رشید کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران انجینئر زبردست نیوز میں رہا اور دیکھا جائے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی چھایا رہا اور اس کی وجہ بھی یہی بنی کہ این سی ،کانگریس اور پی ڈی پی نے اپنے ہر جلسے میں انجینئر کا ذکر کیا ، یہ ذکر کیسے کیا اور کِن الفاظ میں کیا اس سے نظر انداز کر کے یہی کہا جاسکتا ہے کہ بار بار اس کا نام لینا اس کی ایک طرح کی پبلسٹی ہی سمجھی جاسکتی ہے۔ بہر حال اس پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ بی جے پی کا پراکسی امیدوار ہے۔ اب ماضی میں جھانکتے ہیں تو ایک بار ڈاکٹر عبداللہ نے بھی بی جے حکومت کو تعاون دیا تھا جس کے بدلے میں عمر عبداللہ مرکز میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنائے گئے تھے اور ۲۰۱۴ میں تو واضح طور پر پی ڈی پی نے بی جے پی کے تعاون سے ہی سرکار بنائی تھی۔ اس بات کے لئے اب ڈاکٹر فاروق اور عمر عبداللہ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ تب کے بی جے پی اٹل جی کی تھی اور محبوبہ یہ دلیل اور منطق آگے بڑھا رہی ہے کہ مر حوم مفتی سعید کا وژن تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ دونوں بہت دور کی کوڑیاں لاتے ہیں جن کی کوئی اہمیت اور حقیقت نہیں ، بلکہ اس دلیل میں کہیں سے کوئی وزن نہیں لگتا کیونکہ کیا اٹل جی کی بی جے پی کا منشور ، اہداف ، اور پالیسی اس بی جے پی سے مختلف تھا؟ پوچھا جاسکتا ہے کہ تب کے بی جے پی کے اہداف میں بابری مسجد، مسلم دشمنی اور ۳۷۰ کے بارے میں کیا رائے مختلف تھی ؟ بالکل بھی نہیں بس ان کے اعداد لوک سبھا ،راجیہ سبھا میں پورے نہیں تھے ، اس لئے اس طرح کے دلائل نہ دئے جائیں تو اچھا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ انجینئر کو ۲۰۱۹ میں یو اے پی اے کے تحت عسکریت پسندی کی فنڈنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر ملک کی سرکار کے پاس بے شمار قوانین ہوتے ہیں جن کے تحت کسی کو بھی زیر حراست لے کر برسوں پابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے ، یہ کوئی انہونی نہیں اور ۵ برس کے بعد جب وہ پارلیمنٹ ممبر بن چکے ہیں تو انہیں عبوری ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔رشید نے شمالی کشمیر میں عمر عبداللہ کو حالیہ پارلیمنٹ الیکشن میں دو لاکھ سے بھی زیادہ وٹوں سے شکست دی تھی ، اتنے مارجن سے اس کی جیت اگر چہ حیران کن بھی ہے لیکن یہ سب کچھ ابھی دھند میں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ پراسیس میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی کیونکہ کسی بھی پارٹی نے ایسا کو ئی الزام نہیں لگایا۔ بہرحال رشید آج بھی کم سے کم زبانی، مسئلہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی بات کر رہا ہے اگر چہ ان تلوں میں بھی کوئی تیل نہیں بچا ہے۔ این سی کانگریس کا اتحا د کہہ رہا ہے کہ ریاستی درجہ بحال کروائیں گے ، یہ امیت شاہ کا ایک وعدہ ہے جو اس وقت سامنے آیا تھا جب ۵ اگست ۲۰۱۹ کو جموں کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کیا گیا تھا ،اور اب بھی امیت شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ صحیح لگتا ہے۔ لیکن یہ ریاستی درجہ اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب یہ درد کا کسی طرح در ماں نہیں ہوگا۔
جموں خطے میںجہاں بی جے پی کی اُمیدوں کے چراغ روشن ہیں وہاں آج انہیں اپنے ہی باغی امیدواروں کا بھی سامنا ہے جنہیں بی جے پی منڈیڈیٹ نہیں دے سکی اور بالکل اسی طرح سے گھاٹی میں بھی این سی کانگریس اتحاد کو بھی ایسی ہی مشکلات کا کئی حلقوں میںسامنا ہے جہاں باغی امیدوار کھڑے ہوئے ہیں۔
اسی بیچ شمالی کشمیر میں ایک نئی پارٹی منصہ شہود پر آچکی ہے جس کے سر براہ میر جنید صاحب بتائے جا رہے ہیں۔ ہم نے اس سے کبھی دیکھا نہیں ہے اور نہ سیاسی طور پر ان کے قد کاٹھ سے ہی واقفیت ہے ، یہ نام بھی شاید کبھی ہی سنا ہولیکن ایسا کہا جارہا ہے کہ یہ صاحب کئی برسوں سے سفارتی محاظ پر سرگرم ہیں اور دوسرے ممالک میں ہندوستان کے موقف اور نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دہلی اور کشمیر ایڈ منسٹریشن کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو یا نہ ہو لیکن انہوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ انجینئر واقعی بی جے پی کا پراکسی ہے اور یہ کہ وہ مودی اور امیت شاہ سے سودا کر کے آیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگرچہ یہاں کئی پارٹیاں بی جے پی کی ہیں لیکن انجینئر رشیدبی جے پی کا پلس اے ہے۔ اب اگر یہ درست ہے تو میر جنید صاحب اس راز کو ایکسپوز نہیں کر سکتے تھے ، اس لحاظ سے کہ اگر وہ واقعی دلی اور کشمیر ایڈمنسٹریشن کے قریب ہیں۔بی جے پی لیڈر انو راگ ٹھاکر نے بیان جاری کیا ہے کہ رشید کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور یہی سوشل میڈیا پر بی جے پی صدر رویندر رینہ نے بھی وائرل کیا ہے ا ور اس بیان کو شر انگیز اورکسی کی شرارت قرار دیا ہے جس میں بی جے پی کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ انجینئر کا استقبال کریں۔ میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ سیاست میں جو نظر آتا ہے اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور جو دکھائی نہیں دیتا وہی حقائق ہوتے ہیں ، سو ، تھوڑا سا انتظار چاہئے ، تو بات کھل کر سامنے آئے گی، کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ بول رہا ہے ؟ اس کا فیصلہ بھی بالکل جلد ہو جائے گا لیکن میرا اپنا یہ احساس ہے کہ کشمیری عوام تھوڑا سا شاید سیاسی طور بالغ بھی ہوئے ہیں کہ الزامات اور ایک دوسرے کے خلاف زبردست بیانات کو نظر انداز کر کے اپنی ایک نپی تلی رائے قائم کر کے اپنے من کے اندر چھپائے رکھتے ہیں۔ یہ بے شمار لوگوں سے ملاقات کرکے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ من کی بات زباں پر نہیں لاتے، ہر امیدوار کو خوش رکھتے ہیں اور اصل اپنی رائے دینے سے احتراز کرتے ہیں۔
ادھر شمال میں سجاد غنی لون اتنے متحرک نظر نہیں آتے اور نہ اس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو الیکشن کے دوران پارٹی سربراہاں کرتے ہیں ، انہوں نے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے یعنی ان کے موقف کا دفاع کیا ہے اور ساتھ ہی انجینئر کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کسی بھی شخص پر کوئی بھی لیبل چسپاں کرنے کا رواج شروع ہی سے جاری ہے اور آج بھی اگر انجینئر پر لیبل چپکائے جارہے ہیں تو اس میں نیا کچھ نہیںلیکن ہمیں یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ این سی کانگریس اور دوسری کچھ چھوٹی پارٹیاں تو سجاد غنی لون کی پیپلز پارٹی کے لئے بھی یہی رائے رکھتی ہیں اور اس کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ کیا یہ تہہ در تہہ پھڈا نہیں ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں