135

کورونا وائرس : بارہویں عالمی وباء:

جاوید احمد حرا

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وباء کوئی پہلی عالمی وباء نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایسی کم از کم گیارہ عالمی وباؤں نے نسل انسانی کو شدید متاثر کیا ہے، اور یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو عالمی وبائیں ہوتی ہیں، اس سے ساری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ کوئی بھی یہ امید کرسکتا ہے کہ یہ وبائیں ملکوں کو فتح کرتی ہیں اور نہ ہی ان کی تاریخ کو تبدیل کرسکتی ہیں۔ ان وباؤں سے مقابلہ یا ان پر کنٹرول کیلئے جو کلید ہے، وہ دراصل اس وباء کی اصل وجہ دریافت کرنا ہے اور یہ اندازہ لگانا ہے کہ کیسے منظر عام پر آتی ہیں، اس سے کس طرح تباہی پھیلتی ہیں اور اس تباہی کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔
طبی سائنس داں اور ماہرین اس بات کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ وباؤں پر قابو پایا جائے لیکن بعض وبائیں ایسی ہوتی ہیں، جو قابو سے باہر ہوتی ہیں جس کا نتیجہ نسل انسانی کی تباہی کی صورت میں منظر عام پر آتا ہے۔ ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کورونا کسی بھی طرح پہلی عالمی وباء نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کی خطرناک گیارہ وباؤں کا اس دنیا نے سامنا کیا ہے اور اب کورونا بارہویں عالمی وباء کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔
جہاں تک تاریخ کا سوال ہے، یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ پہلی آفت ببونک پلیگ کے باعث منظر عام پر آئی تھی۔ دراصل یہ بات چھٹویں صدی کی ہے، جب مصر کی ایک بندرگاہ پر اچانک یہ وباء پھوٹ پڑی۔ ریکارڈ میں اس آفت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطابق اسے Pestilence کا نام دیا گیا جبکہ لفظ عالمی وباء حالیہ دنوں کی اختراع ہے۔ اُس وقت ببونک پلیگ بڑی تیزی سے پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قسطنطنیہ تک جا پہنچا اور پھر وہاں کے بحیرہ ایڈرپاٹک عبور کرکے روم اور پھر روم سے مشرقی و مغربی رومی سلطنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ابتدائی برسوں میں پلیگ کو ’’سیاہ موت‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ وباء جو مصر سے پھوٹ پڑی تھی، پھیلتے پھیلتے مغربی یوروپ بشمول برطانیہ کو بھی متاثر کرگئی۔ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ اس وقت قسطنطنیہ میں جسٹینین جیسے حکمران کی حکومت تھی۔ جہاں تک جسٹینین کا سوال ہے، تاریخ میں ان کے کئی کارنامے میں نے پڑھے ہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے ہی آیا صوفیہ جیسی فن تعمیر کی شاہکار عمارت تعمیر کروائی تھی اور پھر ایسا بھی وقت آیا جب ترک فاتحین نے اس پر چار بلند و بالا میناریں تعمیر کرواتے ہوئے اسے ایک مسجد میں تبدیل کردیا، لیکن مصطفی کمال اتاترک نے 1920ء کے اوائل میں اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کردیا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے حالیہ عرصہ میں دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا۔
بعض مورخین کا ایقان ہے کہ پلیگ مشرقی رومی سلطنت کیلئے ایک بہت بڑا دھکہ تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ کمزور ہوگئی۔ دوسری طرف اس کے بعد اقتدار پر آنے والے بازنطین بھی وسطی ایشیا کے ترکوں کے سامنے ٹھہر نہیں پائے۔ ان ترکوں نے پہلے اناطولیہ پر قبضہ کیا اور پھر قسطنطنیہ ان کے کنٹرول میں آگیا۔ ان لوگوں نے قسطنطنیہ کا نام تبدیل کرکے استنبول رکھ دیا، ان تمام واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عالمی وباء کس طرح معاشروں اور تہذیبوں کی تقدیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔
اسی طرح مشرقی رومی سلطنت کے اوتار میں عیسائیت روبہ زوال نہیں ہوئی لیکن رومی سلطنت زوال کا شکار ہوگئی۔ استنبول میں چرچ ہنوز ایک ہیڈکوارٹر کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ وہاں صرف 2 تا 3 فیصد عیسائی مقیم ہیں۔ببونک پلیگ کے بعد چیچک کی وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ وقفہ وقفہ سے منظر عام پر آئی۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو چیچک دراصل ایک بیماری تھی لیکن خوف کے مارے وہ وباء بیماری سمجھ لی گئی۔ کچھ دہے قبل تک بھی چیچک سے لوگ دہشت میں مبتلا رہا کرتے تھے۔
آج بھی ایشیا کے مختلف حصوں میں ہر نومولود کو لازمی طور پر چیچک کا ٹیکہ دیا جاتا ہے۔ خوف اور دہشت کے مارے ہندوستان میں ، اس بیماری کی ستالا دیوی کی حیثیت سے پوجا تک کی جاتی ہے اور ملک میں کئی مقامات پر ستالا دیوی کی منادر تعمیر کی گئی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیماری دراصل گایوں، اونٹوں یا بندروں کے لائے ہوئے وائرس سے پھیلی اور ان جانوروں نے ہوسکتا ہے کہ اس وائرس کو انسانوں میں منتقل کیا، لیکن چیچک کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1100 قبل مسیح میں اس بیماری کا پتہ چلتا ہے۔
دراصل مصر کے حنوط کردہ نعشوں میں اس کی علامتیں پائی گئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک یا دو رومی حکمراں چیچک کے نتیجہ میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ چیچک سے مغربی یوروپ خاص طور پر اسپین بھی نہیں بچ سکا۔ جہاں سے وہ سولہویں صدی کے اوائل میں لاطینی امریکہ پہنچ گیا۔ اس بیماری کا ہسپانوی حکومتوں نے یہ حل نکالا کہ جس گھر کے لوگ متاثر پائے گئے، اس گھر کو منہدم کردیا۔ اس سے بہت سارے لوگوں کی زندگیاں بچائی گئی۔ہیضہ ایک اور خطرہ کی شکل میں ظاہر ہوا ۔
خاص طور پر پانی اور دوسرے سیال چیزوں کے ذریعہ یہ پھیلتا رہا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہیضہ سب سے پہلے گنگا ڈیلٹا سے شروع ہوا اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے دور دراز کے مقامات بشمول روس تک پھیل گیا اور پھر انیسویں صدی کے اوائل میں یوروپ میں بھی پھیل گیا اور اس جراثیم نے بحرالکاہل کو عبور کرکے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور پھر لاطینی امریکی ممالک بھی اس سے متاثر ہوگئے لیکن انیسویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے سائنس دانوں نے ہیضہ کی وباء پر تحقیق کرتے ہوئے اس کی حقیقی وجہ یا سبب معلوم کرلیا۔
اس دریافت کے باوجود ہیضہ نے آگے بڑھتے ہوئے انڈونیشیا، جنوب مغربی ایشیا اور پھر بعض آفریقی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں کو اس خطرے سے بچانے کیلئے آلودہ پانی سے دور رکھنے کی ضرورت تھی۔آپ کو بتادیں کہ مغربی ممالک میں ہیضہ کی وباء کو ’’بلو ڈیتھ‘‘ کا نام دیا گیا۔ بہرحال آگے بڑھتے ہوئے آپکو بتادیں کہ ڈفتھیریا ، ڈائفائیڈ، پولیو، انفلونزا اور زرد بخار بھی وباؤں میں شامل ہے۔ ہیضہ کی طرح ٹاائفائیڈ بھی پانی یا سیال چیزوں سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ جبکہ پولیو، خسرہ اور انفلونزا ہوا کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریاں ہیں۔ ان تمام کے جراثیم یا وائرس بھی مختلف ہوتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد انفلونزا نے ساری دنیا میں دہشت مچا دی تھی۔ ملیریا کی بیماری بھی منفرد رہی۔ ہندوستان میں عملاً اس بیماری کا خاتمہ کردیا گیا لیکن دوبارہ عود کرآئی۔ ہندوستان میں ہم بدقسمتی سے مچھروں کی افزائش کا موقع دیتے ہیں۔ عصری یوروپی تاریخ کے مطالبہ کے دوران مجھے اس بات کا پتہ چلا کہ نپولین بوناپارٹ کے فوجیوں کی کثیر تعداد زرد بخار کی زد میں آکر اپنی زندگیوں سے محروم ہوئی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں