228

کشمیر ۔۔۔ کیا کچھ بڑا ہونے والاہے ؟

رشید پروین، سوپور

(پرائم منسٹر مودی نے اقتدار میں آکر دو بڑے چناوی وعدے پورے کئے ہیں ،، اور اب دیکھنا یہ ہے کہ 5 اگست 2021 ء کو کیا بڑا ہوگا ؟ )

یہ ڈائیلاگ پچھلے ایک برس سے مسلسل این ڈی ٹی وی کے ایک اینکر دہراتے رہے ہیں اور جب بھی مجھے اس اینکر کو سکرین پر یہ جملہ دہراتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہواہے میں ذہنی طور پر اس جملے کے ساتھ یہ ٹکڑا لگادیتا ہوں کہ ، ”جو کچھ بھی ہونا ہے کشمیر میں ہونا ہے“اس کی میرے پاس دلیل یہ ہے کہ سارے بھارت پر نظر دوڈانے کے باوجود مجھے کہیں نہیں لگتا کہ کہ کچھ اور بڑا ہونے والا ہے کیونکہ بڑے اعلانات ہوچکے ہیں اور سارے بھارت دیش کو ایک مخصوص سمت دی جاچکی ہے جس کی طرف سفر بھی جاری ہے لیکن کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں ابھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ، ، اس کے باوجود کہ بہت کچھ ہوچکا ہے ،اور اگر کچھ اور کرنے کی ضرورت بھی نہ ہو تب بھی کشمیر میں کچھ نہ کچھ کرنا لازمی ہی سمجھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو کچھ بھی ہونا ہے اس کا اعلان اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو ۵ اگست کو ہوسکتا ہے کیونکہ مودی جی ۵اگست ہی کو اب تک اپنے دو بڑے اعلان کر چکے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ ان کے نجومیوں نے کن وجوہات کی بنیادوں پر ان کے لئے ۵ اگست کو شبھ دن سے تعبیر کیا ہے، اس کے پیچھے کی منطق یوں بھی کوئی ہمارے لئے اہم بات نہیں ۔
بہرحال اب آتے ہیں اس بات پر کہ کشمیر میں کیا نیا ہوسکتا ہے؟ اگر چہ جس آندھی کو آناہے اس کی رفتار ، چال ڈھال، پیچ و خم اور ۔ خدو خال پہلے ہی عیاں ہوچکے ہیں اور اس کی دھندلی دھندلی تصویریں بھی نظروں کے سامنے ابھر چکی ہیں لیکن واضح طور پر انہیں سکرین پر شاید اسی 5 اگست کو لایا جائے، تب تک یہاں کے عوام، خوبصورت پیرہن میں لپٹے اس ”پیکر حسن ‘ِ‘ سے کسی حد تک مانوس بھی ہوچکے ہوں گے ، ، ایسا کیسے ہوتا ہے؟افواہیں ۔ ماڈرن ڈیمو کریسیز میں ایک سائنٹفک عمل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ در اصل سبھی ڈیمو کریٹک یا نام نہاد جمہوری ممالک میں ”افوہ “با ضا بطہ ایک سائنس کا روپ دھا ر چکی ہے ا ور جب بھی سرکار اور ، ”اقتدار ‘کو کوئی ایسا کام کر نے کا ارادہ ہوتا ہے جس کے بارے میں منفی عوامی ردِ عمل کے بھی خدشات ہوں اس کے لئے یہ ، ”افواہی سائنس“ بہت ہی کار آمد اور کامیاب سمجھی جاتی ہے ، افواہ ، یا ،فیلر، چلایا جاتا ہے ، جب عوامی تشویش کا اظہار ہوتا ہے توسبھی کلیدی عہدے دار ان افواہوں کی تردید کرتے ہیں ، افواہ پھیلانے والوں کو مجرم قرار دےکر انہیں سزائیں دینے کی بات کرتے ہیں، عوامی رد عمل ہی ارباب اقتدار کے لئے یہ طئے کرتا ہے کہ افواہ کو عملی شکل میں زمین پر اتارا جائے کہ نہیں ؟ اور اگر لازماً ہی اتارنا ہو تو گھناونی اور کریہہ اشکال کو کن خوبصورت پردوں میں لپیٹ کر سامنے لانے کی ضرورت ہے ، یہ ” افواہی سائنس “ہی کی مدد سے طئے کیا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں کشمیر کی نوعیت ہی الگ ہے۔ یہاں افواہ چلتی ہی اس لئے ہے کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے اور جب یہ ”کچھ بڑا “ٹھوس شکل میں زمین پر چلتا پھرتا نظر آئے تو عوام کسی طرح اس حسن پیکر سے اجنبیت اور بیگانہ پن محسوس نہ کریں ۔
اب آپ کو یاد آیا ہوگا کہ اگست دو ہزار انیس سے ایک دو ماہ پہلے افواہوں کا ایک ایسا ہی ریلہ یاطوفان بڑی تیزی سے کشمیر میں چلنے لگا تھا ، عوام کے کانوں تک یہ بات بھی پہنچائی گئی تھی کہ اپنے اپنے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاءسٹور کریں ، ،ہڑتال ہوگی ، کرفیو ہوگا اس طرح ایک بہت بڑا دہشت کاماحول پیدا کیا گیا تھا، اور تب کے گورنر کشمیر ستیہ پال ملک نے افواہوں کے اس عروج میں ایک بہت بڑی پریس بریفنگ دی تھی، کئی بیانات داغے تھے اور دیکھتے دیکھتے دوسرے بڑے عہدے داروں نے بھی یہی الفاظ دہرائے تھے کہ” یہ سب افواہ بازوں کی کارستانی ہے ،، سماج اور انسان دشمن لوگ کشمیری عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، اور یہ لوگ یا سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے عوام کو دہشت زدہ کر رہے ہیں، پیرا ملٹری کی نقل و حرکت کومعمول اور کچھ اضافی یونٹس کو امر ناتھ یاترا سے منسلک کیا تھا ”ہم یقین دلاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا اور ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں “، لیکن یہ بھی یا دہوگا کہ ابھی یہ بیانا ت ٹیلی کاسٹ ہی ہورہے تھے۔ ابھی ان الفاظ کی سیاہی بھی نہ سوکھی تھی کہ ۵ اگست کا لاک ڈاون شروع ہوا اور وہ افواہیں اپنی پوری شکل و صورت میں زمین پر چلتی پھرتی نظر آئیں ، بلکہ افوہوں کی دہشت سے بھی زیادہ دہشت انگیز صورت میں حقائق سامنے کھڑے تھے ، اب آپ محترم گورنر صاحب سے یہ تو کبھی پوچھ نہیں پائیں گے کہ یہ بیانات اور سامنے پیش آنے والے حقائق میں اتنا بڑا تضاد کیا ہے ؟ ۔ سیاست۔۔۔ کیونکہ اس صدی کے سارے بڑے گرو گھنٹال اسی ایک سمندر میں تیرتے رہتے ہیں اس لئے اتنے بڑے جھوٹ اور فریب دے کر نہ تو کوئی شرمندہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سبکی محسوس کرتا ، ہے۔
اور اب کشمیر میں پھر ایک بار بلکل وہی ماحول اور سیاسی فضا بن چکی ہے یعنی افواہوں کی سائنس کا بھر پور استعمال ہورہا ہے اس پر کوئی بحث اب فضول ہے کہ یہ افواہیں کہاں سے اڈتی ہیں کیونکہ جب کوئی سبجیکٹ یونیورسٹی میں ایک برانچ کے طور تسلیم ہوتا ہے تو اسکے لئے وہ تمام انسٹرومنٹ بھی لازماً مہیا رکھے جاتے ہیں جن کی مدد سے اس سبجیکٹ کو متعارف کیا جاتا ہے یا پڑھایا جاتا ہے ،،، تازہ ترین گردش میں آنے وا لی افواہوں کی رو سے جموں و کشمیر کو ٹکڑ وں میں بانٹنے کی باتیں آرہی ہیں جس طرح کہ ایک قصائی بھیڑ کے انگ انگ کو ضرورت کے لحاظ سے الگ الگ ٹکڑوں میں فروخت کرتا ہے ، افواہوں کے مطابق جموں کو سٹیٹ کا درجہ دیا جائے گا کشمیر اور لداخ ”یوٹی کہلائیں گے لیکن کشمیر کو تقسیم در تقسیم کر کے مزید دو ٹکڑوں میں بانٹا جائے گا ، تاکہ ایک ٹکڑے کی کوکھ سے ”پنن کشمیر جنم لے سکے “۔ ہمارا خیال پہلے کچھ اور تھا جو قرین قیاس تھا کہ شاید حد بندی میں ہی سرکار کے اہداف پوشیدہ ہیں اور یہ بڑا اعلان محظ جموں کی نشستوں میں اضافگی کی صورت سے آئے گا ، لیکن معاملات اس سے بھی بڑے اور چونکا دینے والے ہوں گے ،آپ کو یہ یاد ہوگا کہ نیشنل کانفرنس اس حد بندی کیمشن کا بائیکاٹ کرتی رہی ہے ،لیکن ابھی کچھ ہفتوں سے نیشنل کا موڈ بلکل بدل چکا ہے اور آگے وہ اس حد بندی کمیشن کا حصہ ہوں گے ، یہ سیاسی لحاظ سے ایک اہم قدم بھی ہے اور شاید اس قدم کے تار بھی ان افواہوں سے کہیں جڑے ضرور ہیں ، یہ پارٹی بھی اپنی مجبوری کے تحت نئے حالات کے ساتھ ڈھلنے کے لئے بیتاب ہے شاید اسی لئے کشمیر کی یہ دو سیاسی پارٹیاںدلی میں خیمہ زن ہیں ایک سجاد غنی لون اور دوسری این ۔سی لیکن افواہیں کچھ اور بھی ہیں کہ کئی اور سیاسی چہرے بھی دلی کے سنگ آستاں پر سجدہ ریز اور پراتھنا وں میں مصروف ہیں ، یہ لوگ اس نازک گھڑی میں جب کشمیری عوام عجب شش و پنج اور اضطراب میں بے آرام دن رات گذار رہے ہیں۔ وہاں کیا کر رہے ہیں ؟ اور کس چیز کی تلاش میں دلی کے گلی کوچوں کی خاک چھان رہے ہیں ؟۔
” اکٹ جموں “کے سر براہ کا انڈین ایکس پریس میں ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے واضح طور پر یہ بیان دیا تھا کہ کشمیر کو دو حصوں میں بانٹا جائے گا ، اور ایک حصہ مائیگرنٹ پنڈتوں کےلئے مخصوص کرکے ایک نئے کشمیر کی داغ بیل ڈال دی جائے گی ۔ اس سے پہلے بھی کئی بار ” پنن کشمیر“ کے سربراہوں نے اس طرح کی تقسیم کے بیانات دئے ہیں اور اب بھی بلا روک ٹوک کے دیتے جارہے ہیں ،، ظاہر ہے کہ انہیں ارباب اقتدار کا آشیر واد حاصل ہوگا ، ، اور کہیں نہ کہیں اس طرح کے مشورے ایک طویل عرصے سے جاری رہے ہوں گے ، ہدف یہی ہے کہ کسی طرح سے کشمیر کی وہ حثیت ختم کی جائے جو بظاہر اب تک موجود ہے اور یہ افواہیں بڑی حد تک ان اہداف سے میل کھاتی ہیں ، ایک اور دلیل جو کچھ بڑا ہونے والا ہے“۔ ان افواہوں کی گرم بازاری میں جموں نشین سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں میں جو ابال ہے، حالات پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں ، انہوں نے بھی اپنا ایک بڑا اجلاس حالیہ دنوں بلایا ہے جس میں جموں نشین پارٹیاں ایک ہی جگہ ایک ہی پیج پر نظر آئیں ۔
تیسری بڑی بات یہ ہے کہ مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں اگلے سال کے اوائل میں انتخابات منعقد کرانے کا عندیہ دیا ہے اس سلسلے میں جموں و کشمیر کی مین سٹریم پارٹیوں کو بھی آگاہی دی جاچکی ہے اور شاید این سی کی حد بندی کیمشن میں شمولیت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو ، یہ بھی ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ حد بندی کیمشن آئیندہ سال مارچ میں معیاد ختم ہونے سے پہلے ہی انتخابی حلقوں کی رپورٹ پایہ تکمیل تک پہنچا دے گا ، یہ شاید آپ کو یاد ہو کہ مرکز نے پچھلے سال کشمیر ، آسام ، ناگا لینڈاور ارونا پردیش کے ازسر نو انتخابی حد بندی کمیشن میں ایک سال کی توسیع کی تھی ، افواہی ذرائع از سر نو حد بندی میں جموں و کشمیر کے اسمبلی ارکان کی تعدادیقینی طور پر موجودہ تعداد سے کہیں زیادہ بتائی جارہی ہے اگرچہ ابھی تک وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن جمو ں کی نشستوں کی تعداد کیا ہوگی ؟ اس کے بارے میں پہلے ہی سے افواہیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔
ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ کچھ دن پہلے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سر براہی میں ایک اجلاس دلی میں منعقد ہوا جس میں کشمیر کے تمام کلیدی عہدے دار ، معہ گورنر منوج سنہا اور سابقہ چیف سکریٹری اور موجودہ چیف سیکریٹری بھی موجود تھے ۔،اتنے بڑے اجلاس میں ر یوڈ یاں نہیں بانٹی گئی ہوں گی ا ور نہ یہ اجلاس خیر و عافیت پوچھنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا ، بلکہ اس میں ظاہر ہے کشمیر سے متعلق اہم امور ات پر بات ہوئی ہوگی اور بدلتے حالات پر نہ صرف ہدایات جاری ہو چکی ہوں گی بلکہ جو ہونے والا ہے اس کی بھی ہلکی سی جھلک سکرین پر دکھائی جا چکی ہوگی جس کے بعد افواہیں بستی بستی پربت پربت کے سفر پر رواں ہیں ،،، 5 اگست2021 ،، ایک مفروضہ ہے لیکن انتظار دلچسپ رہے گا ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں