288

کاغذ، قلم اور سیاہی، دنیا کے ایک عظیم تکوں کے زاویے

اعجاز احمد گچھے (بحریؔ)

پروردگارِ عالم نے جب سے اس دنیا کو خلق کیا ہے تب سے اس دنیا میں کچھ خاص کچھ عام غرض کوئی نہ کوئی بات رونما ہوتی ہی ہے۔وہ چاہے آدم ؑ کی آمد ہو، مختلف پیغمبروں کا آنا ہو، مختلف تہذیبوں کا ابھرنا یا زوال پزیر ہونا ہو، مختلف انقلابوں کا برپا ہونا ہویا پھر مختلف جنگوں کا واقع ہونا ہو۔ یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں تاریخ کے اوراق میں کاغذ ، قلم اور سیاہی کی بدولت محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی روزِ الست کے دن لوح ِ محفوظ پر سبھی انسانوں کی تقدیروں کو رقم کیا ہے ،کہ جس کو آج تک بنی نوع انسان کسی نہ کسی صورت میں عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کہیں نہ کہیں لوح ِ محفوظ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ غرض جو کچھ دنیا میں ہوا، ہو رہا ہے یا مستقبل میں ہوگا۔ اس کو کاغذ ، قلم اور سیاہی ہی ایک ذریعہ ہے کہ اس کو اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔ اگر چہ موجودہ دور میں کاغذ، قلم اور سیاہی نے ایک برقی (DIGITAL FORM) شکل اختیار کی ہے لیکن اسکی اصل تو وہی کاغذ، قلم اور سیاہی ہی ہے۔
انسان جب کبھی بھی حالات سے تنگ آتا ہے تو یہی مو¿رخوں کا لیکھا جوکھا اسے ہمت دیتا ہے۔ مثلاًجب کسی کے عزیز کی موت واقعہ ہوتی ہے تو وہ تاریخ میں رونما ہوئے اس سے بھی دل دوذ واقعات پر جب نظر دوڈاتا ہے تو ایک تحریک حاصل کرتا ہے۔ یا جب کوئی انسان خوشیوں سے محروم ہوتا ہے تو تاریخ کا مطالعہ اسے اکیلا محسوس نہیں ہونے دیتا ہے۔ کیونکہ جو اس پر بیتی ہے وہ اس سے قبل بارہا کئی لوگوں پر بیتی ہوئی ہوتی ہے۔غرض انسان کو تاریخ کے مطالعے سے جینے کی ایک تحریک ملتی ہے۔ہمیں ایسے لوگوں کا ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے کہ جنہوں نے کاغذ ، قلم اور سیاہی کی ایجاد کی ہے اور پھر تحریر کے عمل کو وجود بخشا ورنہ دنیا کی ترقی میں کافی وقت لگتا اور لوگ خود کو کسی واقعہ کا واحد گواہ مان کر بہت بڑی غلط فہمی کا شکار رہتے۔
دنیا نے دن دگنی او ر رات چوگنی ترقی کی ہے۔ اس ترقی کے پیچھے اس عظیم تکون (کاغذ ، قلم اور سیاہی)کا عمل دخل ہمیشہ رہے گا۔
انسان کا حافظہ کتنا یاد رکھتا یہ کاغذ ، قلم اور سیاہی کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے کہ انسان لمبے لمبے معاہدے اور بڑے بڑے حساب کھاتوں وغیرہ کا حساب کتاب رکھ پاتا ہے۔
اس کاغذ، قلم اور سیاہی کا جادو دیکھئے کہ انسانی زندگی کے اہم معاہدوں پر جب تک تحریری صورت میں کوئی تحریر نہ ہو تب تک ہم کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرپاتے ہیں مثلاً اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں اور آپ کے پاس اس تعلیم کی سند نہیں ہے تو آپ اس کو ثابت نہیں کرپائینگے۔ اگر آپ نکاح کریں تو نکاح نامہ پر متعلقین کے دستخط ہونا لازمی ہے۔ اگر آپ سر کار کو ٹیکس ادا کرتے ہیں تو تحریری صورت میں اسکی رسید ہونا لازمی ہے۔غرض کاغذ ، قلم اور سیاہی ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اور ہم چاہ کر بھی ان سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے،یہاں تک کہ بعد از مرگ ہماری قبر کا کتبہ بھی اس کا محتاج ہے۔
آجکل کی دنیا میں تو اب اس تکون کی اور بھی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کیوں کہ (ID’s) کے بغیر آج کل کی دنیا میں انسان کا وجود جیسے نا کے برابر ہے۔انسان ہر میدان میں ایک (ID) کے بطور خود کو پیش کرتا ہے۔
کاغذ ، قلم اور سیاہی کے اس عظیم تکون کے ساتھ ہمارے ہاں بہت سی نیک دعائیں بھی جڑی ہوئی ہے ، ہمارے بڑے بزرگ جب کبھی دعا کرتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ قلم کو آپ سے جدا نہ کرے اور آپ ہمیشہ کاغذ اور قلم کے ساتھ منسلک رہیں۔
کاغذ ، قلم اور سیاہی ہی ایک ایسا تکون ہے کہ جس نے زمانے کا ہر ایک معرکہ دیکھا ہے اور محفوظ کیا ہے وہ چاہے حق و باطل کا معرکہ ہو یا پھر کوئی اور معرکہ غرض قلم کی بدولت یہ سب کچھ تاریخ کے بطن میں محفوظ ہے۔
میری اس تحریر کا سہرا اس شخص کے سر جاتا ہے کہ جو کاغذ ، قلم اور سیاہی کے سحر انگیز وجود سے کافی متاثر ہے اور یہ تحریر دراصل ا±س سے کی ہوئی بحث و مباحثہ کا ہی ثمرہ ہے اور وعدے کے مطابق میں نے اب کاغذ ، قلم اور سیاہی پر کی گئی بحث کو ایک تحریری شکل دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قلم ہی کی طاقت ہے کہ انسان ہر جذبے کو، ہر احساس کو،ہر سوچ کو اور ہر اِرادے کو ایک لمبے عرصہ تک محفوظ کرسکتا ہے۔
کاغذ ، قلم اور سیاہی کی سحر انگیزی پر جس قدر میرے عزیز نے مجھ سے بحث کی میرا قلم بھی تحریک لیے بغیر نہ رہ سکا اور تحریر ھذٰ رقم کرنے لگا۔
میرے عزیز کے مطابق یہ قلم کی طاقت ہی ہے کہ آجکل ہم لاکھوں کروڑوں روپیوں کاایک چیک ایک دستخط کے سپرد کرکے بے فکر ہوتے ہیں۔ یا پھر کوئی اہم دستاویز ایک دستخط کے ذمہ ہی وصول کرتے ہیں۔نہ کوئی فوج نہ کوئی اور تام جام بس فقط ایک دستخط جوکہ کاغذ ، قلم اور سیاہی کے ذریعہ ہی ایک کاغذ پر ثبت کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ایک آپسی معاہدہ قرار پاتا ہے۔ یہ بات کتنی دلچسپ ہے کہ اس عظیم تکوں کاغذ ، قلم اور سیاہی کی بدولت ہم ایسے رازداری کے کام انجام دیتے ہیں۔یقیناً جب انسان مختلف چیزوں کی ارزش کو غور سے دیکھنے لگتا ہے تو اسے ہر چیز گراں بار اور اہم معلوم پڑتی ہے۔میں نے آج تک اس تکون کی اہمیت کو اس طرح سے نہیں سمجھا تھا لیکن ہزار شکر میرے عزیز کے کہ جس کی صحبت میں بیٹھ کر میں اس کو سمجھ سکا۔
کائنات کی کوئی بھی شے ایسی نہیں کہ جس پر اس قلم کا اثر نہ پڑا ہو۔ خواہ بلواسطہ خواہ بلاواسطہ لیکن اثر ہر ایک شے پر پڑا ہے۔ اس تکون کی اور جب نظر دوڑاتے ہیں تو ذہن کھل جاتا ہے اور نئے خیالات کو رقم کرنے کی تحریک بھی ملتی ہے۔
کاغذ ، قلم اور سیاہی کا امتزاج ایک ایسا امتزاج ہے کہ جو زمانے کا ہر سُکھ دُکھ بڑی ہی ایمانداری کے ساتھ دہر کے صفحہ پر رقم کرتا ہے۔ ہر زمانہ اس امتزاج کا مرہونِ منت رہے گا۔ کیونکہ یہ واحد ذریعہ ہے جو اگلوں کے لیے پچھلوں کے تجربات، احساسات، اور مشاہدات کی منتقلی کرتا ہے۔ جو کہ اگلی نسلوں کے لیے نہایت ہی سود مند ثابت ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں اس امتزاج کا وجود نہ ہوتا تو یقیناً دنیا کی شکل ایسی نہ ہوتی کہ جیسی آجکل ہم دیکھتے ہیں۔ اس تکوں کاغذ ، قلم اور سیاہی نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ غرض ہم اس کی اہمیت سے آنکھ نہیں چراسکتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت کا اعتراف ہر ذی شعور انسان کا اخلاقی فرض ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں