۱۰؍ دسمبر بروز جمعہ سعودی عرب کے منبر ومحراب سے جو اعلان کیا گیا اور خطبہ دیا گیا ، اس نے پوری دنیا کے انصاف پسند مسلمانوں کو سخت حیرت اور تعجب میں ڈال دیا ہے، سعودی عرب میں اسلامی معاملات کے کے وزیر ڈاکٹر عبد اللطیف الشیخ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ مساجد کے ائمہ اور خطباء کو ہدایت دی کہ وہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت اور الدعوۃ کے خطرات سے آگاہ کریں، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ تبلیغی جماعت دہشت گردی کا دروازہ ہے اور اس کے عقائد مشرکانہ ہیں، اتناہی نہیں وزیر کی ہدایت کے مطابق اس جماعت سے کسی بھی قسم کے تعلق کو ممنوع قرار دے دیاگیا ہے۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں کے درمیان تذکیر کا کام کرتی ہے، اس کی تذکیر کادائرہ بھی چھ باتوں تک محدود ہے، ان میں ایک کلمہ پر محنت ہے، کلمہ مسلمانوں کے یہاں توحید کی علامت ، خدا کی عبادت اور رسول کی رسالت کے ماننے کا اعلان ہے۔ ایسے میں بھلا وہ لوگ کس طرح شرکیہ اعمال میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے مشن کی پہلی دفعہ توحید اور کلمہ ہے، ظاہر ہے اسے سعودی عرب کے وزیر امور اسلامی کی کم علمی اور جہالت ہی کہی جا سکتی ہے، ورنہ اس کی طویل خدمات لوگوں کو توحید کی دعوت اور شرکیہ اعمال سے اجتناب کا ہر دور میں مظہر رہی ہے۔
رہ گئی دہشت گردی کی بات ، تو یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت والے امور دنیا کی بات ہی نہیں کرتے، وہ تو مرنے کے بعد کی زندگی آخرت کو ہی اپناموضوع سخن بناتے ہیں اور ایک ایسے صالح معاشرہ کے وجود میں لانے کی بات کرتے ہیں جو نبوی طریقہ کار اور احکام خدا وندی کے مطابق ہو، ایسے میں اس پر دہشت گردی کا الزام لگانا انتہائی غلط ہے، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جانچ ایجنسیوں کو ان کے پیچھے لگایا تھا کہ وہ ان کے کاموں کی تحقیق کریں، ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ یہ توزمین کی بات ہی نہیں کرتے، صرف آسمان کی بات کرتے ہیں، اس لیے حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
پھر سعودی عرب کوخطرات کیوں سمجھ میں آئے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو مغربی آقاؤں کے حکم پر جس راہ پر لے جانا چاہتے ہیں، اس میں تبلیغ والوں کی اصلاحی وتذکیری تقاریر اور چلت پھرت رکاوٹ بن سکتی ہے، اس اندیشہ کے تحت اس پر پابندی لگانے کی بات مختلف لوگوں کی طرف سے ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہے، جس کی مخالفت ہوتی رہی، اب جب کہ محمد بن سلمان اصلاح کے نام پر اسلامی قدروں کے اختتام کی کوشش کر رہے ہیں، امور اسلامی کے وزیر نے ولی عہد کو خوش کرنے کے لیے اس پابندی کا اعلان کر دیا ۔
دوسری وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں ہی میں سے بعض جماعتیں اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں تبلیغی جماعت والے کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، ان کی تحریروں اور تقریروں سے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف ماحول بنا اتفاق سے ان کی پہونچ بھی سعودی وزارت میں مضبوط تھی، چنانچہ ان کی تحریر ، تقریر اور گفتگو نے بھی اپنا اثردکھایا اور سعودی وزارت امور اسلامیہ نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر یہ قدم اٹھایا۔
تبلیغی جماعت سے جو کام اصلاح کا اللّٰہ رب العزت نے لیا اور اب بھی جو کام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہم اسے مفید جماعت سمجھتے ہیں، اور اس پر پابندی لگانا انتہائی غلط ہے،حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے سعودی سفارت خانے کو خط لکھ کر مطالبہ کیاہے کہ اس فیصلے کو ہر حال میں واپس لیاجائے ۔
سعودی عرب کی اس پابندی کی وجہ سے سعودیہ میں تبلیغ کا کام متاثر ہوگا، کیوں کہ وہاں شاہی حکومت ہے اور جمہوری حکومتوں کی طرح وہاں احتجاج کا کوئی موقع نہیں ہے ، البتہ مسلم تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے ایک وفد کو متعلقہ وزیر سے ملاقات کرکے اپناموقف رکھنا چاہیے اوران کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے، اس پابندی کے اثرات دوسرے ملکوں میں پڑنے کا امکان ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ عرب حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعہ کی جارہی تبدیلی اور سعودی عرب کے امتیازات وتشخصات کو ختم کرنے کی پالیسی سے پورے طور پر واقف ہیں اور اس پابندی کو وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔
ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں ایک بار پھر سے اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، اس سے محتاط رہنے اور اس کے مضبوط دفاع کے لیے ملی تنظیموں کو آگے آنا پڑے گا، رہ گیے دوسرے ممالک ، مثلا پاکستان، بنگلہ دیش ، ملیشیا، انڈونیشیا تو وہاں سعودی عرب کی اس پابندی کاا ثر بالکل نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہاں بادشاہت نہیں، جمہوریت ہے، حکومتیں انتخاب کے ذریعہ چن کر آتی ہیں، اور انتخاب میں ووٹ کی قوت وطاقت دیکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ، ان ملکوں میں تبلیغیوں کا دبدبہ ہے، اس لیے حکومت ایسے فیصلے کرنے کے پہلے بار بار سوچے گی۔
319