217

تاریخ ِ دعوت و تبلیغ جموں کشمیر کے تناظر میں ۔۔۔ کا اجمالی جائزہ

غازی سہیل خان

اللہ تعالیٰ کے دین کی ترویج و اشاعت کے لئے اللہ تعالی کے برگزیدہ پیغمبروں نے اپنے اپنے زمانوں میںدل و جان سے محنت کی ہے۔ ان میں سر فہرست اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر نبی مہربان ﷺ ہیں، جنہوں نے مصائب و مشکلات کے ایک سمندر سے مقابلہ کرتے ہوئے دنیا میں اسلام کا بول بالا کیاجس کی وجہ سے اُن کے خلاف قتل کی سازشیں کی گئی یہاں تک کہ بہت بار آپ ُ ﷺ کے جسم مبارک کو زخمی بھی کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا تک پہنچانے سے باز نہیں آئے۔ ان ہی کے نقش قدم پر چل کے صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے بعد دنیا میں دین پھلانے کا کام بزرگان دین نے بحسن خوبی انجام دیا۔ وہیںکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے بزرگان دین نے یہاں تشریف لا کے اسلام کی شمع کو روشن کیا اور خطہ¿ کشمیر کو شرک و بُت پرستی سے پاک کر کے اس سرزمین پر احسان ِ عظیم کیا۔ اس لئے کشمیر کو پیر واری یعنی بزرگوں کی زمین کہا جاتا ہے۔ ان بزرگان دین کے بعد یہاں علمائ، واعظین اور دینی تحریکات نے اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا کارِ عظیم انجام دیا ہے ۔ ان ہی بزرگان ِ دین، واعظین، علماءاور دینی جماعتوںکے کارناموں کو مو¿رخین نے قلم بند کر کیا ، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وادی کشمیر کے ایک مو¿رخ جناب خاکی محمد فاروق کی تصنیف ”تاریخ ِ دعوت و تبلیغ جموں کشمیر کے تناظر میں “کا اجمالی جائزہ لینا چاہوں گا۔
مصنف کے بارے میں :۔خاکی محمد فاروق صاحب جنوری 1973ءمیں سرینگر سے 13 کلو میٹر دور پہرو (بڈگام)نوگام نامی گاﺅں میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ مقامی سطح پر حصول تعلیم کے بعد تحریک اقامت دین سے وابستہ ہو کئے۔ آپ بُنیادی طور پر دین ِ حق کے ایک متحرک داعی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو اور کشمیری میں شعر گوئی کے علاوہ تصنیف و تالیف کا ذوق رکھتے ہیں۔ آپ کی اب تک درجنوں کتابیں مختلف موضوعات پر شایع ہوچُکی ہیں ۔
بہر کیف کتاب کو مرتب کرتے ہوئے خاکی صاحب نے خاصی محنت کر کے ہمارے سامنے تاریخ کے اہم زمروں پر روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کو مرتب کرتے ہوئے مصنف موصوف نے کتنی محنت اور مطالعہ کیا وہ ہمیں اسی کتاب کے اخر پر”فہرست منابع و ماخد “ کو پڑھتے ہوئے معلوم ہو سکتا ہے ۔اس تاریخی کتاب کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ معلوم پڑتا ہے کہ کشمیر میں کتنی جہالت اور شرک تھا ،بادشاہوں کی عیاشیاں اور قتل و غارت گری اپنے عروج پر تھی ۔بیہودہ رسوم و رواجوں نے انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا تھا۔ اسی طوفان ِ شرک و بُت پرستی میں چند پُزرگان ِدین یہاں تشریف لاتے ہیں اور یہاں اسلام کا پیغام عام کر کے کشمیر کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی اور لاتے ہیں ۔کشمیر میں اسلام سے پہلے قتل و غارت گری اور ظالم حکمران تھے سوائے چند ایک کے۔ خاکی صاحب ”کشمیر اسلام سے پہلے“ عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ”نویں صدی عیسوی سے لے کر اسلامی دور1324ءتک کشمیر کے تخت شاہی پر جتنے بھی راجے براجمان ہوئے ،ان میں تین چار راجاﺅں کو چھوڑ کر تقریباً سارے کے سارے راجے عیش و عشرت اور بدکاری کے سرپرست اور رقص و سرود کے دلدادہ اور ظلم و جبر قتل و غارت کے خوگر اور جان پسند اور خود غرض تھے ۔ان کی نا اہلی اور نا عاقیبت اندیشی سے پورے ملک میں ظلم و تعدی، رشوت خوری ،لوٹ کھسوٹ ،شراب و جوا ،جھوٹ دھوکہ دہی ،خیانت، بداخلاقی اور خانہ جنگی و بدامنی عروج پر رہی ۔کشمیر اور اہل کشمیر ہر لحاظ سے چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چُکے تھے ۔“(ص 92)ان ہی بزرگوں اور اولیاءاللہ کے نقش قدم پر چل کے یہاں چند دینی جماعتیں اور اسلامی تحریکات نے بھی کشمیر میں خاصا تبلیغی کام انجام دیا ہے،جس کی بدولت ہم آج یہاں کثیر تعداد میں کلمہ گو مسلمان ہیں ۔مذکورہ کتاب دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب یعنی ( تاریخ دعوت و تبلیغ جموں کشمیر کے تناظر میں ،جلد اول ) بارہ ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلے باب میں جموں و کشمیر کے جغرافیے پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے ۔دوسرے باب میں جموں کشمیر میں اسلام کے ابتدائی تقوش، تیسرے باب میں چودھویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے حالات اور پانچویں باب میں کشمیر میں اشاعت اسلام کی ابتدائی کو ششوں کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ چھٹے باب میں حضرت میر سید محمد ہمدانی ؒ کی دعوتی و علمی تحریک ،ساتویں باب میں میر سید محمد ہمدانی ؒ کے فرزند میر محمد ہمدانی ؒکی زندگی اور اُن کے دعوتی کام کے ساتھ ساتھ اُن کے معاصرین و مبلغین اور حکمرانوں کے متعلق بھی گفتگو کی ہے، آٹھویں باب میں ریشیت کی تحریک او ر کشمیر میں ریشی تحریک کے بانی حضرت شیخ العالم ؒ اور اُن کی دینی خدمات ،نویں باب میں حضرت شیخ العالم ؒ کی شاعری اور تبلیغ اسلام پر روشنی ڈالی گئی ہے ،دسویں باب میں دیگر علماءکرام کی تبلیغی کا وشوں کو بیان کیا گیا ہے ،گیارویںباب میں شیخ حمزہ مخدوم ؒ کی اصلاحی اور تبلیغی کوششوں کو پیش کیا ہے، وہیں پہلی جلد کے آخری یعنی بارویں باب میں گلگت، لداخ اور بلتستان میں اشاعت اسلام کی سرگزشت پیش کی گئی ہے ۔
مذکورہ کتاب میں بہت ساری اہم باتوں کو واضح کیا گیا ہے اور عوام میں کشمیر میں دعوت و تبلیغ اور داعیان دین کے متعلق جو مختلف طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی گئی تھیں اُنہیں بھی مصنف موصوف نے بڑی ہی علمی ذہانت سے دور کیا ہے ۔ایک جگہ حضرت امیر کبیر ؒ کا مسلک عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ”حضرت امیر کبیرؒ اہل سُنت والجماعت کے شافعی مسلک سے وابستہ تھے ۔بعض تذکرہ نگاروں نے ان کو شعیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ،مگر ان کی تصانیف و تالیفات اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سُنی تھے ۔“(ص 178)اسی طرح سے کشمیر میں باشاہوں کا بھی ذکر ہے وہیں ایک ظالم بادشاہ بڈشاہ کے متعلق بھی خاصی اہم باتیں پیش کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکمران کس طرح سے اسلام دشمن تھا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”بڈشاہ نے ہندوﺅں کے لئے الگ عدالتیں اور جج اور مسلمانوں کے لئے الگ عدالتیں اور قاضی مقرر کئے ۔حد یہ ہے کہ اس کے وزیر ِ انصاف اور عدلیہ کا سرپرست ایک برہمن شری بٹ کو مقرر کیا تھا۔ملک کی تمام عدالتیں اس کے ماتحت تھیں گویا وہ عہد بڈ شاہی کا چیف جسٹس تھا۔ اس سے اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڈشاہ کس حد تک ہندو اور ہندو مت پر مہربان ہو چُکا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوﺅں کے عوام کے ساتھ خواص بھی کہتے ہیں کہ بڈشاہ میں ہندو روح موجود تھی۔(ص 241)
دوسری جلد:۔ بھی کشمیر کی تاریخ دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ضخیم ہے۔ اس جلد میں اُنہوں نے مغل دور سے لے کر موجودہ دور تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت سے متعلق جن تنظیموں اور اداروں نے اہم کام انجام دیا ہے اُن کا تعارف مختصر اور جامع انداز میں پیش کیا ہے ۔مغل دور میں جن بزرگوں ،اولیاءاللہ ،علماءکرام اور دیگر لوگوں نے دین کے فروغ و اشاعت کے لئے کام کیا ہے اُن کا ذکر پیش کیا ہے ۔اُس دور میں داعیان دین کو خاصی مشکلات اور مصائب کا سامنا کر کے جموں کشمیر میں دین پھلایا گیا ۔ کشمیر میں فارسی ادب کے مختلف ادوار اور بزرگان ِ دین۔ وہیں علماءکرام کے تذکروں کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ دور میں علماءکا کردار اور علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے زمانے کو خصوصی طور ذکر کیا ہے ۔ مغل دورکے بادشاہوںمیںاکبر کے بعدجہانگیر، شاہ جہاںاورنگ زیب عالم گیر ؒ کے ادوار کا مختصر اور بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”اسلام خان 1963ءتا 1964ءبڑا محنتی، نیک سیرت ،اعلیٰ پایہ کا منتظم اور دین پسند تھا۔وہ علماءدین کا بڑا قدر شناس تھا ۔اُن کی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ اُن کو اشاعت اسلام او ر اصلاح خلق کے لئے اُبھارا کرتا ۔اس نے دوسری تعمیرات کے ساتھ یہاں کئی مسجدیں بھی تعمیر کروائیں ۔کشمیر کے مشہور قصبہ ”اننت ناگ“ کو اپنے نام پر” اسلام آباد“ رکھا جسے بعد میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے دوبارہ اننت ناگ نام رکھا۔“(ص61)اسی طرح سے کشمیر کے نواحی علاقوں میں اسلام جس میں خاص طور سے راجوری، پونچھ، بھمبر،ڈوڈہ کشتواڑ،جموں،مظفرآباد،میر پور،وغیرہ کا ذکر جامع انداز میں پیش کیا ہے۔مغل دور ،سکھ دور ،افغان دور ،ڈوگرہ دور اور1947ءسے لے کر آج تک کے ادوار میں علماءکرام کی دعوتی کاوشوں اور مصائب کا ذکر بھی آسان اور عام فہم انداز میں پیش کیا ہے ۔اسی طرح سے دینی جماعتوں ،اسلامی تحریکوں اور دیگر اداروں کے کام کا ذکر بھی شامل کتاب ہے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جموں میں ’انجمن اسلامیہ جموں ‘کے قیام کے بعد 1909ءمیں ’ینگ مینز ایسوسی ایشن جموں ‘ کے نام سے ایک تنظیم وجود میں لائی گئی۔ اس تنظیم کے قیام میں جن نوجوانوں نے سرگرم رول ادا کیا اُن میں مقبول احمد قاضی ،شمس الدین اور محمد بشارت کے نام نمایاں تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ دور کے مظالم وہیں اس دور میں چند علماءکرام کا رول اور مسلم کانفرنس کا نیشنل کانفرنس میں بدل جانے کے واقعات کو بھی مختصراً پیش کیا گیا ہے ۔لکھتے ہیں کہ ”غرض مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا گیا تو اس کے بعد مسلم کا نفرنس کے پرچم کو اتار کر اس کی جگہ شری پریم ناتھ در کا بنایا ہوا سُرخ زمین پر ہل کے نشان کا جھنڈا لہرایا گیا“۔آگے قدرت اللہ شہاب کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کی سات سالہ بے تاج بادشاہی کے بعد 1938ءمیں شیخ محمد عبداللہ سیاست اسلامیہ کی ہمالیہ کی چوٹی سے لڑ ھک کر منہ کے بل گرے اور ہندو کانگریس کی جھولی میں دھم سے آپڑے ۔ زوال کے اس عمل میں ان کے چہرے پر سجی ہوئی نہات خوبصورت اور دیدہ زیب ریش مبارک آناً فاناً غائب ہو گئی اور ان کے سر کی سجی دھجی ایک سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی بھی راستے میں کہیں گر کر کانگریس کی گنگا ماتا میں ڈوب گئی ۔“( ص 287)
کتاب کے آخری اوراق میں جموں کشمیر کی دینی جماعتوں،اسلامی مدارس، فلاحی اداروں، اسلامی جماعتوں کے ذریعے چھپنے والے رسائل و اخبارات کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے جن میں ، جمعیت اہلحدیث جموں و کشمیر،دفاع جمعیت اہل حدیث،انجمن تبلیغ الاسلام، جماعت اسلامی جموں و کشمیر،تبلیغی جماعت قابل ذکر ہیں۔چند اہم فلاحی اداروں کا بھی تذکرہ ملتا ہے جن میں خاص طور سے جموں کشمیر یتیم ٹرسٹ ،جموں کشمیر یتیم خانہ ،جموں کشمیر یتیم فاونڈیشن ،ادارہ فلاح الدارین بارہمولہ ،سخاوت سنٹر ،شمع فاونڈیشن، اسلامک ریلیف اینڈ ریسرچ ٹرسٹ شامل ہیں ۔وہیں اسلامی چند بڑے مدارس جن میں دارلعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ ،دارلعلوم بلالیہ لعل بازار سرینگر کے علاوہ دیگر بڑے مدارس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
الغرض مذکورہ کتاب کو جناب خاکی صاحب نے انتہائی محنت شاقہ سے تالیف کیا ہے وہیں کتاب میں ہر ایک واقعہ کو غیر جانبداری سے پیش کیا گیا ہے ،مجھے یوں لگا کہ کتاب کو پُر خلوص انداز میں مرتب کیا گیا ہے ۔ مذکورہ کتاب میں خاکی صاحب نے کتنی محنت اور کتنا مطالعہ کیا ہے وہ کتاب کی دونوں جلدوں کے آخر پر جیسے کہ میں پہلے بھی بتا چُکا ہوں کہ فہرست منابع و ماخذ کو پڑھ کے معلوم ہوتا ہے ۔یعنی خاکی صاحب نے ہر ایک واقعہ کی پہلے خوب تحقیق کی ہے اورمستند ترین واقعات اور باتوں کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے ،کتاب میںآسان اور عام فہم زبان کا استعمال کیا گیا ہے میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ ابتدائی کلاسوں کے طلبہ بھی اس کتاب کو بآسانی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں اور ہمارے طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا بھی چاہیے ۔کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے سوائے چند ٹائپنک کی غلطیوں کے ۔اس سب کے با وصف چند جگہوں پہ مجھے مضامین اور واقعات کی تکرار محسوس ہوئی وہیں چند واقعات کو غیر ضروری طول نہیں دیا جاتا تو اور زیادہ بہتر رہتا ،وہیں کتاب کی باینڈنگ بھی مضبوط نہیں ہے خصوصاً دوسری جلد کی۔ میں چاہوں گا جو کوئی بھی کشمیر کی دعوتی و تبلیغی تحریکات اور بزرگان دین کی کاوشوں کو کم وقت اور مختصر انداز میں پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو اُن قارئین کو اس کتاب کا مطالعہ اولین فرصت میں کرنا چاہیے، کتاب الکوثر بُک سنٹر سرینگر کے علاوہ اس نمبر 7006531215 پر رابطہ کر کے مناسب قیمت پر یہ کتاب گھر بیٹھے بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں