معراج زرگر
قسط اول
مجنوں کا اصل نام قیس بن الملوح تھا۔ یہ 24 ہجری بمطابق 645 عیسوی کو پیدا ہوا۔ اپنے عصر کا معروف شاعر تھا۔ اس نے ایک مسلمان کے طور پر زندگی گزاری اور حالتِ ایمان میں ہی فوت ہوا۔ وہ نجد کا رہنے والا دیوانہ شاعر تھا۔ خلافت مروان بن الحکم وعبد الملک بن مروان اور قرن اول کا زمانہ پایا۔ قیس کا نسب نامہ یوں ہے:
قیس بن الملوّح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعۃ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان، العامری الہوازنی۔
مؤرخین، محدثین اور اہلِ علم نے مجنوں کے احوال بیان کیے ہیں۔ بعض مؤرخین نے اس کے حج پر جانے اور حرمین میں اس کے قیام کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ چند کتب کے حوالے درج ذیل ہیں:
ابنِ قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، تاویل مختلف الحدیث، 1: 319، دار الجیل، بیروت
ابن جوزی، عبدالرحمٰن بن علی، بن محمد، المنتظم، 6: 105، دار صادر، بیروت
ابنِ منصور، ابو سعید عبدالکریم بن محمد، الانساب، 5: 204، دار الفکر، بیروت
الذیبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، تاریخ اسلام، 5: 217، دار الکتاب االعربی، لبنان
مذکورہ کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قیس (مجنوں) کا دور اولین صدی ہجری ہے جوکہ صحابہ کا زمانہ ہے۔ قیس چونکہ مسلمان تھا اور حالتِ ایمان میں ہی فوت ہوا ہے، اگر اس کی کسی صحابی سے ملاقات ہوئیہے تو وہ طبقہ تابعین میں شمار ہوگا۔ تحقیق کے مطابق قیس (مجنوں) کا تابعی ہونا قرینِ قیاس ہے۔
امام فاضل بریلوی فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں کہ ” حضرت قیس المعروف مجنوں رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک مجنوں بنی عامر اولیائے کرام میں سے تھے اپنی لیلیٰ کے سبب اپنے جنون کے ذریعہ اپنے معاملے کو چھپایا ہوا تھا "۔
قیس کو مجنوں کا لقب لیلیٰ عامریہ سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ملا۔ قیس اورلیلیٰ نے ایک ساتھ بچپن گزارا اور قیس اس کی محبت میں مبتلا رہا۔ قیس نے لیلیٰ سے شادی کے لیے گھر کو خیر آباد کہا، وہ محبت کے اشعار گنگناتا اور ویرانوں کی خاک چھانتا رہا، اسے شام، نجد اور حجاز میں دشت نوردی کرتے پایا گیا۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ اپنے ملفوظات میں ایک عجیب بات نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیس کو مجنون کا لقب امام حسن علیہ السلام نے دیا۔ واقعہ یوں درج ہے کہ قیس کی ماں امام حسن علیہ السلام کے دولت خانہ میں خدمت کیا کرتی تھی اور موصوف امام علیہ السلام کے رضاعی بھائی بھی تھے۔
ایک دن امام علیہ السلام بنی امیہ کے عہد امارات میں اونٹ پر سوار کہیں جارہے تھے۔ اور قیس ابن الملوح ان کے ہم رکاب تھے۔ امام حسن علیہ السلام نے قیس کو بھائی سمجھ کر بطور اظہار تاسف فرمایا کہ قیس تو نے دیکھا کہ بنو امیہ نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ قیس نے جواب میں کہا کہ بھائی۔۔۔!! اگر سچ کہا جائے تو خلافت نہ تو آپ کا حق ہے اور نہ ہی بنو امیہ کا۔ بلکہ لیلیٰ کا حق ہے۔ اس بات پر امام علیہ السلام نے تعجب فرماکر کہا کہ "انتَ مجنون” یعنی آپ تو دیوانے ہو۔ میں کیا کہتا ہوں اور آپ کیا الاپتے ہو۔ حضرت مہر علی شاہؒ لکھتے ہیں کہ چونکہ یہ بات امام علیہ السلام نے فرمائی تھی تو اس وجہ سے قیس جہاں میں "مجنون” کے نام سے مشہور ہو گئے۔
وہ پہلا دیوانہ شاعر تھا اور دوسرا دیوانہ شاعر قیس بن ذریح یعنی”مجنون لبنی تھا۔. قیس بن الملوح نے68 ھ موافق 688ء میں وفات پائی۔ وہ پتھروں کے درمیان مردہ پایا گیا اور اس کی گھر والے اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔
سیر و تراجم کا اس بات پر اجماع ہے کہ قیس لیلیٰ کا چچازاد تھا۔ دونوں کا بچپن ایک ساتھ گزرا دونوں اپنے گھر والوں کے مویشی اکٹھے چراتے تھے اور اکٹھے کھیلتے تھے۔ قیس اپنے شعر میں کہتا ہے:
تعلَقت لیلی وھی ذات تمائم ولم بید للاتراب من ثدیہا حجم
صغیرین نرعی البہم یا لیت اننا اِلی الیوم لم نکبر ، ولم تکبر ا لبہم ۔
لیلیٰ تعویذوں کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی اور اس کے سینوں کی دھول بڑی نہیں لگتی تھی۔
ہم بہاماس کی دیکھ بھال کے لیے جوان ہیں، کاش ہم آج تک بڑے نہ ہوتے، اور بہاماس بڑے نہ ہوتے
چنانچہ سید فالح الحجیۃ اپنی کتاب (الغزل فی الشعرالعربی) میں بیان کرتے ہیں:
"لیلی کو اپنے چچا زاد سے محبت تھی۔ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے، اکٹھے اپنے والدین کے مویشی چراتے تھے بچپن کا یہ ساتھ ان کی محبت کا سبب بنا۔ حتیٰ کہ دونوں محبت میں وارفتگی کی انتہا کو پہنچ گئے۔ عرب صحرانشینوں کی روایت کے مطابق لیلیٰ جب بڑی ہوئی تو اسے پردہ اختیار کرنا پڑا۔ قیس اپنے ایام گذشتہ کو یاد کر تا اور حسرت کرتا کہ کاش یہ ایام لوٹ آئیں۔ محبت و وارفتگی میں اس کی زباں پر پُرتاثیر اشعار غزلیہ جاری رہتے۔ پھر قیس اپنے چچا کے پاس لیلیٰ کا ہاتھ مانگنے گیا، اس وقت تک اس نے مہر کی خطیر رقم جمع کر لی تھی جو 50 سرخ اونٹوں پر مشتمل تھا۔ مجنوں نے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ عرب اس محبوبہ، جس کی محبت مشہور ہو چکی ہو، اس سے شادی کرنا باعث عار سمجھتے تھے۔
بعض روایات کے مطابق مجنوں کی گھر چھوڑنے کی وجہ مجنوں اور لیلی کے والدین کے درمیان اختلاف تھا جو میراث کی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ آخرکار لیلی کی شادی طائف کے ایک شخص سے کر کے اسے طائف بھیج دیا گیا۔
لیلیٰ کے ہجر نے قیس کی محبت کی آگ کو تیز تر کر دیا اور اسی عالم وارفتگی میں وہ فوت ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ قیس کا والد اسے اپنے ساتھ حج پر لے گیا تاکہ لیلی کی محبت کی وجہ سے اس پر جو مصائب آئے ہیں،اللہ تعالیٰ اسے ان مصائب سے نجات دے۔ اس کے والد نے اسے کہا کہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر دعا مانگو کہ خدا لیلیٰ کی محبت سے نجات دے دے۔ قیس نے کعبہ کے غلاف سے لپٹ کر دعا مانگی:
"اے اللہ میری لیلی سے محبت کو زیادہ کر دے اور مجھے کبھی اس کی یاد سے غافل نہ کر! "
اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ قیس، لیلی کے شوہر ورد کے پاس گیا۔ یہ شدید سردیوں کے دن تھے، ورد اپنی قوم کے سرداروں کے ساتھ آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھا تھا۔ قیس نے وہاں یہ اشعار فی البدیہہ کہے:
ترجمہ: یعنی تجھے رب کا واسطہ۔۔۔۔۔ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلیٰ کو آغوش میں لیا؟ یا اس کا منہ چوما؟۔۔۔ یا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہرائیں؟۔۔۔ جیسے کہ خوشبوئیں اور مشک اس کے منہ میں درآئی ہوں؟
ورد نے کہا، جب تم نے مجھے قسم دی ہے تو جواب ہاں میں ہے۔ تو مجنوں نے اپنے ہاتھوں سے آگ کو پکڑ لیا اور اسے نہ چھوڑا یہاں تک کہ بے ہوش ہو گیا۔
لیلیٰ مجنوں کی داستان عشق کو نہ صرف عربی ادب نے جگہ دی بلکہ فارسی، ترکی اور اردو ادب میں بھی یہ داستان شامل رہی۔ اس واقعہ پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنے، گیت بھی لکھے گئے اور اسی طرح اس عشق کے واقعہ کے دو کرداروں سے ہر مسلم تہذیب اور دوسری غیر عرب تہذیبوں کے لوگ صدیوں سے واقف ہیں اور ان دو کرداروں کو سچے عشق کے کردار سمجھتے ہیں اور ان کرداروں سے اپنی محبت اور عقیدت وابستہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں لیلیٰ اور مجنون پر کامیاب فلمیں بنی ہیں۔ جو عوام میں بہت مقبول ہوئیں اور ان کے گانے آج بھی مقبول ہیں۔
لیلیٰ مجنوں بنیادی طور پر ایک عربی الاصل داستان ہے۔ اس میں بیان کردہ کردار تاریخی طور پر ثابت مانے جاتے ہیں۔ کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں اور یہ کہ یہ داستانِ عشق بھی حقیقی تھی۔ جس کو قلم بند کیا گیا اور بعد میں، صدیوں تک ان پربہت کچھ افسانہ طرازی کی گئی۔ عربی میں سب سے پہلے کس نے اسے لکھا؟ اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں البتہ عربی سے فارسی میں اس کو پہلے پہل رودکی نے منتقل کیا۔ اس کے بعد نظامی گنجوی نے اس کو فارسی میں لکھا، جس نے اس کی مقبولیت کو ساری دنیا تک پہنچائی۔ اب تک ہزار سے زیادہ مرتبہ اس داستان کو مختلف زبانوں میں، مختلف لوگ نثر و نظم میں لکھ چکے ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مقبولیت و اہمیت نظامی گنجوی کی لیلیٰ مجنوں کو ہی حاصل رہی ہے۔
(جاری)
(نوٹ: مضمون کے بیشتر اجزا انٹرنیٹ اور دیگر کتب سے ماخوذ ہیں)