145

تاریک لحد (افسانہ)

فاضل شفیع بٹ, اکنگام انت ناگ

میرے والدین بچے پیدا کرنے میں خاصے فراخدل واقع ہوئے۔ تین بچوں کو محض پانچ سال کی مدت میں پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ میری پھوٹی قسمت کہ میں سب سے چھوٹا تھا۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش میں میرے والدین نے ہمیشہ الگ الگ نظریے اور برتاؤ رکھا۔ بڑے بیٹے کو تو وہ  انجینئر بنانا چاہتے تھے اور بہن کو ڈاکٹر بنانے کے خواہش مند تھے اور میری قسمت میرے پیدا ہوتے ہی مجھ سے بیزار تھی۔ کیونکہ میں ایک اپاہج پیدا ہوا تھا۔ حالانکہ میں بہت ذہین تھا لیکن اپاہج ہونا میری تعلیم اور پرورش میں بھی بری طرح حائل رہا۔ جسمانی کمزوری کے سواء کچھ اور بھی تھا جس کا ادراک مجھے جوان ہونے کے بعد ہوا۔ مگر جب تک یہ ادراک ہوتا, میں بہت کچھ جھیل چکا تھا۔ 

 میرے  بھائی اور بہن کے لئے ہر وقت  نئے کپڑے آ تے تھے اور میں ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کے پرانے کپڑوں پر ہی گزارا کرتا۔ والدین کا کہنا تھا کہ  مہنگائی بڑھ گئی ہے اور میرے لیے نئے کپڑے خرید کر لانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ میرے ذہن میں یہ سوال بار بار گردش کرتا کہ اگر سچ میں مہنگائی بڑھ گئی ہے تو صرف میرے لئے ہی کیوں؟  معاملہ صرف میرے اخراجات اور ضروریات کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ انسانی احساسات اور جذبات کے دوغلے پن اور دوہرے برتاؤ کے نتیجے میں مجھ پر وارد ہونے والے ہر اس طرز عمل سے بھی تھا, جس کی زد میں میرا پورا وجود اور شعور آچکا تھا۔

 جب ہم بالکل چھوٹے تھے تو میرے بھائی اور بہن میرے ہمدرد تھے اور میرے اپاہج پن کی وجہ سے میرے ساتھ انتہائی اچھا سلوک کرتے تھے۔ مگر میرے والدین کے میرے ساتھ سلوک سے وہ اکثر حیران ہوتے تھے اور انہیں مجھ سے کھیلنے, اور میرے ساتھ ہمدردی جتانے سے باضابطہ روکا جا رہا تھا۔ پھر جب وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو مجھے وہ اپنے کھلونوں سے کھیلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ میں ان کے سامنے گڑگڑا کر، آنکھوں میں آنسو لیے ایک بھکاری کی طرح ان کے کھلونوں سے  کھیلنے کی فریاد کرتا لیکن وہ ایک عجیب برتاؤ کرکے مجھے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے۔ اپنے بہن بھائی کے اس برتاؤ کو میں سمجھ نہیں پاتا تھا, اور پھر اکیلے رو رو کر خود کو ہلکا محسوس کرتا۔ کبھی کبھی جب میرے والدین مجھے روتا دیکھ لیتے تو بہت غصے سے مجھے چپ کرنے کا کہتے جس سے میرے دل پر گہرا اثر ہوتا اور اکثر سینے میں درد محسوس ہوتا۔ 

 بہن کی تربیت بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی۔ بچپن سے ہی بناؤ سنگار کر نا, اسکول میں بڑا ایکٹیو رہنا, گھر میں ناز نخرے کرنا, ہر نئے اور مہنگے چیز کی ڈیمانڈ مانو اس کی طبعیت تھی۔ وہ پڑھتی بھی اچھا تھی۔ میرے والد ایک اچھے ملازم تھے اور اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ایک قابل ملازم سمجھے جاتے تھے۔ وہ میرے مقابل میرے بہن بھائی کی ہر ضرورت پوری کرتے تھے چاہے وہ پیار کی تھی یا دیگر ضروریات ۔ میں یہ سب تفریق اور تخصیص جھیل کر اور دیکھ کر بڑا ہوتا رہا۔

میں بھی بڑا ذہین تھا اور میرے والدین اور میرا بھائی اور بہن اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے۔ میرا بھائی اور بہن ایک پرائیویٹ سکول میں دل و جان سے اپنی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور میرا پاس ہی کے ایک سرکاری سکول میں داخلہ کرایا گیا تھا، جس کی وجہ بھی  میرا اپاہج پن ہی  تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ تم اتنی دور اسکول نہیں جاسکتے۔ حالانکہ ان دونوں کے لئے اسکول کی گاڑی آتی تھی اور میں بڑی مشکل سے اسکول جاتا تھا اور واپس بھی آتا تھا۔ مجھے اسکولی عملہ اور پڑوسی وغیرہ بھی عجیب طرح سے دیکھتے اور برتتے تھے۔ میں سب کچھ محسوس کرکے اپنی قسمت پر رونے لگتا تھا۔ 

 ایک جاڑے کے دن میں سخت بیمار تھااور اسکول جا نہیں پایا۔ میں نے ماں سے کہا کہ میں بیمار ہوں اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔ بھائی اور بہن صبح ہی اسکول نکل چکے تھے اور میرے والد ابھی آفس نکلنے ہی والے تھے۔ اچانک میں نے رسوئی سے ماں اور باپ کی آوازیں زور زور سے آتی سنیں۔ میں نے زرا دھیان  دیا تو معلوم ہوا کہ مسئلہ میرے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا ہے۔ اب میں پریشان اور بیمار یہ سوچ رہا تھا کہ اس لڑائی کا سارا غبار مجھ پر نکالا جائے گا۔ اتنے میں میرے دماغ میں ایک زوردار بم سا پھٹ گیا۔ میرے باپ نے چلاکر کر میری ماں سے کہا کہ اس نے میری ماں کی ناجائز اولاد کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے اور یہ کہ اس کو اس گھر میں دو وقت کی روٹی اور سر پہ ایک چھت مل رہی ہے, یہ اس کے لئے کافی ہے۔ جب میں نے اس اچانک قیامت خیز لمحے کے ملبے سے خود کو باہر نکالا تو مجھ پر کئے گئے سارے ماروا سلوک کی ساری گھتیاں مجھے سلجھتی نظر آئیں۔ مجھے میری اوقات کا علم ہوچکا تھا۔

اس واقعے کے بعد میں بڑا خاموش رہنے لگا۔ مجھے اپنا ہی وجود ایک بوجھ اور گند محسوس ہونے لگا۔ مگر اچانک ایک دن خبر آئی کہ میرے والد ایک حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جس کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ہاں۔۔۔۔میری ماں کو نوکری مل گئی۔ 

 باپ کے مرنے کے بعد میری ماں اپ ٹو ڈیٹ رہنے لگی۔ روز بہ روز اس کے چہرے میں نکھار آرہا تھا۔ اپنے خاوند کو مٹی میں ڈالتے ہی ان کا رشتہ بھی دفن ہو چکا تھا۔ وہ روزانہ ایسے سج سنور  کے دفتر جایا کرتی تھی  جیسے کوئی طوائف اپنے کوٹھے میں سج سنور کے اپنے چاہنے والوں کی تاک میں منتظر رہتی ہے۔ اس کی خوبصورتی پر محلے کے جوان لڑکوں کو بھی رشک ہوتا تھا۔

 میں پندرہ برس کا ہو چکا تھا  لیکن اب بھی میرے ساتھ  وہی پرانا سلوک کیا جاتا تھا۔ میرے گھر میں میری حیثیت ایک کتے سے زیادہ نہ تھی۔ میں گھر کے بچے کھچے کھانے پر گزارا کرتا۔ میرا بھائی اور میری بہن زندگی کی ہر سہولیت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میری ماں نے شادی تو نہیں کی لیکن دفتر میں ایک جواں سال ساتھی  ملازم سے اس کے عشق لڑانے کے چرچے عام تھے۔ اب میں ہر چیز کو سمجھ رہا تھا۔ اور بہت زیادہ خاموش رہتا تھا۔ کیونکہ میری اب اپنی بھی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی۔ 

  میں دھیرے دھیرے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا چلا گیا۔ میرے ذہن میں سوالوں کا ایک سیلاب امڈنے لگا۔ میں کیوں وجود میں آیا تھا؟۔ کسی کے گناہوں کا بوجھ لے کر میں کیوں اپنے اپاہج اور ناپاک وجود کو گھسیٹتا رہوں۔ حالانکہ میرا باپ تو اس دنیا سے رخصت ہوا تھا لیکن میری ماں کو بھی مجھ سے نفرت تھی۔  اس کو آج بھی اپاہج بیٹے سے زیادہ اپنا وہ جواں سال عاشق پیارا تھا، جس کے لیے وہ مہنگے سے مہنگا عطر لگا کر، بن ٹھن کر دفتر جایا کرتی تھی۔ 

 بھائی انجینئر بن گیا، بہن ڈاکٹر بن گئی اور میں دسویں کا امتحان بھی پاس نہ کر سکا۔ اب گھر والوں کی نظروں میں واقعی ذلیل ہوتا گیا۔ مجھ سے گھر کا سارا کام کروایا جاتا ، میں برتن دھوتا، کپڑے دھوتا اور یہاں تک کہ بیت الخلاء بھی بنا کسی اجرت کے صاف کرتا اور بدلے میں مجھے مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی۔ گھر میں میری حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہ تھی۔ یہاں تک کہ اب انجینیئر صاحب اور ڈاکٹر صاحبہ کے دوستوں کے سامنے مجھے گھر کے نوکر سے ہی متعارف کرایا جاتا۔ میری حالت متغیر تھی اور میں اپنے وجود سے نفرت کرنے لگا۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آتی تھی۔ 

 انجینئر صاحب کی شادی ایک امیر گھرانے میں طے ہوئی۔ اس کی بیوی ٹیچر تھی۔ اس کی شادی پر پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ دلہن کے لیے لاکھوں کا سونا خریدا گیا  اور شادی کے موقع پر میرے لیے ایک نئے کپڑے کا جوڑا بنایا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ رشتے داروں اور دوستوں سے میرا تعارف کیسے کروایا جاتا تھا۔ مگر مجھے اتنا ادراک ہو ہی جاتا تھا کہ سب لوگ مجھے  گھر کا ایک نوکر سمجھتے تھے۔ 

 شادی ہوتے ہی  انجینئر صاحب نے نیا مکان خرید لیا اور اس میں اپنی نئی نویلی دلہن کے ہمراہ رہنے لگا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ اب  رشتہ توڑ ہی دیا تھا۔ مہینے میں ایک آدھ بار  اپنی ماں سے فون پر ہی حال احوال پوچھ لیا کرتا تھا۔

 ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے ایک ساتھی ڈاکٹر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ دھوم دھام سے پھر شادی کی تقریب منائی گئی۔ بہنوئی جی امریکہ میں کسی ہسپتال میں ڈاکٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے اور شادی کے بعد وہ میری بہن کو اپنے ساتھ امریکہ لے کے چلا گیا۔

 اب میں ماں کے ساتھ اکیلا رہ گیا تھا, لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے میری ماں کسی لمبے جرم کی سزا کاٹ کے آزاد ہو گئی ہو۔ اب وہ دفتر کے بعد اپنے یار کے ہمراہ گھر پر آتی تھی۔ یہ مناظر دیکھ کے میرا ضمیر تھرتھرانے لگتا تھا۔ مجھ سے یہ سب دیکھا نہ جاتا اور میں نے ایک دن ماں سے اپنی شادی کی بات چھیڑ دی۔ میری ماں کو شاید اس بات کی توقع مجھ سے نہ تھی۔ شادی کی بات سنتے ہی اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔ اس نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ میں ایک  اپاہج اور گوار انسان ہوں  اور آج کے دور میں  کوئی بھی باپ اپنی لڑکی کو ایسے مرد کے حوالے کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسلیے شادی کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دو۔ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ اب مجھے اس گھر میں نہیں رہنا ہوگا۔ 

 میری ذہنی کیفیت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ گھر کی جائیداد کا بٹوارہ ہوا۔ اتنے بڑے مکان میں, میں نے اپنے لئے اپنا کمرہ مانگا جس میں برسوں سے اکیلے رہتا تھا۔ وہ کمرہ میرا ایک ہمدرد ساتھی تھا۔ اس کی دیواروں پر میرے درد کا عکس قید ہو چکا تھا۔ اس کی فرش پر میرے آنسوں کا قالین بچھا ہوا تھا۔ وہ کمرہ میرا ہمراز تھا۔ لیکن مجھے گھر سے باہر ایک کوارٹر دیا گیا, جس میں گھر کا کاٹھ کباڑ پڑا رہتا۔ میں نے چپ چاپ ماں کا فیصلہ قبول کیا اور میں کر بھی کیا سکتا تھا؟

 میری ماں نے بالآخر  اس جواں سال ساتھی  سے زبردستی شادی کر لی اور اس کے ساتھ گھر میں رہنے لگی۔ محلے والوں کے طعنوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اب میں اپنے سوتیلے  باپ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا تھا۔ ایک سال بعد میرے سوتیلے بھائی کا جنم ہوا۔ اس کے دنیا میں آتے ہی مجھے معمولی کواٹر سے بھی بے دخل کر دیا گیا۔ مجھے رسوا کر کے گھر سے نکال دیا گیا۔ مگر گھر سے جانے کے لئے میں نے اپنی ماں سے میری حقیقت بتانے کی شرط رکھی۔ میری ماں نے مجھے بتایا کہ میں اس کی ناجائز اولاد ہوں اور اس کے پہلے شوہر کئی ماہ تک کسی دوسری ریاست میں نوکری کے سلسلے میں رہے اور اس دوران اس کے ایک دور کے رشتے دار کے ساتھ مراسم کے نتیجے میں میرا جنم ہوا تھا۔

 اب میں ایک لاوارث تھا۔ باہر کی دنیا بڑی عجیب تھی۔ مجھے کہیں کوئی کام نہ ملا۔ کبھی کبھار مزدوری کر کے تھوڑے سے پیسے جمع کر کے  اپنا پیٹ پال لیتا تھا۔ میں اب بتیس برس کا ہو چکا ہوں۔ دنیا مجھے پاگل تو سمجھتی ہے لیکن میرا درد آج تک کوئی  نہ سمجھ سکا۔ شہر کے ایک چوراہے پر رہتا ہوں۔ کھلے آسمان تلے سوتا ہوں۔ اب وہ چورا ہا  میرے گھر کا وہ کمرہ اور وہ کوارٹر ہے جہاں میں نے زندگی کے بتیس سال گزارے۔ چوراہے کے پاس ہی ایک زیارت بھی ہے جہاں عقیدت مندوں کی کافی گہما گہمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کوئی پکے چاول، کوئی تھوڑے سے پیسے میری جھو لی میں ڈال دیتا ہے۔ 

میں کسی کے ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں۔ میں ایک اپاہج اور گناہ گار وجود لیکر ننگے چوراہے پر اپنے اختتام کا منتظر ہوں۔ لاوارثوں کے کسی قبرستان میں کوئی تاریک لحد میری گندی روح اور اپاہج جسم کا پردہ ضرور کرے گی۔ اب میرا معمول ہے کہ میں زیارت کے آگے بڑی شاہراہ پر ایک خیراتی ادارے کی اس ایمبولینس کو دیکھ کر دن گذار رہا ہوں جو لاوارث لاشوں کو شہر کے مضافات میں ایک قبرستان میں دفن کرنے کے لئے روز گذرتی ہے۔ اور کبھی کبھی درگاہ کے احاطے سے بھی لاوارث لاشوں کو اٹھاتی ہے۔ جس دن وہ ایمبولینس میں نہیں دیکھتا, اس دن مجھے وحشت ہوتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ کسی نے مجھے اپنی ماں کے گھر میں پھر سے پھینک دیا ہے۔ مجھے اپنی ماں کی کوکھ سے قبر کی لحد زیادہ محبوب ہے۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں