ٹرانسپورٹ کے بارے میں اب تک متعدد مرتبہ حکومت کی طرف سے دعوے کئے جاتے رہے لیکن یہ سچ ہے کہ اس وقت شہر میں خاص طور پر بہتر سروس میسر نہیں۔یعنی شام پانچ چھ بجے کے بعد پرائیویٹ ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیاں بند کردیتے ہیں ان حالات میں لوگون کو آٹو رکھشاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا ہے۔آٹو ڈرائیور مسافروں سے منہ مانگی کرایہ وصول کرتے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ اب شہر کے مختلف روٹوں پر نائیٹ بس سروس شروع کی جائے گی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ اعلان اعلان کی حد تک ہی محدود رہا کیونکہ ابھی تک کسی بھی روٹ پر نائیٹ بس سروس شروع نہیں کی گئی۔اب حالات میں کافی بہتری آئی ہے لوگ شام کے بعد گھروں سے نکل کر مختلف مقامات پر سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں۔بازار اب رات دیر گئے تھے کھلے رکھے جاتے ہیں ان حالات میں نائیٹ بس سروس کا رول نہایت ہی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے کاروبار بھی بڑھ سکتا ہے اور لوگوں کی دوسری ضروریات بھی پوری ہوسکتی ہیں۔میٹرو پالیٹن شہروں میں لوگ رات کو ہی دوست، احباب اور رشتہ داروں کے پاس جاتے ہیں اور ان کی خیر و عافیت پوچھتے ہیں ان کا حال چال دریافت کرتے ہیں۔یہ اسلئے کہ دن میں ہر کوئی اپنے کام کاج میں مصروف ہوتاہے اور اس کے لئے دن کو وقت نکالنا نا ممکن ہوتا ہے۔تاجروں کے لئے بھی یہ ناممکن ہوتاہے کہ وہ اپنا کاروبار ترک کرکے دوست احباب کے پاس جائیں اسلئے سب رات کے دوران ہی اس طرح کے کام نمٹاتے ہیں۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ان کو سرکاری بس سروس دستیاب ہوتی ہے۔ عوامی حلقے بار بار یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وادی اور خاص طور پر شہر سرینگر میں ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک آنے جانے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔اس وقت پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سروس ہی لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے گو لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں پھر بھی بہتر ٹرانسپورٹ سروس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔لوگوں کو قدم قدم پر مسافر بسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر یہاں بھی ایسا ہوگا تو اس سے نہ صرف یہاں تجارت میں پیش رفت ہوسکتی ہے بلکہ لوگوں کا وقت بھی بچ جاتا لیکن ابھی تک حکومت صرف اعلانات ہی کرتی ہے جبکہ عملی طور پر نائیٹ بس سروس شروع ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔اب کل ہی اخبارات میں یہ خبر آئی ہے کہ یہاں عنقریب 41بسوں پر مشتمل قافلہ پہنچنے والا ہے یہ سب ای بسیں ہونگی۔اگر ان میں سے کچھ بسوں کو نائیٹ سروس کے لئے مخصوص رکھا جائے گا تو یہ مستحسن قدم ہوگا۔سرکاری طور پر بتایا گیا کہ ای بسوں میں کنڈکٹر نہیں ہونگے بلکہ لوگوں کو آن لائین کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔ایسا عملی طور پر ناممکن سا لگتاہے کیونکہ مسافر بسوں میں سوار سب کے سب افراد پڑھے لکھے نہیں ہوتے ہیں جو آن لائین کرایہ ادا کرسکیں گے۔اس کے علاوہ لال بازار حضرتبل روٹ پر ای بس سروس چلانے کو ترجیح دی جائے کیونکہ شہر کا یہ ایک ایسا روٹ ہے جہاں ناقص بس سروس ہے اسلئے اس طرح کے دوسرے روٹوں کی نشاندہی کرکے معقول سرکاری بس سروس شروع کی جائے تاکہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرس اور آٹو رکھشا ڈرائیوروں کو من مانیاں کرنے کی کھلی چھوٹ نہ مل سکے۔اس مسئلے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دیرینہ مسئلے کا حل نکل آئے اور عوام کو اس تکلیف دہ پریشانی کا راہِ نجا ت میسر ہو۔
184