عابد حسین راتھر
لفظ ‘آفت’ کا مطلب کسی معاشرے کے کام کاج میں سنگین رکاوٹ پیدا ہونا ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی، مادی یا ماحولیاتی نقصان ہوجائے کہ متاثر معاشرہ اپنے موجودہ یا دستیاب وسائل سے اس نقصان سے نمٹنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ جب سے بنِی نوع انسان نے اس زمین پر قدم رکھا ہے تب سے اس کو تواریخ کے مختلف ادوار میں مختلف اقسام کے آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ آفات خطرات کی پیداوار ہے اور خطرات کا مطلب کوئی ایسی صورتحال ہے جس میں انسانی، مادی یا ماحولیاتی نقصان کا اندیشہ ہو۔ خطرات کے بغیر کوئی آفت نہیں آتی۔
خطرات بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں- قدرتی اور غیر قدرتی۔ قدرتی خطرات موسمیاتی، ارضیاتی یا حیاتیاتی واقعات کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور غیر قدرتی خطرات انسانی یا ٹیکنالوجی کے وجوہات کے بنا پر ہوتے ہیں۔ آفت کا دوسرا جُز غیرمحفوظیت ہے. غیر محفوظیت کا مطلب اپنی نوعیت یا اپنی بناوٹ کے اعتبار سے کسی معاشرے کو، کسی عمارت کو یا پھر کسی جغرافیائی علاقے کو کسی خطرے کی وجہ سے نقصان کا کتنا اندیشہ یا امکان ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں قدرتی اور غیر قدرتی خطرات کا ہونا ایک قدرتی عمل ہے لیکن جب یہ خطرات کسی معاشرے کی غیر محفوظیت سے ٹکراتے ہیں تو آفات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلوں کا آنا ایک قدرتی عمل ہے لیکن جب یہی زلزلے کسی آبادی والے علاقے میں آتے ہیں اور وہاں جانی اور مالی نقصان کرتے ہیں تو یہی زلزلے آفت بن جاتے ہیں۔
کسی معاشرے کی اقتصادی اور سماجی حالت اس کی غیر محفوظیت کا تعین کرتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ آفتوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں انسانی نقصان زیادہ ہوتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں مادی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا کا کوئی بھی ملک مکمل طور پر آفتوں سے محفوظ نہیں ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں ان آفتوں کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے جو وہاں کی معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ایک رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ہر سال آفتوں سے وابستہ % 97 اموات ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔ امیر ممالک میں بہترین مواصلاتی اور انتباہی نظام سے نقصانات کا خدشہ کم رہتا ہے۔
غیرمحفوظیت آفتوں میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی علاقے کی اہم ضروریات جیسے پانی کی فراہمی کا نظام، سڑکیں، مواصلاتی نظام وغیرہ خطروں سے جتنی غیر محفوظ ہوگی وہاں آفتیں اتنی ہی زیادہ مؤثر ہوگی۔ غربت کی وجہ سے چھوت چھات والی بیماریوں کا پھیلاؤ بھی آفتوں سے غیرمحفوظیت کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غیرمحفوظیت کا سب سے بڑا باعث بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے بہت ماحولیاتی تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے قدرتی آفتوں کے بڑھنے کا بھی بہت اندیشہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صلاح کاروں کی کمزور حکمت عملی سے بھی آفتوں کے دوران نقصانات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
آفات ہمیشہ اپنے ساتھ مصائب اور پریشانیاں ساتھ لاتے ہیں۔ صنعتی حادثات، مہاماری، فرقہ وارانہ تشدد، دہشتگردی، نیوکلیائی ہتھیار کی جنگ جیسی غیر قدرتی آفات سے دنیا کی سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی حالات پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ آفتوں سے متاثر زدہ خطوں میں معاشی اور سماجی ناپائیداری پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتا ہے اور کچھ لوگ متاثر جگہوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آفتوں کے دھچکوں کی وجہ سے انسانوں کے ذہن پر دباؤ پڑھنے کی وجہ سے اُن میں عجیب قسم کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ عام طور پر آفت کے اقتصادی اثرات کا حساب اس بنیاد پر لگایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے عمارتوں،اسکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں، فیکٹریوں اور فصلوں کو کتنا نقصان ہوا۔
آفت کی شدّت دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک یہ کہ آفت کس قسم کی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے کتنی بڑی معاشیت کو نقصان ہوا اور معاشیت کے کس کس سیکٹر پر اثر ہوا۔ مثال کے طور پر خشک سالی سے عمارتوں یا سڑکوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن خشک سالی کے لمبے عرصے سے انسان کو دوسرے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ اچانک آنے والی آفات جیسے زلزلہ یا سیلاب کا اثر براہ راست عمارتوں، سڑکوں، وسائل اور باقی سہولیات پر پڑتا ہے۔ عام طور پر آفت کے معاشی اثرات کی درجہ بندی تین زمروں میں کی جاتی ہے- براہ راست اثرات، بالواسطہ اثرات اور ثانوی اثرات۔ آفتوں سے فصلوں، عمارتوں، سڑکوں وغیرہ پر پڑنے والے اثرات براہ راست اثرات ہیں۔ بالواسطہ اثرات میں چیزوں کی مہنگائی، ملازمتوں کا نقصان، تجارت میں نقصان، فیکٹریوں کی کم پیداوار وغیرہ شامل ہیں۔ ثانوی اور آخری درجے میں طویل المیعاد والے اثرات شامل ہے جیسے کہ مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی ترقی کمزور ہونا، ملک کا غریب ہونا، ملک کی خارجی تجارت پربُرا اثر پڑنا اور ملک پر بین الاقوامی قرضے کا بوجھ پڑنا وغیرہ۔ آفات سے ملک کی اقصادی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور گھریلو زندگی پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی غیر محفوظ کنبے غربت میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ کمانے والے افراد کی اموات، پیداوار میں نقصان وغیرہ جیسے اثرات کی وجہ سے گھریلو معیشت تباہ ہو کے رہ جاتی ہے۔ آفتوں سے متاثر خطے میں معاشی نقصان کی وجہ سے وہاں کے سماجی، تعلیمی، صفائی اور طبی نظام پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اور وہاں کی سماجی پیش رفت ٹھپ ہو کے رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گجرات میں سال 2001 میں کچ کے بھوج ضلع میں زلزلہ آنے کی وجہ سے وہاں کے ضلعی ہسپتال کے ساتھ ساتھ 992 پرائمری اسکول اور 18 سیکنڈری اسکول پوری طرح تباہ ہوگئے۔ سال 1999 میں اڑیسہ میں سائیکلون آنے کی وجہ سے وہاں کے پینے کے پانی کے تمام کنوئیں آلودہ ہوگئے اور بہت سارے اسکول تباہ ہوگئے۔
ماضی میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ زمین پر صرف کچھ خاص خطے جیسے بحرالکاہل کے آس پاس والے علاقے سونامی، زلزلہ جیسی آفتوں کے زیادہ خطرے میں ہے لیکن 2001 کے گجرات زلزلے، جنوبی ایشیا میں 2004 کی سونامی اور پاکستان میں 2005 کے زلزلے نے انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کرۂ ارض کا کوئی بھی حصہ آفات سے پوری طرح محفوظ نہیں ہے۔ ہندوستان میں تقریباً ہر قسم کی آفت کا امکان ہے۔ ہندوستان کی کل 28 ریاستوں اور 8 زیر مرکز علاقوں میں سے 25 سرکاری طور پر آفتوں کے خطرے میں آتے ہیں۔ ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ زلزلوں کے امکانی زون میں آتا ہے جس میں جموں وکشمیر سرفہرست پر ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں آفات سے نمٹنے کیلئے جدید اور مؤثر طریقہ کار پر توجہ دینا چاہیے اور ساتھ ہی حکومت کو بھی چاہیے کہ آفات سے نپٹنے والے شعبہ کی طرف خصوصی دھیان دے کر اس کو ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے۔