رئیس صِدّیقی
ایک دن کی بات ہے کہ گائوں کے کچھ بچّے روزانہ کی طرح ایک ہرے بھرے سبزہ زار میں بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک وہاں کچھ ڈاکو آگئے ۔
ان کی وحشت ناک آنکھیں، خوفناک شکلیں اور چمکتی ہوئی تلواریں دیکھ کر،بچّے مارے ڈر کے کپکپانے لگے اور بدحواسی کے عالم میں سر پٹ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگے ۔
لیکن اُن میں سے ایک بچہ ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر ذرّہ برابر بھی خوف یا ڈر کے آثار نہ تھے۔ وہ اطمینان سے بکریاں چراتا رہا۔ یہاں تک کہ ڈاکو آگئے۔
جب اُن لٹیروں نے بکریاں یکجا کرکے لے جانا چاہا تو وہ آگے بڑھ کر ڈاکوئوں سے نظریں ملاتے ہوئے بڑی سنجیدگی اور متانت سے بولا۔
’’تم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں۔ ان کو مجھے گائوں والوں نے چَرانے کے لئے میرے سپرد کیا ہے۔ یہ ان کی امانت ہیں اورمیں ان سب کا امین ہوں ۔میں ان سب کا امانت دار ہوں۔ اگر تم لوگ ان کو لے جانا چاہتے ہو ، تو پہلے ان کے مالکوں سے اجازت لے لو، پھِر لے جانا۔تم لوگ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتے !‘‘
سبھی ڈاکوبچّے کی اس بات پر بے اختیار ہنس پڑے اور یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ نے لگے کہ
’’یہ کس قدر بھولا بچّہ ہے۔ بھلا کوئی شخص چوری اور ڈکیتی کرنے کی اجازت دے گا۔ شاید یہ معصوم نہیں جانتا کہ ہم لوگ کون ہیں اور ہمارا کام کیا ہے!‘‘
جب بچے نے دیکھا کہ وہ لوگ میری بات سُنی اَن سُنی کر کے بکریاں لے جارہے ہیں تو وہ تیرکی طرح ان کی طرف جھپٹا اور ان کے سامنے راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
یہ دیکھ کر، ڈاکوئوں میں سے ایک بے حد غضب ناک ہوکر بولا:
’’تو ہٹتا ہے یا میں خود تجھ کو ہٹادوں۔‘‘
’’نہیں، میں اپنے راستے سے کبھی نہیں ہٹوںگا۔ خواہ تم لوگ میرے ساتھ کتنا ہی برا سلوک کرو مگر میں اپنے جیتے جی، ان بکریوں کو نہیں لے جانے دوںگا۔‘‘
اس معصوم لیکن دلیر بچے نے فیصلہ کن انداز میں اپناعزم ظاہر کیا۔
اس کی جرأت اور شجاعت سے سبھی ڈاکو بے حد متاثر ہوئے اور وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ اتنا سا بچّہ اِس قدر دلیر اور بہادر!
ڈاکوئوں کا سردار اس بچے کی طرف بڑھا اور اسے گود میں اٹھا کر شفقت سے پوچھا:
’’بیٹاـــ‘ تم کس کے فرزند ہو؟‘‘
’’میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔‘‘
اس بچے نے اپنے دادا کا نام بتایا۔
سارے عرب میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو عبدالمطلب کے نام سے واقف نہ ہو!
سردار آپ کا نام سنتے ہی بے اختیار کہہ اُٹھا:
’’بیشک ! سردارِ قریش کے پوتے کو ایسا ہی دلیر اور بہادر ہونا چاہیے!!۔
میرے عزیز ! میں تمھاری ہمت اور جرأت کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ تمھاری پیشانی کا نور کہہ رہا ہے کہ جب تم بڑے ہوگے، تو نہ صرف بنو ہاشم بلکہ سارا عرب تمھاری ذات پر فخر کرے گا!
میرے عزیز، میں یہ تمام بکریاں صرف تمھاری وجہ سے چھوڑ رہاہوں مگر تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
اس معصوم ، پُر نور، دلیر اور بہادر بچے نے اپنی نر م اور راحت بخش آواز میں، بڑے اعتماد سے کہا۔
’’ محمد ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
(کہانی کار آکاشوانی؍دوردرشن دلی؍ بھوپال کے سابق آئی بی ایس افسر، قومی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ و دلی اردو اکادمی ایوارڈ یافتہ پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم،افسانہ نگار، شاعرو ادیبِ اطفال ہیں)۔