112

افسانہ ۔۔۔واقف

ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر

شادی کے بعد ارشد اپنے سارے رشتے داروں میں گویا بدنام ہی ہوا تھا ۔ اس نے ایسی کوئی سنگین غلطی تو نہیں کی تھی لیکن ہاں اپنے اصولوں پر پابندی کے ساتھ قائم رہا یعنی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ہی کہتا تھا۔ ان سارے رشتے داروں کی نظروں میں ارشد ایک رن مرید، ماں باپ کا نافرمان، نالائق اور اولادِ نافلق وغیرہ وغیرہ تھا۔ لیکن اصل حقیقت بالکل اس کے برعکس تھی ۔ جب بھی ان کا آنا وہاں ہوتا تھا تو ارشد کو ضرور بےعزتی اور ڈانٹ ڈپٹ کھانی پڑتی تھی ۔ بہت بار جب بےعزتی کا قوت برداشت سے زیادہ کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس نے خودکشی کرنا چاہی لیکن بیوی اور کچھ دوستوں نے اسے ایسا قدم نہ اٹھانے کی بہت تلقین کی ۔ تبھی وہ آج بھی زندہ ہے ورنہ اس کے ارادے کچھ مختلف تھے اور وہ بار بار خودکشی کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا ۔‌کم گو اور شریف مزاجی کی وجہ سے ارشد ان کو وضاحت اس لیے نہیں دیتا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وضاحت دینے کے باوجود بھی ان کے وطیرے اور موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے ۔ اس لیے اس نے خاموشی میں ہی بہتری سمجھی تھی ۔۔۔۔۔۔
ارشد کے مقابلے میں اس کا چھوٹا بھائی ماجد جو ابھی کنوارا ہی تھا رشتے داروں کے مطابق ایک فرمانبردار اور لائق اولاد تھا ۔ وہی گھر کا سارا نظام سنبھالتا تھا اور ماں باپ کے بارے میں بھی فکر مند رہتا تھا اور ان کو عزت و احترام کرتا تھا ۔ وہ سب رشتے دار ماجد کو ہی تعریفوں کے مالا چڑھاتے تھے۔۔۔۔۔
ماجد کے باپ کو اب اس کی شادی کی فکر ہونے لگی۔‌وہ چاہتا تھا کہ جلد اس کی شادی کسی اچھے سے گھرانے میں کریں۔ بیوی نے رشتے میں ہی اس کی شادی کرانے کی خواہش ظاہر کی ۔ میاں نے بھی بیوی کی خواہش پر ہی اتفاق ظاہر کیا ۔ وہ یکے بعد دیگرے سب رشتے داروں کے پاس ماجد کے بارے میں نکاح کا پیغام لے کر گیا ۔ کیونکہ دونوں میاں بیوی کو پختہ یقین تھا کہ وہ سب ماجد کو چاہتے ہیں اور وہ ہاں ہی کریں گے کیونکہ ہمیشہ اور ہر وقت جب بھی ان کا آنا ان کے گھر ہوتا تھا تو ماجد کو ہی تعریفوں کے پل باندھتے تھے ۔۔۔۔۔۔
لیکن ان سب رشتے داروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ماجد ایک بے کار نوجوان لڑکا ہے جو اپنے بڑے بھائی ارشد کی کمائی پر ہی پلتا ہے ۔ دوسرا وہ اتنا کمینہ ہے کہ کہنے کی بات ہی نہیں ہے ۔ اپنے بڑے بھائی اور اس کی بیوی کی زندگی اس نے اجیرن بنا کے رکھ دی ہے ۔ ہزار بار ان سے لڑائیاں کرکے بھی وہ بے چارے اس ذلیل لڑکے کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ نہ ہمسائیگی میں ہی اس کی کوئی عزت کرتا ہے اور نہ ہی رشتے داروں میں ہی کیونکہ اپنے بڑے بھائی اور اس کی بیوی سے جو سلوک اس نے‌ پندرہ سال تک کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ پہلے ہم لوگوں نے حقیقت اور سچائی نہیں بتائی تھی لیکن اب جب بات ہماری بیٹی کے رشتے کی آگئ ۔ ہم بالکل بھی اپنی بیٹی کی زندگی جہنم جیسا نہیں بنانا چاہتے ہیں ۔ اگر ارشد جیسا شریف لڑکا ہوتا تو بات الگ تھی لیکن ماجد کے بارے میں ہم سب لوگ پورے واقف اور باخبر ہیں ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں