125

نیا سال مبارک ہو ۔۔۔ طنز و مزاح ۔۔۔

محمد اسد اللہ ، ناگپور

نیا سال شروع ہونے پر اسے خوش آ مدید کہنے کے لیے یوں تو پوری دنیا میں جشن کا ماحول پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں یعنی مشرق میں چراغاں، آ تش بازیاں اورپٹاخے اس جشن کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹیاں، ضیافتیں، ناچ گانے وغیرہ سے لطف اندوز ہوکر ہم نیا سال شروع کر دیتے ہیں۔ اس بین الاقوامی دھارے میں وہ بھی بڑے پیمانے پر بہنے لگے ہیں جن کی تہذیب میں اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا مگر اب وہ نظر اس حد تک کمزور ہو چلی ہے کہ اس قسم کا کوئی منظر نظر نہیں آ تا ۔البتہ اہل مغرب اس موقع پر خاص طور پر دو کام ضرور کرتے ہیں ایک مبارک باد اور دوسرے نئے سال کے لیے عزائم۔
مشرق میں عوامی سطح پر ان چیزوں کا اہتمام کبھی نہیںرہا۔پیروی مغرب کی بات جُدا ہے۔ہندوستان میں نیا سال،سال بھر میں کئی بار شروع ہوتا ہے جیسے اسکوٹر کا کوئی پرانا ماڈل جو چلتا کم ہے شروع زیادہ ہوتا ہے (ظاہر ہے بند بھی ہوتا ہوگا)۔ ہمارے ملک میں انگریزی سال،اسلامی سال،پارسی نیوایرس ڈے،بکرم ورش کے علاوہ تعلیمی سال،کاروباری سال وغیرہ کے ذریعہ سال کو بارہ مہینوں میں کئی مرتبہ شروع کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں، ظاہر ہے جو روز، روز مرے اسے کون روئے۔مبارک باد دینے کے کئی مواقع ہیں مگر شاید یہاں کے سیاسی، جغرافیائی اور معاشی حالات اس قدر فضول خرچی کی اجازت نہیں دیتے۔
بعض حقائق وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔کسی نے کہا تھا مشرق مشرق ہے مغرب مغرب ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جغرائیائی حدود کو اچھی طرح چیک کرلیں ،ورنہ کسی دن جائزہ لینے پر پتہ چلے کہ نہ مشرق میں ہیں نہ مغرب میں۔یعنی کہیں کے نہیں رہے۔
نئے سال کی آمد پر ہم نے ارادہ کیا کہ چند عزائم کے ذریعے زندگی کو نئے سرے سے سنوارا جائے،مغرب والوں کے اتباع ہی میں سہی۔ یاد آیا کہ سال گذشتہ جو عزائم کیے تھے وہ کون سے پورے ہوئے جو،اب نئے عزائم کریں۔بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردیں کہ گذشتہ برس مسٹر اے ٹوزیڈ نے طے کیا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلائیں گے، شاندار دعوت ہوگی، وغیرہ۔ سو، یہ وعدہ انھوں نے اپنے والد مرحوم کے چالیسویں کی تقریب میں پورا کیا ۔ انھوں نے ہمیں بھی کئی عزائم سمجھا دیئے تھے مثلاً یہ کہا تھا:
’’میاں !پان کھانا بند کرو، ورنہ جو دانت تم ہم پر اور سارے زمانے پر نکال نکال کر ہنستے ہو،کسی دن ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے اور اسی طرح سگریٹ پھونکنے کے بجائے اسے پھینک دو،ورنہ کسی دن تم خود دھوئیں کا مرغولہ بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاؤ گے اور روزانہ علی الصبح اٹھا کرو شاید کسی دن تمہارے ساتھ تمہارا سویا ہوا مقدر بھی جاگ اٹھے‘‘۔
پہلے تو ہم ان کی ان بزرگانہ نصیحتوں اور بچکانہ انداز پر ہنسے،پھر کوئی قابل قدر عزم نہ ملنے کی صورت میں دو تین مہینوں تک ان ہی عزائم کو اپنے اوپر اوور کوٹ کی طرح سجائے پھرتے رہے۔ مئی جون میں جب گرمی بڑھنے لگی تو شرافت کے جامے سے باہر آگئے ۔ہمیں اس پر افسوس بھی نہیں ہے کیوں کہ اگر یہ تمام عزائم گذشتہ برس کے دوران پورے ہو جاتے تو اس سال ہم کیا کرتے؟نیا سال کیسے مناتے؟اور ہم یہ سب نہ کرتے تو وقت ہمارے پرانے اسکوٹر کی طرح ٹھہر جاتا۔
ہمارا اسکوٹر رکنے اور چلنے کے لیے کسی بہانے کا محتاج نہیں ہے مگر اسکوٹر اور انسان کچھ تو فرق ہونا چاہئے ۔ وقت کے ساتھ چلنے کے لیے انسان کو عہد و پیمان کی ضرورت ہے۔ہر چند یہ مشرقی روایت نہیں کہ ہمارے ہاں توڑنے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں،ملکی قوانین، اخلاقی ضوابط، پرانی قدریں، عہد پیمان اور کچھ نہ ملے تو ایک دوسرے کا سر۔ ہم نومبر و دسمبر سے تاک میں تھے کہ کوئی Unbreakable قسم کا عزم اپنا لیں۔ مسٹر اے ٹو زیڈ سے پوچھا تو کہنے لگے:
’’ایسا عزم تو بس ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم یہ ٹھان لوکہ اس سال کوئی نیا عزم نہیں کروگے‘‘۔
’’دھت ترے کی ‘‘۔یہ کیا بات ہوئی۔
سال ختم ہونے میں بس ایک دن باقی تھا۔ہم زیر لب بڑبڑائے:
’’عزائم کو اوور کوٹ نہیں بننے دیں گے اپنا عزم خود کریں گے اور وہ یہ کہ ہم با اخلاق بنیں گے۔مگر کیسے ؟با اخلاق اور پولائٹ بننے کی پہلی سیڑھی ہے بات چیت کا سلیقہ!‘‘
’’ نیک کام میں دیر کیوں،بس جو ملے اسے دو مبارک باد نئے سال کی،بن گئے مسٹر پولائٹ یہی تو ہیںایٹی کیٹس نئی سوسائٹی کے ‘‘۔
اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے نتیجے میں حسب ذیل واقعات پیش آئے۔
’’۳۱ دسمبر کی رات۱۲بارہ بجے ہوں گے، ادھر نئے سال نے ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے رات کی کالی چادر سے سر نکالا،گھڑیال نے ۱۲ بجا کر اور لوگوں نے پٹاخے چھوڑ کر خواب غفلت کے مزے لینے والوں کو اس عظیم واقعے کی خبر دی اور ادھر ہم نے فون اٹھایا۔مسٹر اے ٹو زیڈ سے رابطہ کیا ۔بہت دیر بعدنیند میں ڈوبی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’ہیلو؟‘‘
’’ارے بھئی،نیا سال مبارک ہو۔کیا سو رہے ہو؟‘‘
ادھر سے جواب میں شیر کی سی دہاڑ سنائی دی۔
’’ابے اوئے مشٹنڈے تجھے کیا یہی وقت ملا تھا مبارک باد
دینے کے لیے؟‘‘
’’نیا سال شروع ہو گیا ہے‘‘۔
’’تو کیا صبح تک رک نہیں سکتا تھا،کیا صبح تک یہ سال بھاگا
جا رہاتھا۔ابے ،تو کون ہے تیرا نام اور نمبر تو بتا؟‘‘
’’اوہو ،سردار جی رانگ نمبر ۔ویری ساری‘‘۔
’’دھت تیرے کی ،نیا سال بھی شروع ہوا تو رانگ نمبر
سے۔اب آگے کیا ہوئے گا‘‘۔
’’سب اچھا ہی ہوگا سردارجی ،نیا سال شروع ہو چکا
ہے۔۔۔مبار۔۔۔،
’’اوئے ،نیا سال شروع ہوا تو کیا میںناچوں ؟‘‘۔یہ کہہ کر فون رکھ دیا گیا۔
اس کے بعد کسی اور سے فون پر بات کرنے کی تاب نہیں تھی ۔جب صبح ہوئی تو دودھ کا پیکٹ لینے کے لیے نکڑ کی دکان پر پہنچا ۔قطار میں کھڑے ایک گاہک نے بتایا۔
’’لالہ جی کے گھر بچیّ ہوئی ہے ‘‘۔ ہم نے آگے بڑھ کر کہا۔’’لالہ جی مبارک ہو‘‘۔
یہ سن کر لالہ جی گرم دودھ کی طرح ابل کر چھلک پڑے۔
’’چھڑک لو چھڑک لو ،تم بھی ہمارے زخموں پر نمک چھڑک لو‘‘۔
پتہ چلا ،کہ لالہ جی کے گھر لڑکی ہوئی ہے اسی لیے اس قدر جلے بھنے ہیں۔ دودھ کا پیکٹ لے کر لوٹ رہا تھا کہ مجوّپہلوان پر نظر پڑی ۔یاد آیا کہ ،کل کسی نے بتایا تھا ان کے گھر لڑکا ہوا ہے۔سوچا ،اب تو انھیں مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں۔ہم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا کر کہا،
’’پہلوان صاحب،لڑکا مبارک ہو‘‘۔
پہلوان صاحب نے پہلے ہمیں آنکھیں نکال کر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور گویا خون کا گھونٹ پی کر کہا۔
’’ماسٹر صاحب ،میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اسے وہ پٹخنی دیتا کہ وہ پانی تک نہ مانگتا‘‘۔
’’آخر ہوا کیا؟‘‘
’’ہونا کیا ہے پچھلے پانچ سالوں سے میں کارپوریشن کے الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے ڈنڈ پیل رہا ہوں۔ادھر مجھے چوتھا لڑکا پیدا ہوا اور ادھر آج کے اخبار میں خبر چھپی ہے کہ سرکار سوچ رہی ہے تین سے زیادہ اولیاد(اولاد)والے کو الیکشن میں کھڑے نہیں ہونے دیں گے اور آپ بولتے ہو،مبارک ہو‘‘۔ہم نے پہلوان صاحب سے معافی مانگی اور آگے بڑھے۔
اب جو،شامت آئی تو سامنے چلے آرہے مولوی اشرف علی صاحب سے ملتے ہی کہا۔
’’مولانا،نیا سال مبارک ہو‘‘۔
مولانا ،ناک سکوڑ کر بولے۔’’لا حول ولا قوۃ الاّبااللہ آپ تو پکّے ّانگریز کی اولاد معلوم ہوتے ہیں۔بھائی میرے!یہ ہمارا سال ہے ہی
(بقیہ صفحہ 15پر)
نہیں جو تم پر جوش انداز میں مبارک باد دیئے چلے جا رہے ہو۔یہ غیروں کے طریقے ہیں، انھیں چھوڑو،مجھے تو ایسا معلوم دے رہا ہے کہ یہ آپ ہی لوگ تھے کہ جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر جا رہے تھے تو انھیں تسلّی دیکر کہہ رہے تھے حضور!آپ دل چھوٹا نہ کریں ہم تو فقط آپ کو نکال رہے ہیں آپ کی تہذیب اور طور طریقوں کو ہم اپنا سمجھ کر ان کی پوری حفاظت کریں گے۔آج بھی آپ لوگوں کے دم سے انگریزوں کو ہندوستان اپنا گھر معلوم ہوتا ہے‘‘۔
گھر لوٹتے ہوئے میں نے دیکھا میرا دوست مبارک علی سائیکل پر سوار کہیں جا رہا تھا،بے اختیار میرا جی چاہا کہ اسے پکاروں، ’’مبارک!ذرا ٹھہرو‘‘۔
مگر میں رک گیا،کیا پتہ کسی قرض دار سے جان بچا کر وہ جلدی جلدی کہیں جا رہا ہو،یا اس کی جان کسی ایسی مصیبت میں پھنسی ہو کہ آج اسے اپنا نام بھی سننا گوارا نہ ہو۔
گھر پہنچ کر میں نے بچے کے ذریعہ دودھ کا پیکٹ کچن میں بھجوادیا اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے کا انتظار کرنے لگا۔
دس منٹ بعد بیگم چائے لے کر حاضر ہوئیں۔
’’بیگم نیا سال مبارک ہو‘‘۔
’’ہاں،آپ کو بھی مبارک ہو،اور جو خراب دودھ آپ لائے ہیں اس کی یہ پھٹی ہوئی چائے بھی مبارک ہو‘‘۔یہ کہہ کر وہ چائے کا کپ پوری قوت سے سے ٹیبل پر پٹخ کر گزرے ہوئے سال کی طرح واپس چلی گئی۔
مجھے اب نئے سال کے لیے ایک نیا عزم مل گیا ہے وہ یہ کہ اب کسی کو مبارک باد نہیں دوں گا۔مگر ہمارے سماج کی ان توبہ شکن فضاؤں میں وہ وعدہ،وعدہ ہی کیا!
وہ عزم،عزم ہی کیا جو توڑا نہ جائے۔میں جانتا ہوں میری اس جرأت سے آپ کو تکلیف ضرور ہوگی۔اسی لیے اسے کہتے ہوئے میرا دل کانپ رہا ہے،پھر بھی جاتے جاتے کہہ ہی ڈالوں:
’’نیا سال مبارک ہو!‘‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں