174

قدرتی وسائل کو بچانے میں ناکامی تباہی کا پیش خیمہ

جاوید احمد حرا

انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زمین پر موجود تمام نعمتوں کو درست انداز میں استعمال کر کے ان سے بہرہ مند ہونا تھا۔ وہ اپنے ماحول کی دیکھ بھال کرتا، تاکہ وہ خود اور اس کی آنے والی نسلیں اس فطری قانون کے ذریعے حاصل ہونے والی نعمتوں سے سرفراز ہو اور یہ عالم تمام انسانوں کےلیے گہوارۂ امن و سلامتی ہوتا، لیکن انسان ہی کی بداعمالیوں اور مفاد پرستی کی سوچ نے اس خدائی نظام میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ انسانی کرتوتوں کے نتیجے میں دنیا کے اندر مختلف قسم کی آلودگیوں نے سر اٹھایا ہے، جس سے دنیا ایک عظیم فساد کی زد میں ہے، جس کو فساد عظیم ہی کہنا مناسب لگتا ہے۔ دراصل فساد، نظام فطرت میں تبدیلی لانے، بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی ماحول اور گردو پیش کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ نے جو انتظام و انصرام کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا جو لوگ قوانین فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں یا بدل رہے ہیں اور نظام فطرت کو درہم برہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا ایسے اسباب و عوامل پیدا کر رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے، ہوا کی کثافت، فضاء کی آلودگی اور پانی کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے انسانی وجود کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ماحول پر آلودگی کے مختلف اندازوں سے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہم صرف ماحول کی چار بنیادی ماحولیاتی آلودگیوں پر تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں بحث کریں گی جو کہ حسب ذیل ہیں:۱۔ فضائی آلودگی ۲۔ زمینی آلودگی ۳۔ آبی آلودگی ۴۔ صوتی آلودگی۔
’’فضاء‘‘ انسانی حیات کے بقا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ یکساں طور پر حیوانات، نباتات، انسانوں اورنظر نہ آنے والی کئی مخلوقات کےلیے زندگی کی ضمانت ہے۔جس کے تحت ہم اپنی چوبیس گھنٹوں کی زندگی کے دوران حرکات و سکنات بجا لانے، کام کاج کرنے اور زندہ رہنے کےلیے فضا ہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
فضا کی وسعتوں میں نرم و نازک ہوائیں چلتی ہیں، جن کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی منشاء و مراد سے کسی علاقے یا خطے کے لوگوں کو اس بارش رحمت سے سیراب فرماتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’ وہی ہے جس نے چلائیں ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے آگے اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا۔اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوش خبری لانے والی اپنی رحمت سے۔پھر اسی بارش سے زمین پر گل و گلستان، ہریالی اور خوشی بھرے ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور دیگر جانداروں کے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔مطلب یہ کہ فضا کے اندر یہ مختلف فطری قسم کی تبدیلیاں مثلاًہوا کے اندر آکسیجن کی کثرت، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، دھوپ،گرمی سردی کا اتار چڑھاؤ پھر موسمی تبدیلیاں یہ سب کچھ ایسا توازن بھرا نظام ہے جو کہ انسانی حیات اور دیگر جانداروں کی زندگی کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو جب مختلف طریقوں سے تبدیل کیا گیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی جس سے فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے، فضا کی اسی نوعیت کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ؐنے ایسی تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے جن سے آگ اور دھواں (فضائی آلودگی) پھیلتی ہو اور وہ انسانوں کےلیے ضرر رساں ہوں۔ ہوا ہو یا پانی یہ دونوں آب و ہوا کے نام سے ماحول کا حصہ ہیں، نبی کریمؐ نے ان کی حفاظت کی تعلیم دی ہے اور انہیں آلودہ کرنے سے منع کیا ہے۔ آب وہوا کو آلودہ کرنے کا ایک سبب کھلی جگہوں پربول وبراز کرنا بھی ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ تم لعنت کے دو کاموں سے بچو۔ (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا: وہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ایک تو راہ میں(جدھر سے لوگ جاتے ہوں) پائخانہ کرنا، دوسری سایہ دار جگہ میں(جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں)پائخانہ کرنا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)فضائی آلودگی کوختم کرنے میں درختوں اور جنگلات کا اہم کردار ہے، آپؐنے ایک طرف شجرکاری کی ترغیب دی ہےاور ان کے کاٹنے اور ضایع کرنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:’’اگر تم میں سے کسی پر قیامت آجائے اور اس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اسے چاہیے کہ گاڑدے۔‘‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمن زندگی کی کوئی امید نہ بھی دیکھے، تب بھی اسے فطرت (نیچر )کی حفاظت کرنی چاہیے، کیوں کہ اپنی ذات میں نیچر ایک حسن ہے، گرچہ کسی انسان کو اس سے فائدہ نہ بھی ملتا ہو۔
اس کرۂ ارض کا ایک تہائی خشکی جبکہ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ زمین کا جو ہر مٹی ہے اور وہی انسانیت کی ابتدا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:بنایاآدمی کوکھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔‘‘(سورۂ الرحمٰن:14) ارشاد پاک ہے:تونے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں۔‘‘(سورۃ الحج: ۶۵(اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ہر طرح سے سنوارا اس کے اوپر درخت پیڑ پودے اُگائے۔ پانی کی نہریں اور چشمے جاری کئے۔ سرسبز شاداب کھیتیاں ہرے بھرے جنگلات بنائے، پھول پھل پیدا کئے، روشنی وتاریکی، آب و ہوا کے منظم انتظامات جاری کئے، تاکہ انسانوں کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہو۔تاہم حضرت انسان نے اپنی بے ترتیب طرز حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ وہ انسان ذات کے لئے امن و اطمینان کا باعث بننے کے بجائے وہ کسی طرح بھی انسان کو روند رکھنے کے درپے ہے۔ صنعتی ترقی جو درحقیقت ماحولیاتی تنزلی ہے، نے فطری ماحول کوابتر سے ابتر بنا لیا ہے۔زمینی آلودگی کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ،جن میں کچھ وہ ہیں جو قدرتی ہیں جبکہ دوسری انسانی نقل و حرکت کے باعث بنتی ہیں۔ انسانی استعمال میں لائی ہوئی چیزیں، فضلہ جات، ٹھوس اور مادی چیزوں کے انبار، صفائی کے نتیجہ میں اکٹھے ہونے والی چیزیں، تعمیرات اور کارخانہ جات کے فالتو مٹیریل، پرانی گلی سڑی چیزیں، زرعی اور صنعتی فضلہ جات اور دیگرچیزیں زمین کی آلودگی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ حضورؐنے نہ صرف زمین کے درست استعمال کی ترغیب دی ہے، بلکہ غیر آباد زمین کو آباد رکھنے سے حاصل ہونے والے فوائد کےلیے بھی ترغیب دی ہے اور کسی درخت کے لگانے، بیج بونے یا پیاسی زمین کو سیراب کرنے کے کاموں کو نیکی اور احسان والے اعمال قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد گرامی ہے: ’ جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کرتا ہے تو وہ اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔‘‘ اس زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر اس پانی کا سب سے زیادہ ۹۷ فیصدحصہ سمندروں کی صورت میں موجود ہے۔ ۲ فیصدبرف کے پہاڑ ہیں، جن سےبرف باری اور بارش ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی درجہ حرارت بڑھنے کی بدولت یہ پانی دریاؤں اور نہروں کی صورت میں خشکی پر لانے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور پھر زیر زمین پانی ہی انسانوں کو سب سے زیادہ کام آتا ہے۔پانی کا فطری طور پر ایک خاص رنگ و بو اور ذائقہ ہے، جب مضر صحت مادہ کی بعض اشیاء پانی کے اس فطری خواص کو بدل دیں تو یہ ’’آلودہ پانی‘‘ کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مٹی، ریت اور کچرے کی وجہ سے قدرتی طور پر پانی آلودہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی کسب کے نتیجے میں بھی آبی آلودگی پھیلتی ہے مثلاً صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو آبی گزر گاہوں اور نہروں میں پمپ کیا جاتا ہے، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب ہے۔ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ سمندری آلودگی کا سبب خام تیل اور دیگر استعمال شدہ چیزوں کا سمندر میں پھینکنا ہے۔یہ تمام چیزیں مل کر پانی کے فطری خواص کوختم کردیتی ہیں ،نتیجے میں پانی صحت اور انسانی استعمال کےلیے بےحد مضر ہو جاتا ہے۔ آنحضرتؐ کی مبارک تعلیمات میں اس آبی آلودگی کا سدباب کرنے کا پورا سامان موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔ صوتی یا آواز کی آلودگی کا تعلق سننے اور انسانی سماعت سے ہے۔ سماعت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے کہ انسانی پیدائش کے بعد سب سے پہلے جسے شمار کیا گیا ہے، وہ سماعت ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’اور دیئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل، تاکہ تم احسان مانو۔‘‘(سورۃ النحل:78(صوتی آلودگی کا پریشر اور تسلسل انسانی اعصاب اور اس کی جسمانی توانائیوں کو یک سر متاثر کرتا ہے۔ بسا اوقات انسان اس صوتی آلودگی کی بدولت معذور ہوجاتا ہے۔قرآن نے صوتی آلودگی کو ایک منفرد انداز میں نمایاں کیا ہے۔اسلام نے صوتی آلودگی کو کم کرنے کا کتنا اہتمام کیا ہے کہ اونچی آواز میں بولنے کے بجائے خود فضول بولنے کو بھی ناگوار تصور کیا گیا ہے اور سکوت و خاموشی کو پسندیدہ عمل شمار کیا گیا ہے،جس طرح آپ ؐنے فرمایا: ’’جو خاموش رہا، نجات پاگیا۔‘‘ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے بولنا بھی ایذا رسانی کی ایک صورت ہے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی تلاوت جیسی عبادت کو بھی ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں ناپسندکیا گیا ہے جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل آئے یا تکلیف کا باعث ہو۔نبی کریم ؐ نے آواز کو عام حالات میں بھی نیچا رکھنے کی تعلیم فرمائی ہے اور اس بات کی اس حد تک اہمیت مد نظر رہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں بھی آواز کو پست رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں۔ایک مقام پر فرمایا گیا’’تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے، سورج ، چاند ، تارے، پہاڑ ، درخت ، جانور اور بہت آدمی اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا عذاب۔‘‘(سورۃ الحج:18)یہ آیات اس طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان چوں کہ اسی ماحول کا حصہ ہے، اس حیثیت سے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسرے ماحولیاتی عناصر کی حفاظت کرے اور انہیں تلف ہونے سے بچائے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماحولیات کے دوسرے عناصر کو بھی اس کے تابع بنا دیا ہے، جیسے: سورج، چاند اور حیوانات وغیرہ۔ انسان پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ان پر بے شمار نعمتوں کا شکرانہ ہوگا۔
آنحضرتؐ کی مبارک زندگی تمام انسانوں کی ابدی کامرانی کی ضامن ہے اور زندگی کے تمام مسائل میں آپؐ نے اپنی امت کو بہم ہدایت کا سامان مہیا کیا ہے۔اس لئےایک مسلمان اور حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے سچے امتی کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے قابل وثوق انداز میں آپؐکی تعلیمات کو جاننا اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اسلام نے جہاں ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کئے ہیں، وہیں آلودہ ماحول سے انسانوں کی حفاظت کی خاطر پر حکمت اعمال کو انسانوں کی عبادات اور عادات میں شامل کردیا ہے جن کی وجہ سے انسان آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ بہرحال فضائی آلودگی ، زمین کی آلودگی اور آبی آلودگی کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں،جنہیں اختیار کرنے سے یقیناً ان آلودگیوں کی بحث ہی ختم ہوجائے گی۔اسلام تکلیف دہ ہنگاموں اور شوروغل کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور اس نے ماحول کو معتدل رکھنے کے لئے آواز میں اعتدال کی تعلیم دی ہے، تاکہ شور وہنگامے کی کیفیت پیدا نہ ہو، اور کسی کی آواز کسی کے لئے باعث اذیت نہ ہو ۔یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ان تمام ترآلودگیوں پر روک لگائی ہے، اور ایسے جامع احکام اور تعلیمات دیے ہیں ،جن سے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوتا اور پاک صاف ماحول اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
گزشتہ سال ہم نے اپنے ماحول کے لحاظ سے حساس جموں و کشمیر میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔ گرمیوں میں ریکارڈ توڑنے والے بلند ترین درجہ حرارت سے لے کر منجمد کردینے والی سردی کے علاوہ سردیوں کےآغاز میں ہی گھنی دُھند کی چادر اور غیر موسمی شدید بارشوں اور طویل خشک سالی بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اس ہمالیائی خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح آثار نمایاں ہورہے ہیں۔اپنی منفرد ٹوپوگرافی کی وجہ سے جموں و کشمیر قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میںہے۔ ان میں سے زیادہ تر قدرتی آفات ہماری بے ترتیب ترقیاتی سرگرمیوں اور آبی ذخائر، باغات، زرعی کھیتوں، پہاڑی ٹیلوں، پہاڑوں ، جنگلات اور قدرتی وسائل کی تباہی سے جنم لیتی ہیں۔نام نہاد ترقی کے عمل میں ہم اپنی فطرت کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم ماحول کے نازک علاقوں میں سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔ ہمارے ماحول کو بہت زیادہ ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور ہم ہی ہیں جو اپنی فطرت کو تباہ کرنے کے لیے اپنے اعمال کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ہمیں اس بات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ عالمی رہنمائی حدود سے تجاوز کرکے سیاسی نظریات سے اوپر اٹھ کر ماحول کے تحفظ کے لیے کس طرح کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ آلودگی دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ گزشتہ سال کئی ممالک نے موسمیاتی تبدیلی، فطرت اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی اور فضلہ کے تین گرہوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہاتھ ملایا۔گزشتہ سال فروری میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے درخواست کی گئی تھی کہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قانونی طور پر پابند بنایا جائے۔ 2030 تک دنیا بھر میں300000 کلومیٹر دریاؤں اور 350 ملین ہیکٹر آبی زمینوں کی حفاظت اور بحالی کے گزشتہ سالUNEP نے میٹھے پانی کے چیلنج کا آغاز کیا۔۔ اب تک 43 ممالک اس مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔ UNEP کے مطابق اس سے تاریخ کی سب سے بڑی ویٹ لینڈ اور دریا کی بحالی کی کوششیں ہوں گی ۔
یہ سیٹ ضروری ہے کیونکہ گزشتہ 50 سال میں دنیا کی ایک تہائی آب گاہیں ختم ہو چکی ہیں، جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ تنزلی کا شکار دریا ، جھیلیں اور ماحولیاتی نظام ہے۔میٹھے پانی کا چیلنج جموں و کشمیر کے لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کی آبی پناہ گاہوںکو بے لگام آلودگی، تجاوزات کی وجہ سے معدوم ہونے کے خطرہ کا سامنا ہے۔ جہلم کے سیلابی میدانوں میں ماحولیاتی طور پر اہم آبی پناہ گاہوںجیسے ہوکرسر، بمنہ ویٹ لینڈ، نار کرہ ویٹ لینڈ، بٹہ مالو نمبل، رکھ آرتھ، آنچار جھیل اور گلسرتیزی سے تجاوزات اور شہری کاری کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران خاص طور پر سری نگر کے جنوب میں شہری کالونیوں کے تحت 20 آبی پناہ گاہیں غائب ہو چکی ہیں۔ کشمیر کی لائف لائن سمجھے جانے والے دریائے جہلم کو سیوریج کے بہاؤ اور کوڑا کرکٹ پھینکنے سے پیدا ہونے والی آلودگی کی وجہ سے سنگین ماحولیاتی خطرہ لاحق ہے۔ ہمارے آبی ذخائر بشمول ڈل جھیل، ولر، آنچار، خوشحالسر اور گلسر بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔گزشتہ سال اپریل میں دنیا نے زیرو ویسٹ کا پہلا بین الاقوامی دن منایا۔ UNEP کے مطابق سالانہ دو بلین ٹن سے زیادہ میونسپل ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے، جس میں سے 45 فیصد کو ٹھکانے لگانے کاانتظام غلط ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بجا طور پر کہا ہے ’’اب وقت آگیا ہے کہ ہم واپس لوٹیں اور بربادی کے خلاف جنگ شروع کریں۔‘‘کشمیر میں،زیادہ تر ٹھوس فضلہ کو جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کے سائنسی اقدامات کی عدم موجودگی میں اسے آبی ذخائر اور جنگلات میں پھینک دیا جاتا ہے۔گزشتہ سال 5 جون کو ماحولیات کے عالمی دن پرممالک نے پلاسٹک کی آلودگی سے لڑنے اور ماحول دوست متبادل فراہم کرنے کا عزم کیا۔کوٹ ڈی آئیور نے پلاسٹک کی آلودگی سے لڑنے کے لیے ایک نئے ماحولیاتی ضابطے کی نقاب کشائی کی۔ کرغیزجمہوریہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ پلاسٹک کی کچھ مصنوعات سے دور ہونا شروع کر دے گا۔گزشتہ سال ہی جون میں اقوام متحدہ نے ایک معاہدہ اپنایا، جس کے تحت پہلی بار ماحولیاتی تحفظ کو سمندر کے دو تہائی حصے تک پھیلایا گیا جو قومی دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔یہ ’’ہائی سیز ٹریٹی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایک فریم ورک کا تصور دیتا ہے جو 1994 میں نافذ ہوا تھا۔
پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی نے گزشتہ سال پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے قانونی طور پر پابند عالمی آلے کا ایک صفر مسودہ جاری کیا۔ UNEP کے مطابق INC سیشن سیارے کے وسیع معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتے ہیں۔جموں و کشمیر میں پولی تھین اور سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی کے باوجود یہ مصنوعات بڑے پیمانے پر فروخت اور استعمال ہوتی رہتی ہیں۔ پولی تھین اور واحد استعمال پلاسٹک ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ اور گھٹا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں نظام کے ساتھ مستقل مسئلہ یہ رہا ہے کہ اہم قانون سازی پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے سب سے اہم تقریب اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP28) تھی۔اس تقریب نے ایک تاریخی اعلان کے تحت 200 جماعتوں نے عالمی درجہ حرارت کو1.5ڈگری تک محدود رکھنے اور قابل تجدید توانائی پکی طرف منتقل ہونے کے مقصد کے تحت دہائی کے اختتام سے قبل موسمیاتی کارروائی کے لیے ہاتھ ملایا۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP28)نے نقصان کا فنڈ بھی شروع کیا، تاکہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی خطرات سے دوچار کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد ملے۔تاہم جموں و کشمیر میں ہم اپنے ماحول کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔کسی زمانے میں اپنے صاف ستھرے ماحول کے لیے مشہور جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر نے کشمیر میں سموگ، دھوئیں اور دیگر انسانی وجہ سے پیدا ہونے والے ایروسول کا سب سے بڑا حصہ بننے کا’کارنامہ‘ حاصل کیا ہے۔ سری نگر نے پی ایم 2.5 کی سطح کو عالمی ادارہ صحت کے ہوا کے معیار کے رہنما خطوط کی قدر کےتجویز کردہ حد سے 2.9 گنا زیادہ عبور کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں اور اس سال اپنے ماحول کو بچانے کے لیے عزم کریں۔ آئیے اپنے قدرتی وسائل کو بچانے کی عالمی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ورنہ لگتا ہے وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم سانس لینےکے لیے ہانپیں گے اور پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں